صحيح البخاري
كِتَاب بَدْءِ الْخَلْقِ -- کتاب: اس بیان میں کہ مخلوق کی پیدائش کیونکر شروع ہوئی
17. بَابُ إِذَا وَقَعَ الذُّبَابُ فِي شَرَابِ أَحَدِكُمْ فَلْيَغْمِسْهُ، فَإِنَّ فِي إِحْدَى جَنَاحَيْهِ دَاءً وَفِي الأُخْرَى شِفَاءً:
باب: اس حدیث کا بیان جب مکھی پانی یا کھانے میں گر جائے تو اس کو ڈبو دے کیونکہ اس کے ایک پر میں بیماری ہوتی ہے اور دوسرے میں شفاء ہوتی ہے۔
حدیث نمبر: 3325
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ، حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ، قَالَ: أَخْبَرَنِي يَزِيدُ بْنُ خُصَيْفَةَ، قَالَ: أَخْبَرَنِي السَّائِبُ بْنُ يَزِيدَ سَمِعَ سُفْيَانَ بْنَ أَبِي زُهَيْرٍ الشَّنَئِيَّ، أَنَّهُ سَمِعَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ:" مَنِ اقْتَنَى كَلْبًا لَا يُغْنِي عَنْهُ زَرْعًا وَلَا ضَرْعًا نَقَصَ مِنْ عَمَلِهِ كُلَّ يَوْمٍ قِيرَاطٌ، فَقَالَ: السَّائِبُ أَنْتَ سَمِعْتَ هَذَا مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: إِي وَرَبِّ هَذِهِ الْقِبْلَةِ".
ہم سے عبداللہ بن مسلمہ نے بیان کیا، کہا ہم سے سلیمان نے بیان کیا، کہا کہ مجھے یزید بن خصیفہ نے خبر دی، کہا کہ مجھے سائب بن یزید نے خبر دی، انہوں نے سفیان بن ابی زہیر شنوی رضی اللہ عنہ سے سنا، انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس نے کوئی کتا پالا، نہ تو پالنے والے کا مقصد کھیت کی حفاظت ہے اور نہ مویشیوں کی، تو روزانہ اس کے نیک عمل میں سے ایک قیراط (ثواب) کی کمی ہو جاتی ہے۔ سائب نے پوچھا، کیا تم نے خود یہ حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی تھی؟ انہوں نے کہا، ہاں! اس قبلہ کے رب کی قسم (میں نے خود اس حدیث کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے)۔
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3325  
3325. حضرت سفیان بن ابو زہیر شنوی ؓسے روایت ہے، انھوں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے سنا: جس نے کوئی کتاپالا، جس سے نہ تو کسی کو فائدہ پہنچتا ہے اور نہ مویشیوں ہی کے کام آتا ہے تو اس کے اعمال میں سے ہر روز ایک قیراط کم ہوتا رہتا ہے۔ حضرت سائب بن یزید ؓنے پوچھا: کیا اس حدیث کو آپ نے رسول اللہ ﷺ سے سنا ہے؟ توانھوں نے کہا: جی ہاں، مجھے اس قبلے کے رب کی قسم ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3325]
حدیث حاشیہ:

جو کتے مویشیوں یا کھیتی کی حفاظت یا شکار کے لیے رکھے گئے ہوں وہ اس حکم سے مستثنیٰ ہیں۔
ان کے علاوہ جو کتے شوقیہ طور پر رکھے جائیں۔
ان کے لیے مذکورہ وعید ہے۔

بعض روایات میں ہے کہ شوقیہ کتے رکھنے والے کے نیک اعمال سے روزانہ دوقیراط کم ہوتے رہیں گے۔
(صحیح البخاري، الذبائح والصید، حدیث: 5480)
ان دونوں روایات میں تضاد نہیں ہے کیونکہ جب لوگ اس سے باز نہ آئے تو بطور زجر و توبیخ دوقیراط فرمایا کتے کی اذیت کے پیش نظر فرمایا کہ جس کتے سے اذیت زیادہ ہواسے پالنے سے دوقیراط ثواب کم اور جس سے اذیت کم ہو، اس کے پالنے سے ایک قیراط ثواب کم ہوتارہتاہے یا یہ اختلاف جگہ کے اعتبار سے ہوگا کہ مدینہ طیبہ میں ایسے کتے پالنے سے دوقیراط اور دیگر مقامات پرایک قیراط اوردیگر مقامات پر ایک قیراط ثواب کم ہوتا رہے گا۔
قیراط کی مقدار اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے۔
(عمدة القاري: 671/10)

کتے کبھی نہ کبھی کسی کا ضرور نقصان کردیتے ہیں، اس نقصان کے عوض اس کے پالنے والے پرذمہ داری ہوگی۔
حفاظت یا شکار کے لیے جو کسی رکھے جائیں، ان پر مالک کا ضرور کنٹرول ہوتا ہے، اس لیے انھیں مستثنیٰ کردیا گیا ہے۔
یہ کتاب بدء الخلق کا آخری باب ہے، اس لیے ان احادیث کا ذکر ہوا جس میں کسی نہ کسی حوالے سے حیوانات کاتذکرہ ہے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3325