صحيح البخاري
كِتَاب بَدْءِ الْخَلْقِ -- کتاب: اس بیان میں کہ مخلوق کی پیدائش کیونکر شروع ہوئی
8. بَابُ مَا جَاءَ فِي صِفَةِ الْجَنَّةِ وَأَنَّهَا مَخْلُوقَةٌ:
باب: جنت کا بیان اور یہ بیان کہ جنت پیدا ہو چکی ہے۔
حدیث نمبر: 3245
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مُقَاتِلٍ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ، عَنْ هَمَّامِ بْنِ مُنَبِّهٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" أَوَّلُ زُمْرَةٍ تَلِجُ الْجَنَّةَ صُورَتُهُمْ عَلَى صُورَةِ الْقَمَرِ لَيْلَةَ الْبَدْرِ لَا يَبْصُقُونَ فِيهَا، وَلَا يَمْتَخِطُونَ وَلَا يَتَغَوَّطُونَ آنِيَتُهُمْ فِيهَا الذَّهَبُ أَمْشَاطُهُمْ مِنَ الذَّهَبِ وَالْفِضَّةِ وَمَجَامِرُهُمُ الْأَلُوَّةُ وَرَشْحُهُمُ الْمِسْكُ وَلِكُلِّ وَاحِدٍ مِنْهُمْ زَوْجَتَانِ يُرَى مُخُّ سُوقِهِمَا مِنْ وَرَاءِ اللَّحْمِ مِنَ الْحُسْنِ، لَا اخْتِلَافَ بَيْنَهُمْ، وَلَا تَبَاغُضَ قُلُوبُهُمْ قَلْبٌ وَاحِدٌ يُسَبِّحُونَ اللَّهَ بُكْرَةً وَعَشِيًّا".
ہم سے محمد بن مقاتل نے بیان کیا، کہا ہم کو عبداللہ نے خبر دی، کہا ہم کو معمر نے خبر دی، انہیں ہمام بن منبہ نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جنت میں داخل ہونے والے سب سے پہلے گروہ کے چہرے ایسے روشن ہوں گے جیسے چودہویں کا چاند روشن ہوتا ہے۔ نہ اس میں تھوکیں گے نہ ان کی ناک سے کوئی آلائش آئے گی اور نہ پیشاب، پاخانہ کریں گے۔ ان کے برتن سونے کے ہوں گے۔ کنگھے سونے چاندی کے ہوں گے۔ انگیٹھیوں کا ایندھن عود کا ہو گا۔ پسینہ مشک جیسا خوشبودار ہو گا اور ہر شخص کی دو بیویاں ہوں گی۔ جن کا حسن ایسا ہو گا کہ پنڈلیوں کا گودا گوشت کے اوپر سے دکھائی دے گا۔ نہ جنتیوں میں آپس میں کوئی اختلاف ہو گا اور نہ بغض و عناد، ان کے دل ایک ہوں گے اور وہ صبح و شام اللہ پاک کی تسبیح و تہلیل میں مشغول رہا کریں گے۔
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث4333  
´جنت کے احوال و صفات کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: پہلی جماعت جو جنت میں داخل ہو گی وہ چودھویں رات کے چاند کی طرح ہو گی، پھر جو لوگ ان کے بعد آئیں گے آسمان میں سب سے زیادہ روشن تارے کی طرح چمکتے ہوں گے، نہ وہ پیشاب کریں گے نہ پاخانہ، نہ وہ ناک صاف کریں گے نہ تھوکیں گے، ان کی کنگھیاں سونے کی ہوں گی اور پسینہ مشک کا ہو گا، ان کی انگیٹھیاں عود کی ہوں گی، ان کی بیویاں بڑی آنکھوں والی حوریں ہوں گی، سارے جنتیوں کی عادت ایک شخص جیسی ہو گی، سب اپنے والد آدم علیہ السلام کی شکل و صورت پر ہوں گے، ساٹھ ہاتھ کے لمبے۔‏‏‏‏ [سنن ابن ماجه/كتاب الزهد/حدیث: 4333]
اردو حاشہ:
فوائد ومسائل:

(1)
اہل جنت کو حسن و جمال ان کے اعمال اور درجا ت کے مطابق ملے گا۔

(2)
بلند درجات کے حامل مومن دوسروں سے پہلے جنت میں داخل ہوں گے۔

(3)
سب سے پہلے داخل ہونے سے مراد انبیائے کرام ؑ کے بعد دوسروں سے پہلے داخلہ ہے۔
یا امت محمدیہ میں سے سب سے پہلے داخل ہونے والے افراد مراد ہیں۔

