صحيح البخاري
كِتَاب بَدْءِ الْخَلْقِ -- کتاب: اس بیان میں کہ مخلوق کی پیدائش کیونکر شروع ہوئی
6. بَابُ ذِكْرِ الْمَلاَئِكَةِ:
باب: فرشتوں کا بیان۔
حدیث نمبر: 3223
حَدَّثَنَا أَبُو الْيَمَانِ، أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ، حَدَّثَنَا أَبُو الزِّنَادِ، عَنْ الْأَعْرَجِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" الْمَلَائِكَةُ يَتَعَاقَبُونَ مَلَائِكَةٌ بِاللَّيْلِ وَمَلَائِكَةٌ بِالنَّهَارِ وَيَجْتَمِعُونَ فِي صَلَاةِ الْفَجْرِ وَصَلَاةِ الْعَصْرِ، ثُمَّ يَعْرُجُ إِلَيْهِ الَّذِينَ بَاتُوا فِيكُمْ فَيَسْأَلُهُمْ وَهُوَ أَعْلَمُ، فَيَقُولُ: كَيْفَ تَرَكْتُمْ عِبَادِي؟، فَيَقُولُونَ: تَرَكْنَاهُمْ يُصَلُّونَ وَأَتَيْنَاهُمْ يُصَلُّونَ".
ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا، کہا ہم کو شعیب نے خبر دی، کہا ہم سے ابوالزناد نے بیان کیا، ان سے اعرج نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ فرشتے آگے پیچھے زمین پر آتے جاتے رہتے ہیں، کچھ فرشتے رات کے ہیں اور کچھ دن کے اور یہ سب فجر اور عصر کی نماز میں جمع ہو جاتے ہیں۔ پھر وہ فرشتے جو تمہارے یہاں رات میں رہے۔ اللہ کے حضور میں جاتے ہیں، اللہ تعالیٰ ان سے دریافت فرماتا ہے .... حالانکہ وہ سب سے زیادہ جاننے والا ہے .... کہ تم نے میرے بندوں کو کس حال میں چھوڑا، وہ فرشتے عرض کرتے ہیں کہ جب ہم نے انہیں چھوڑا تو وہ (فجر کی) نماز پڑھ رہے تھے۔ اور اسی طرح جب ہم ان کے یہاں گئے تھے، جب بھی وہ (عصر) کی نماز پڑھ رہے تھے۔
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 98  
´باجماعت نماز کی فضیلت`
«. . . 331- وبه: أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: يتعاقبون فيكم ملائكة بالليل وملائكة بالنهار ويجتمعون فى صلاة الفجر وصلاة العصر ثم يعرج الذين باتوا فيكم فيسألهم وهو أعلم بهم كيف تركتم عبادي فيقولون تركناهم وهم يصلون وآتيناهم وهم يصلون. . . .»
. . . اور اسی سند کے ساتھ (سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے) روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تمہارے درمیان رات اور دن کو فرشتے آتے جاتے رہتے ہیں اور فجر کی نماز اور عصر کی نماز میں اکٹھے ہوتے ہیں، پھر جنہوں نے تمہارے درمیان رات گزاری (ہوتی ہے صبح کو) اوپر چڑھ جاتے ہیں تو ان سے (اللہ تعالیٰ) پوچھتا ہے اور وہ ان سے زیادہ جانتا ہے! میرے بندوں کو تم کس حال پر چھوڑ کر آئے ہو؟ تو وہ کہتے ہیں: ہم انہیں اس حالت میں چھوڑ آئے ہیں کہ وہ نماز پڑھ رہے تھے اور جب ہم ان کے پاس گئے تھے تب بھی وہ نماز پڑھ رہے تھے۔ . . . [موطا امام مالك رواية ابن القاسم/0/0: 98]

