صحيح البخاري
كِتَاب الْحَيْضِ -- کتاب: حیض کے احکام و مسائل
20. بَابُ لاَ تَقْضِي الْحَائِضُ الصَّلاَةَ:
باب: اس بارے میں کہ حائضہ عورت نماز قضاء نہ کرے۔
وَقَالَ جَابِرُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، وَأَبُو سَعِيدٍ: عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" تَدَعُ الصَّلَاةَ"
‏‏‏‏ اور جابر بن عبداللہ اور ابوسعید رضی اللہ عنہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ حائضہ نماز چھوڑ دے۔
حدیث نمبر: 321
حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، قَالَ: حَدَّثَنَا هَمَّامٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا قَتَادَةُ، قَالَ: حَدَّثَتْنِي مُعَاذَةُ، أَنَّ امْرَأَةً قَالَتْ لِعَائِشَةَ:" أَتَجْزِي إِحْدَانَا صَلَاتَهَا إِذَا طَهُرَتْ؟ فَقَالَتْ: أَحَرُورِيَّةٌ أَنْتِ، كُنَّا نَحِيضُ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَلَا يَأْمُرُنَا بِهِ أَوْ قَالَتْ فَلَا نَفْعَلُهُ".
ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا، کہا ہم سے ہمام بن یحییٰ نے، کہا ہم سے قتادہ نے، کہا مجھ سے معاذہ بنت عبداللہ نے کہ ایک عورت نے عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا کہ جس زمانہ میں ہم پاک رہتے ہیں۔ (حیض سے) کیا ہمارے لیے اسی زمانہ کی نماز کافی ہے۔ اس پر عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ کیا تم حروریہ ہو؟ ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں حائضہ ہوتی تھیں اور آپ ہمیں نماز کا حکم نہیں دیتے تھے۔ یا عائشہ رضی اللہ عنہا نے یہ فرمایا کہ ہم نماز نہیں پڑھتی تھیں۔
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 321  
´حائضہ عورت نماز قضاء نہ کرے`
«. . . حَدَّثَنَا قَتَادَةُ، قَالَ: حَدَّثَتْنِي مُعَاذَةُ، أَنَّ امْرَأَةً قَالَتْ لِعَائِشَةَ: " أَتَجْزِي إِحْدَانَا صَلَاتَهَا إِذَا طَهُرَتْ؟ فَقَالَتْ: أَحَرُورِيَّةٌ أَنْتِ، كُنَّا نَحِيضُ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَلَا يَأْمُرُنَا بِهِ أَوْ قَالَتْ فَلَا نَفْعَلُهُ " . . . .»
. . . ہم سے قتادہ نے، کہا مجھ سے معاذہ بنت عبداللہ نے کہ ایک عورت نے عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا کہ جس زمانہ میں ہم پاک رہتے ہیں۔ (حیض سے) کیا ہمارے لیے اسی زمانہ کی نماز کافی ہے۔ اس پر عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ کیا تم حروریہ ہو؟ ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں حائضہ ہوتی تھیں اور آپ ہمیں نماز کا حکم نہیں دیتے تھے۔ یا عائشہ رضی اللہ عنہا نے یہ فرمایا کہ ہم نماز نہیں پڑھتی تھیں۔ . . . [صحيح البخاري/كِتَاب الْحَيْضِ/بَابُ لاَ تَقْضِي الْحَائِضُ الصَّلاَةَ:: 321]

تشریح:
شیخنا المکرم مولانا عبدالرحمن صاحب مبارک پوری قدس سرہ فرماتے ہیں: «الحروري منسوب الي حرورابفتح وضم الراءالمهملتين وبعدالواو الساكنة راءايضاً بلدة على ميلين من الكوفة و يقال من يعتقد مذهب الخوارج حروري لان اول فرقة منهم خرجواعلي على بالبلدة المذكورة فاشتهروا بالنسبة اليها وهم فرق كثيرة لكن من اصولهم المتفق عليها بينهم الاخذ بما دل عليه القرآن وردما زاد عليه من الحديث مطلقا .» [تحفة الاحوذي، ج1، ص: 123]
