صحيح البخاري
كِتَاب بَدْءِ الْخَلْقِ -- کتاب: اس بیان میں کہ مخلوق کی پیدائش کیونکر شروع ہوئی
8. بَابُ مَا جَاءَ فِي صِفَةِ الْجَنَّةِ وَأَنَّهَا مَخْلُوقَةٌ:
باب: جنت کا بیان اور یہ بیان کہ جنت پیدا ہو چکی ہے۔
حدیث نمبر: 3251
حَدَّثَنَا رَوْحُ بْنُ عَبْدِ الْمُؤْمِنِ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ زُرَيْعٍ، حَدَّثَنَا سَعِيدٌ، عَنْ قَتَادَةَ، حَدَّثَنَا أَنَسُ بْنُ مَالِكٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" إِنَّ فِي الْجَنَّةِ لَشَجَرَةً يَسِيرُ الرَّاكِبُ فِي ظِلِّهَا مِائَةَ عَامٍ لَا يَقْطَعُهَا".
ہم سے روح بن عبدالمؤمن نے بیان کیا، کہا ہم سے یزید بن زریع نے بیان کیا، کہا ہم سے سعید بن ابی عروبہ نے بیان کیا، ان سے قتادہ نے اور ان سے انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جنت میں ایک درخت ہے جس کے سائے میں ایک سوار سو سال تک چل سکتا ہے اور پھر بھی اس کو طے نہ کر سکے گا۔
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 3293  
´سورۃ الواقعہ سے بعض آیات کی تفسیر۔`
انس رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جنت میں ایک درخت ہے، سوار اس کے سایہ میں سو سال تک چلے گا پھر بھی اس درخت کے سایہ کو عبور نہ کر سکے گا، اگر چاہو تو پڑھو «وظل ممدود وماء مسكوب» ان کے لیے دراز سایہ ہے اور (فراواں) بہتا ہوا پانی (الواقعہ: ۳۰)۔ [سنن ترمذي/كتاب تفسير القرآن/حدیث: 3293]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
ان کے لیے دراز سایہ ہے اور (فراواں) بہتا ہوا پانی (الواقعہ: 30)
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 3293   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3251  
3251. حضرت انس بن مالک ؓسے روایت ہے، وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: جنت میں ایک درخت اتنا بڑا ہے کہ اگر سوار اس کے سائے میں سو برس تک چلتا رہے تب بھی اسے طے نہ کرسکے گا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3251]
حدیث حاشیہ:
سورۃ واقعہ میں اللہ پاک نے جنت کے سائے کے بارے میں فرمایا وظل ممدود (الواقعة: 30)
یعنی وہاں درختوں کا سایہ دور دراز تک پھیلا ہوگا۔
یا اللہ ہم سب اس کتاب کے قدر دانوں کو جنت کا وہ سایہ عطا فرمائیو۔
احادیث و آیات سے روز روشن کی طرح واضح ہے کہ جنت ایک مجسم حقیقت کا نام ہے جو لوگ جنت کو محض خواب و خیال کی حد تک مانتے ہیں وہ خطرناک غلطی میں مبتلا ہیں۔
ایسے غلط خیال والوں کے لیے اگر جنت محض ایک خواب و ناقابل تعبیر ہی بن کر رہ جائے تو عجب نہیں ہے۔
اللهم لا تجعلنا منهم آمین۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3251