(4)
پیشاب پاخانہ وغیرہ دنیا کی مادی غذا کا غِیر مفید جزء ہیں۔
جنت کی غذاوں میں کوئی ایسا جزء شامل نہیں ہوگا۔
اس لیے وہ مکمل ہضم ہو کر جزو بدن بن جائے گی۔
اور قضائے حاجت کی ضرورت پیش نہیں آئیگی۔

(5)
خو شبو بھی اللہ کی ایک نعمت ہے۔
دنیا میں اگربتی کی صورت میں اس کے مختلف مظاہر موجود ہے۔
جنت میں بھی یہ نعمت موجود ہو گی۔
چناچہ اس مقصد کے لیے بہترین قسم کی خوشبو دار لکڑی موجود ہوگی جو انگھیٹیوں میں جلائی جائے گی۔

(6)
عربی میں لفظ حور جمع ہے۔
حوراء اس عورت کو کہتے ہیں جس کی آنکھوں کا سفید حصہ خوب سفید اور سیاہ حصہ خوب سیاہ ہو۔
اہل عرب کے نزدیک یہ چیز خوبی اور حسن میں شامل تھی۔
۔
حدیث میں اس سے مراد وہ عورتیں ہیں جو اللہ تعالی نے جنت میں مومنوں کے لیے پیدا کی ہیں۔
جو حسن صورت اور حسن سیرت میں بے مثال ہیں۔

(7)
ساتھی اخلاق و عادات پسند و نا پسند میں جسقدر ہم خیال ہوں اتنا ہی انکی دوستی پختہ اور گہری ہوتی ہے۔
اہل جنت ہم خیال اور ہم ذ ہن ہونے کی وجہ سے ایک دوسرے سے بہت محبت رکھیں گے ان میں کوئی اختلاف اور جھگڑا نہیں ہوگا۔

(8)
تمام جنتی پورے قد و کاٹھ کے اور حسین اور جمیل ہوں گے۔

(9)
حضرت آدم علیہ سلام کو پیدا کیا گیا تو ان کا قد موجودہ اندازے سے ساٹھ ہاتھ نوے فٹ تھا۔
جنت میں سبھی لوگ اسی قد کے ہوں گے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 4333   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3245  
3245. حضرت ابو ہریرہ ؓ ہی سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: سب سے پہلا گروہ جو جنت میں داخل ہو گا ان کی صورت چودھویں رات کے چاند جیسی ہو گی۔ وہ نہ تو وہاں تھوکیں گے نہ بلغم نکالیں گے اور نہ بول و برازہی کریں گے۔ ان کے برتن سونے کے ہوں گے۔ اور ان کی کنگھیاں سونے اور چاندی کی ہوں گی۔ ان کی انگیٹھیوں میں عود سلگے گا اور ان کا پسینہ مشک جیسا ہو گا۔ ان میں سے ہر ایک کی دو بیویاں ہوں گی۔ لطافت حسن کی وجہ سے ان بیویوں کی پنڈلیوں کا گودا گوشت کے اوپر سے دکھائی دے گا۔ ان میں کوئی باہمی اختلاف نہیں ہو گا اور نہ دشمنی ہی رکھیں گے۔ ان سب کے دل ایک ہوں گے اور وہ صبح شام اللہ کی تسبیح میں مشغول رہا کریں گے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3245]
حدیث حاشیہ:

ان میں سے ہر ایک کی دو بیویاں ہوں گی۔
" اس کا مطلب ہے کہ کم ازکم دو ہوں گی یا حوریں دو ہوں گی۔

جنت میں صبح و شام سے مراد دوام اور استمرار ہے جیسا کہ کہا جاتا ہے تمھاراصبح و شام یہی کام ہے یعنی تم ہمیشہ اسی طرح کرتے رہتے ہو۔

اہل جنت کا تسبیح و تہلیل کرنا اس طرح ہو گا کہ جب سانس لیں گے تو خود بخود ان کی زبان سے تسبیح و تہلیل کی آواز پر آمد ہو گی۔
اس کا سبب یہ ہے کہ ان کے دل اللہ کی محبت سے لبریز ہوں گے جس کے باعث وہ بکثرت اللہ کا ذکر کریں گے۔
یعنی اہل جنت ہمیشہ اللہ کے ذکر سے لذت و سرور پاتے رہیں گے۔

اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جنت میں عورتوں کی تعداد زیادہ ہوگی۔
دراصل شفاعت کے بعد جنت میں عورتوں کی تعداد زیادہ ہو جائے گی۔
شفاعت سے پہلے جہنم میں ان کی اکثریت ہوگی۔
(عمدة القاري: 604/10)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3245