یعنی حروری حرورا گاؤں کی طرف نسبت ہے جو کوفہ سے دو میل کے فاصلہ پر تھا۔ یہاں پر سب سے پہلے وہ فرقہ پیدا ہوا جس نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے خلاف بغاوت کا جھنڈا بلند کیا۔ یہ خارجی کہلائے، جن کے کئی فرقے ہیں مگر یہ اصول ان سب میں متفق ہے کہ صرف قرآن کو لیا جائے اور حدیث کو مطلقاً رد کر دیا جائے گا۔

چونکہ حائضہ پر فرض نماز کا معاف ہو جانا صرف حدیث سے ثابت ہے۔ قرآن میں اس کا ذکر نہیں ہے۔ اس لیے مخاطب کے اس مسئلہ کی تحقیق کرنے پر سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ کیا تم حروری تو نہیں جو اس مسئلہ کے متعلق تم کو تامل ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 321   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 321  
321. حضرت معاذہ بیان کرتی ہیں کہ ایک عورت نے حضرت عائشہ‬ ؓ س‬ے عرض کیا: جب ہم میں سے کوئی حیض سے پاک ہو تو کیا وہ فوت شدہ نمازوں کی قضا ادا کرے؟ حضرت عائشہ‬ ؓ ن‬ے فرمایا: کیا تو حروریہ (خارجی) ہے؟ ہمیں نبی ﷺ کے عہد مبارک میں حیض آتا تھا اور آپ ہمیں نماز کا حکم نہیں دیتے تھے یا فرمایا: ہم نماز نہیں پڑھتے تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:321]
حدیث حاشیہ:
شیخنا المکرم حضرت مولاناعبدالرحمن صاحب مبارک پوری ؒ فرماتے ہیں:
''الْحَرُورِيُّ مَنْسُوبٌ إِلَى حَرُورَا بِفَتْحِ الْحَاءِ وَضَمِّ الرَّاءِ الْمُهْمَلَتَيْنِ وَبَعْدَ الْوَاوِ السَّاكِنَةِ رَاءٌ أَيْضًا بَلْدَةٌ عَلَى مِيلَيْنِ مِنَ الْكُوفَةِ وَيُقَالُ لِمَنْ يَعْتَقِدُ مَذْهَبَ الْخَوَارِجِ حَرُورِيٌّ لِأَنَّ أَوَّلَ فِرْقَةٍ مِنْهُمْ خَرَجُوا عَلَى عَلِيٍّ بِالْبَلْدَةِ الْمَذْكُورَةِ فَاشْتُهِرُوا بِالنِّسْبَةِ إِلَيْهَا وَهُمْ فِرَقٌ كَثِيرَةٌ لَكِنْ مِنْ أُصُولِهِمِ الْمُتَّفَقِ عَلَيْهَا بَيْنَهُمِ الْأَخْذُ بِمَا دَلَّ عَلَيْهِ الْقُرْآنُ وَرَدُّ مَا زَادَ عَلَيْهِ مِنَ الْحَدِيثِ مُطْلَقًا۔
'' (تحفة الأحوذي،ج1، ص: 123)
یعنی حروری حرورا گاؤں کی طرف نسبت ہے جو کوفہ سے دومیل کے فاصلہ پر تھا۔
یہاں پر سب سے پہلے وہ فرقہ پیداہوا جس نے حضرت علی ؓ کے خلاف بغاوت کا جھنڈا بلند کیا۔
یہ خارجی کہلائے، جن کے کئی فرقے ہیں، مگریہ اصول ان سب میں متفق ہے کہ صرف قرآن کو لیا جائے اور حدیث کو مطلقاً رد کردیا جائے گا۔
چونکہ حائضہ پر فرض نماز کا معاف ہوجانا صرف حدیث سے ثابت ہے۔
قرآن میں اس کا ذکر نہیں ہے۔
اس لیے مخاطب کے اس مسئلہ کی تحقیق کرنے پر حضرت عائشہ ؓ نے فرمایا کہ کیاتم حروری تو نہیں جو اس مسئلہ کے متعلق تم کو تامل ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 321   
  حافظ عمران ايوب لاهوري حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 321  
´حائضہ عورت دوران حیض چھوڑی ہوئی نمازوں کی قضا نہیں دے`
«. . . حَدَّثَتْنِي مُعَاذَةُ، أَنَّ امْرَأَةً قَالَتْ لِعَائِشَةَ: " أَتَجْزِي إِحْدَانَا صَلَاتَهَا إِذَا طَهُرَتْ؟ فَقَالَتْ: أَحَرُورِيَّةٌ أَنْتِ، كُنَّا نَحِيضُ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَلَا يَأْمُرُنَا بِهِ أَوْ قَالَتْ فَلَا نَفْعَلُهُ " . . . .»