تخریج الحدیث:
[وأخرجه البخاري 555، ومسلم 632، من حديث مالك به]
تفقه:
➊ اللہ تعالیٰ سات آسمانوں سے اوپر اپنے عرش پر مستوی ہے جیسا کہ قرآن، حدیث اور اجماعِ صحابہ واجماعِ تابعین سے ثابت ہے۔
➋ فرشتوں کا آسمان پر جانا اور آنا روشنی کی رفتار کا محتاج نہیں ہے بلکہ وہ ایسی رفتار سے آتے جاتے ہیں جو روشنی کی رفتار سے بے حد زیادہ ہے۔ ہم اس کی کیفیت سے بے خبر ہیں۔
➌ اہل ایمان کے دل ودماغ میں ہر وقت نماز کا خیال رہتا ہے۔
➍ باجماعت نماز میں فرشتے بھی حاضر ہوتے ہیں۔
➎ غیب پر ایمان لانا ضروری ہے بشرطیکہ قرآن وحدیث سے ثابت ہو۔
➏ فجر اور عصر کی نمازیں بہت زیادہ فضیلت واہمیت کی حامل ہیں۔
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 331   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3223  
3223. حضرت ابو ہریرہ ؓسے روایت ہے، وہ نبی کریم ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: فرشتے لگاتار ایک د وسرے کے بعد آتے جاتے ہیں۔ کچھ فرشتے رات کو آتے ہیں اور کچھ دن کے وقت اترتے ہیں۔ یہ سب نماز فجر اور نماز عصر میں جمع ہوجاتے ہیں۔ پھر جو فرشتے تم میں رات بھر رہتے ہیں اور وہ اللہ کے حضور جاتے ہیں تو اللہ تعالیٰ ان سے پوچھتا ہے، حالانکہ وہ سب کچھ جانتا ہے: تم نے میرے بندوں کو کس حالت پر چھوڑا؟ وہ عرض کرتے ہیں: ہم نے ان کو (فجر کی) نماز پڑھتے ہوئے چھوڑا ہے اور جب ہم ان کے پاس گئے تھے تب بھی وہ نماز (عصر) پڑھ رہے تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3223]
حدیث حاشیہ:
ان جملہ احادیث کے لانے سے مجتہد مطلق حضرت امام بخاری ؒ کی غرض فرشتوں کا وجود ثابت کرنا ہے۔
جن پر ایمان لانا ارکان ایمان سے ہے۔
فرشتوں میں حضرت جبرئیل، میکائیل، اسرافیل ؑ زیادہ مشہور ہیں۔
باقی ان کی تعداد اتنی ہے جسے اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا، وہ سب اللہ کے بندے ہیں، اللہ کے فرمانبردار ہیں۔
اس کی اجازت بغیر وہ دم بھی نہیں مارسکتے نہ وہ کسی نفع نقصان کے مالک ہیں۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3223   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3223  
3223. حضرت ابو ہریرہ ؓسے روایت ہے، وہ نبی کریم ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: فرشتے لگاتار ایک د وسرے کے بعد آتے جاتے ہیں۔ کچھ فرشتے رات کو آتے ہیں اور کچھ دن کے وقت اترتے ہیں۔ یہ سب نماز فجر اور نماز عصر میں جمع ہوجاتے ہیں۔ پھر جو فرشتے تم میں رات بھر رہتے ہیں اور وہ اللہ کے حضور جاتے ہیں تو اللہ تعالیٰ ان سے پوچھتا ہے، حالانکہ وہ سب کچھ جانتا ہے: تم نے میرے بندوں کو کس حالت پر چھوڑا؟ وہ عرض کرتے ہیں: ہم نے ان کو (فجر کی) نماز پڑھتے ہوئے چھوڑا ہے اور جب ہم ان کے پاس گئے تھے تب بھی وہ نماز (عصر) پڑھ رہے تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3223]
حدیث حاشیہ:

فرشتے اپنی ڈیوٹی کے لیے یکے بعد دیگرے آتے جاتے ہیں۔
ایک گروہ آتا ہے تو دوسرا چلا جاتا ہے۔

ان تمام احادیث سے امام بخاری ى کی غرض فرشتوں کا وجود ثابت کرنا ہے جن پر ایمان لانا ارکان ایمان میں سے ہے۔
فرشتوں میں حضرت جبرئیل ؑ، حضرت میکائل ؑاور حضرت اسرافیل ؑ زیادہ مشہور ہیں۔
باقی تعداد میں اتنے ہیں کہ انھیں اللہ کے سوا اور کوئی نہیں جانتا۔
وہ سب اللہ کے عاجز بندے اور اس کی اطاعت گزار ہیں۔
وہ اللہ کی اجازت کے بغیر دم بھی نہیں مارسکتے اور نہ وہ کسی کے لیے نفع ونقصان ہی کے مالک ہیں۔
وہ شب و روز اللہ کی اطاعت اور اس کی عبادت میں مصروف ہیں۔
یہی ان کاکام اور اوڑھنا بچھونا ہے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3223