صحيح البخاري
كِتَاب بَدْءِ الْخَلْقِ -- کتاب: اس بیان میں کہ مخلوق کی پیدائش کیونکر شروع ہوئی
11. بَابُ صِفَةِ إِبْلِيسَ وَجُنُودِهِ:
باب: ابلیس اور اس کی فوج کا بیان۔
حدیث نمبر: 3272
حَدَّثَنَا مُحَمَّدٌ، أَخْبَرَنَا عَبْدَةُ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِذَا طَلَعَ حَاجِبُ الشَّمْسِ فَدَعُوا الصَّلَاةَ حَتَّى تَبْرُزَ وَإِذَا غَابَ حَاجِبُ الشَّمْسِ فَدَعُوا الصَّلَاةَ حَتَّى تَغِيبَ،
ہم سے محمد بن سلام نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم کو عبدہ نے خبر دی، انہیں ہشام بن عروہ نے، انہیں ان کے والد نے اور ان سے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب سورج کا اوپر کا کنارہ نکل آئے تو نماز نہ پڑھو جب تک وہ پوری طرح ظاہر نہ ہو جائے اور جب غروب ہونے لگے تب بھی اس وقت تک کے لیے نماز چھوڑ دو جب تک بالکل غروب نہ ہو جائے۔
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 198  
´عصر کے بعد اور طلوع آفتاب تک نماز کی ممانعت`
«. . . وبه: ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: لا يتحرى احدكم فيصلي عند طلوع الشمس ولا عند غروبها . . .»
. . . سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم میں سے کوئی آدمی جان بوجھ کر طلوع آفتاب اور غروب آفتاب کے وقت (نفل) نماز پڑھنے کی کوشش نہ کرے . . . [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 198]

تخریج الحدیث: [وأخرجه البخاري 585، ومسلم 828، من حديث مالك به]
تفقہ:
① سورج کے طلوع اور غروب ہونے کے وقت بغیر سبب والی نفل نماز منع ہے۔
② مزید فقہی فوائد کے لئے دیکھئے حدیثِ سابق: 96
③ جو لوگ طلوع آفتاب اور غروب آفتاب کے وقت (نفل) نماز پڑھتے تو انھیں سیدنا عمر رضی اللہ عنہ مارتے تھے۔ ديكهئے: [الموطا 221/1 ح 518 وسنده صحيح]
④ فرض نمازیں، کفایہ ہوں یا عین اور مسنون نمازیں ان ممنوعہ اوقات میں (دوسرے دلائل کی رو سے) جائز ہیں۔ دیکھئے التمہید [130/14]
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 196   
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 564  
´سورج نکلتے وقت نماز پڑھنے کی ممانعت کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم میں سے کوئی سورج نکلتے یا ڈوبتے وقت نماز پڑھنے کا قصد نہ کرے۔‏‏‏‏ [سنن نسائي/كتاب المواقيت/حدیث: 564]
564 ۔ اردو حاشیہ: گویا ان اوقات میں قصداً نماز شروع کرنا درست نہیں ہے۔ اگر کوئی شخص پہلے سے نماز پڑھ رہا ہے، اسی دوران میں سورج طلوع ہو جائے یا غروب ہو جائے یا سر پر آجائے تو نماز فاسد نہ ہو گی، وہ نماز جاری رکھے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 564   
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 572  
´عصر کے بعد نماز کی ممانعت کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب سورج کا کنارہ نکل آئے تو نماز کو مؤخر کرو، یہاں تک کہ وہ روشن ہو جائے، اور جب سورج کا کنارہ ڈوب جائے تو نماز کو مؤخر کرو یہاں تک کہ وہ ڈوب جائے۔‏‏‏‏ [سنن نسائي/كتاب المواقيت/حدیث: 572]
572 ۔ اردو حاشیہ: کسی وجہ اور سبب کے بغیر عین طلوع اور غروب کے وقت نماز شروع کرنا درست نہیں ہے، ہاں! اگر پہلے سے پڑھ رہا ہے تو جاری رکھے جیسے کہ احادیث: 551تا559 میں ذکر ہے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 572   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1415  
´جو شخص فجر کے بعد سجدہ والی آیت پڑھے تو وہ کب سجدہ کرے؟`
ابوتمیمہ طریف بن مجالد ہجیمی کہتے ہیں کہ جب ہم قافلہ کے ساتھ مدینہ آئے تو میں فجر کے بعد وعظ کہا کرتا تھا، اور (سجدہ کی آیت پڑھنے کے بعد) سجدہ کرتا تھا تو مجھے ابن عمر رضی اللہ عنہما نے اس سے تین مرتبہ منع کیا، لیکن میں باز نہیں آیا، آپ نے پھر کہا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، ابوبکر، عمر اور عثمان رضی اللہ عنہم کے پیچھے نماز پڑھی لیکن کسی نے سجدہ نہیں کیا یہاں تک کہ سورج نکل آیا۔ [سنن ابي داود/كتاب سجود القرآن /حدیث: 1415]
1415. اردو حاشیہ: یہ حدیث ضعیف ہے۔ اس لئے اوقات مکروہ میں نماز تو یقینا ً ناجائز ہے۔ مگر سجدہ تلاوت نماز نہیں ہے۔ بنا بریں اوقات مکروہہ میں سجدہ تلاوت جائز ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1415