. . . مجھ سے معاذہ بنت عبداللہ نے کہ ایک عورت نے عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا کہ جس زمانہ میں ہم پاک رہتے ہیں۔ (حیض سے) کیا ہمارے لیے اسی زمانہ کی نماز کافی ہے۔ اس پر عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ کیا تم حروریہ ہو؟ ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں حائضہ ہوتی تھیں اور آپ ہمیں نماز کا حکم نہیں دیتے تھے۔ یا عائشہ رضی اللہ عنہا نے یہ فرمایا کہ ہم نماز نہیں پڑھتی تھیں۔ . . . [صحيح البخاري/كِتَاب الْحَيْضِ/بَابُ لاَ تَقْضِي الْحَائِضُ الصَّلاَةَ: 321]

تخريج الحديث:
[192۔ البخاري فى: 6 كتاب الحيض: 20 باب لا تقضي الحائض الصلاة 321، مسلم 335، ابن ماجه 631]
لغوی توضیح:
«اَحَرُوْرِيَّة» کیا حروریہ ہو۔ یہ حروراء کی طرف نسبت ہے، یہ وہ بستی ہے جہاں خوارج ابتدائی طور پر اکٹھے ہوئے تھے، تو اس جملے سے مراد یہ ہوئی کہ کیا تم خارجی ہو؟ کیونکہ خوارج کا ایک گروہ حائضہ عورت پر دوران حیض چھوڑی ہوئی نمازیں بھی فرض قرار دیتا تھا جو کہ اجماع کے خلاف ہے۔ کیونکہ اس مسئلے پر سلف کا اجماع ہے کہ حائضہ عورت دوران حیض چھوڑی ہوئی نمازوں کی قضا نہیں دے گی بلکہ صرف روزوں کی قضا دے گی، جیسا کہ امام نووی، امام شوکانی اور امام ابن منذر رحمہم اللہ نے نقل فرمایا ہے۔ [المجموع 351/2، السيل الجرار 148/1، الإجماع لابن المنذر ص: 37]
اور یہ صحیح حدیث سے بھی ثابت ہے۔ [صحيح: صحيح أبوداود 236، أبوداود 263، بخاري 321، مسلم 335، ترمذي 130]
   جواہر الایمان شرح الولووالمرجان، حدیث/صفحہ نمبر: 192   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 262  
´حائضہ عورت نماز قضاء نہ کرے۔`
معاذہ سے روایت ہے کہ ایک عورت نے ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا: کیا حائضہ نماز کی قضاء کرے گی؟ تو اس پر آپ نے کہا: کیا تو حروریہ ہے ۱؎؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں ہمیں حیض آتا تھا تو ہم نماز کی قضاء نہیں کرتے تھے اور نہ ہی ہمیں قضاء کا حکم دیا جاتا تھا۔ [سنن ابي داود/كتاب الطهارة /حدیث: 262]
262۔ اردو حاشیہ:
خوارج کو حروراء مقام کی طرف نسبت کرتے ہوئے حروری بھی کہتے ہیں کیونکہ انہوں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے خلاف خروج کے بعد سب سے پہلا اجتماع مقام حروراء میں کیا تھا جو کوفہ کے قریب تھا۔ وہ حائضہ کے لیے ایام حیض کی چھوٹی ہوئی نمازوں کی قضا کرنے کے قائل بھی تھے۔ ان کا نظریہ یہ تھا کہ جو کچھ قرآن سے ثابت ہو وہی قابل عمل ہے اور جو امور زائدہ احادیث میں آئے ہیں ان کی کوئی شرعی حیثیت نہیں ہے اور مرتکب کبیرہ کافر ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 262   
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 382  
´حائضہ سے نماز ساقط ہونے کا بیان۔`
معاذہ عدویہ کہتی ہیں کہ ایک عورت نے ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے دریافت کیا: کیا حائضہ اپنی نماز قضاء کرے گی؟ تو انہوں نے کہا: کیا تو حروریہ ۱؎ (خارجیہ) ہے؟ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حائضہ ہوتی تھیں، تو نہ ہم قضاء کرتے اور نہ ہمیں قضاء کا حکم دیا جاتا تھا۔ [سنن نسائي/كتاب الحيض والاستحاضة/حدیث: 382]
382۔ اردو حاشیہ:
➊ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے اس عورت کو خارجی اس لیے کہا کہ خوارج کے نزدیک حیض کے دنوں کی نماز کی قضا ادا کرنا ضروری ہے۔
➋ عورت کو حیض کے دنوں کی نماز کی قضا ادا کرنا اس لیے معاف ہے کہ ہر ماہ تیس پینتیس نمازوں کی قضا کافی مشکل ہے جب کہ ساتھ ساتھ وقتی نمازوں کی ادائیگی بھی لازمی ہے۔ بخلاف اس کے گیارہ مہینوں میں چھ سات روزوں کی ادائیگی آسان ہے جب کہ ساتھ وقتی روزے بھی نہیں، اس لیے حائضہ کو روزوں کی قضا ادا کرنے کا حکم دیا گیا۔ گویا اس مسئلے میں تنگی دور کرنے کو بنیاد بنایا گیا ہے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 382   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث631  
´حائضہ عورت نماز کی قضاء نہ پڑھے۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ ایک عورت نے ان سے پوچھا: کیا حائضہ نماز کی قضاء کرے گی؟ انہوں نے کہا: کیا تو حروریہ (خارجیہ) ہے؟ ۱؎ ہمیں تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حیض آتا تھا، پھر ہم پاک ہو جاتے تھے، آپ ہمیں نماز کی قضاء کا حکم نہیں دیتے تھے ۲؎۔ [سنن ابن ماجه/أبواب التيمم/حدیث: 631]
اردو حاشہ:
(1)
عورت حیض کی حالت میں نماز نہیں پڑھ سکتی۔ (صحيح البخاري، الحيض، باب ترك الحائض الصوم، حديث: 304)
 اس مسئلہ پر بعض خوارج کے سوا تمام مسلمانوں کا اتفاق ہے۔
اس لیے حضرت عائشہ نے اس خاتون کے سوال پر تعجب کرتے ہوئے فرمایا کہ ایسے سوال تو خارجی کرتے ہیں۔

(2)
یہ اللہ کا عورتوں پر احسان ہے کہ اس نے ان ایام کی چھوٹی ہوئی نمازوں کی قضاء کا حکم نہیں دیا ورنہ ہر مہینے آٹھ دس دن کی مسلسل قضاء نمازیں ادا کرنا بہت مشکل ہوتا۔
اس کے برعکس روزے سال میں ایک ہی دفعہ آتے ہیں لہٰذا چھوٹے ہوئے آٹھ دس روزے سال کے گیارہ مہینوں میں کسی بھی وقت رکھ لینا مشکل نہیں۔

(3)
عبادات میں یہ اصول ہے کہ کوئی عمل اس وقت تک واجب نہیں ہوتا جب تک اس کا حکم نہ دیا جائے اس سے حضرت عائشہ نے استدلال کرتے ہوئے فرمایا کہ اگر ان نمازوں کی قضاء واجب ہوتی نبی صلی اللہ علیہ وسلم ضرور حکم فرماتے۔
اس کے برعکس معاملات میں جواز اور اباحت اصل ہے۔
جب تک کسی کام کی ممانعت کی دلیل نہ ہو وہ جائز ہی سمجھا جائے گا، اس اصول کو برات اصلية کہتے ہیں۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 631   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 787  
´حائضہ عورت روزہ کی قضاء کرے گی نماز کی نہیں۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ہمیں حیض آتا پھر ہم پاک ہو جاتے تو آپ ہمیں روزے قضاء کرنے کا حکم دیتے اور نماز قضاء کرنے کا حکم نہیں دیتے۔ [سنن ترمذي/كتاب الصيام/حدیث: 787]
اردو حاشہ:
1؎:
اس کی وجہ یہ ہے کہ روزے کی قضا اتنی مشکل نہیں ہے جتنی نماز کی قضا ہے کیونکہ یہ پورے سال میں صرف ایک بار کی بات ہوتی ہے اس کے بر خلاف نماز حیض کی وجہ سے ہر مہینے چھ یا سات دن کی نماز چھوڑنی پڑتی ہے،
اور کبھی کبھی دس دس دن کی نماز چھوڑنی پڑ جاتی ہے،
اس طرح سال کے تقریباً چار مہینے نماز کی قضاء کرنی پڑے گی جو انتہائی دشوار امر ہے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 787   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:321  
321. حضرت معاذہ بیان کرتی ہیں کہ ایک عورت نے حضرت عائشہ‬ ؓ س‬ے عرض کیا: جب ہم میں سے کوئی حیض سے پاک ہو تو کیا وہ فوت شدہ نمازوں کی قضا ادا کرے؟ حضرت عائشہ‬ ؓ ن‬ے فرمایا: کیا تو حروریہ (خارجی) ہے؟ ہمیں نبی ﷺ کے عہد مبارک میں حیض آتا تھا اور آپ ہمیں نماز کا حکم نہیں دیتے تھے یا فرمایا: ہم نماز نہیں پڑھتے تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:321]
حدیث حاشیہ:

حافظ ابن حجر ؓ نے حائضہ کے لیے قضائے صلوات کے متعلق عدم واجب پر اجماع نقل کیا ہے صرف خوارج کے ایک گروہ کا موقف ہے کہ حائضہ کو فراغت کے بعد فوت شدہ نمازوں کی قضا دینا ضروری ہے غالباً حضرت عائشہ ؓ نے اسی لیے سائلہ کو حروریہ کہا یہ ایک ایسے مقام کی طرف نسبت ہے جہاں خوارج حضرت علی ؓ کے خلاف اکٹھے ہوئے تھے اور علم بغاوت بلند کیا تھا ان کے بے شمار فرقے ہیں، البتہ یہ عقیدہ سب میں مشترک ہے کہ جو مسئلہ قرآن کریم کی نص سے ثابت ہے، اسی پر عمل کرنا ضروری ہے، ان کی نظر میں احادیث کی کوئی اہمیت نہیں۔
اس دور کے خوارج یعنی منکرین حدیث کا بھی یہی نظریہ ہے ان کے نزدیک احادیث "أسفارلهو الحدیث" اور عجمی سازش ہے، چونکہ حائضہ سے فرضیت نماز کا ساقط ہونا صرف حدیث سے ثابت ہے، قرآن کریم میں اس کے متعلق کوئی ہدایت نہیں، اس لیے وہ حائضہ کے لیے فوت شدہ نمازوں کی قضا ضروری قراردیتے ہیں۔
(فتح الباري: 546/1)

روایت میں حضرت عائشہ ؓ سے سوال کرنے والی ایک گمنام عورت ہے، دیگر روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ خود حضرت معاذه بنت عبد اللہ العدویہ ہیں۔
چنانچہ حضرت عائشہ ؓ کے سوال کرنے پر اس نے عرض کیا کہ میں حرویہ نہیں ہوں بلکہ صرف مسئلہ دریافت کرنا چاہتی ہوں۔
(صحیح مسلم، الحیض، حدیث: 763 (335)
حضرت عائشہ ؓ نے حائضہ کے لیے عدم قضائے نماز کی دلیل تو پیش کردی، لیکن اس کی علت بیان نہیں فرمائی۔
علمائے امت نے اس کی وجہ یہ لکھی ہے کہ نماز کا وجوب یا بار بار اور زیادہ ہے، اتنی زیادہ نمازوں کی قضا میں کافی تنگی اور دشواری کا سامنا کرنا پڑے گا، جبکہ روزے میں ایسا نہیں ہے، وہ سال میں ایک مرتبہ آتے ہیں۔
(فتح الباري: 547/1)
امام بخاری ؒ نے حضرت جابر ؓ اور حضرت ابو سعید خدری ؓ کی تعلیمات کا بالمعنی ذکر کیا ہے، کیونکہ حدیث جابر کے الفاظ یہ ہیں کہ حائضہ طواف نہیں کرے گی اور نہ نماز ہی پڑھے گی۔
(صحیح البخاري، التمینی حدیث 7230)
اور حدیث ابوسعید خدری ؓ کے الفاظ یہ ہیں کہ عورت کو جب حیض آتا ہے تو وہ نماز نہیں پڑھتی اور نہ روزے ہی رکھتی ہے۔
(صحیح البخاري، الحیض، حدیث: 304)
یہاں ایک اشکال ہے کہ عنوان تو عدم قضا سے متعلق ہے، لیکن تعلیقات سے عدم ایقاع ثابت ہوتا ہے، لہٰذا عنوان اور تعلیقات میں تقریب نام نہیں۔
اس کا جواب یہ ہے کہ عنوان کے دو جز ہیں۔
حائضہ نماز چھوڑے۔
اسے بطور قضا نپ پڑھے پہلے جز کے اثبات کے لیے حضرت جابر ؓ اور حضرت ابو سعید خدری ؓ کی تعلیقات کو پیش کیا ہے کہ حائضہ نماز چھوڑدے اور دوسرا جز کہ وہ طہارت کے بعد قضا بھی نہ کرے، اسے حدیث عائشہ ؓ سے ثابت کیا ہے۔
علامہ اسماعیلی ؒ نے اس روایت کو بایں الفاظ نقل کیا ہے۔
ہم ان نمازوں کی قضا نہیں دیتی تھیں اور نہ ہمیں اس کے متعلق کہا ہی جاتا تھا۔
گویا امام بخاری ؒ نے تعلیقات کو موصول حدیث کے لیے ایک مقدمے کی حیثیت سے پیش کیا ہے۔
(فتح الباري: 546/1)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 321