صحيح البخاري
كِتَاب أَحَادِيثِ الْأَنْبِيَاءِ -- کتاب: انبیاء علیہم السلام کے بیان میں
1M. بَابُ قَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى: {وَإِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلاَئِكَةِ إِنِّي جَاعِلٌ فِي الأَرْضِ خَلِيفَةً} :
باب: اللہ تعالیٰ کا (سورۃ البقرہ میں) یہ فرمانا ”اے رسول! وہ وقت یاد کر جب تیرے رب نے فرشتوں سے کہا میں زمین میں ایک (قوم کو) جانشین بنانے والا ہوں“۔
قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: {لَمَّا عَلَيْهَا حَافِظٌ} إِلاَّ عَلَيْهَا حَافِظٌ {فِي كَبَدٍ} فِي شِدَّةِ خَلْقٍ. وَرِيَاشًا الْمَالُ. وَقَالَ غَيْرُهُ الرِّيَاشُ وَالرِّيشُ وَاحِدٌ، وَهْوَ مَا ظَهَرَ مِنَ اللِّبَاسِ. {مَا تُمْنُونَ} النُّطْفَةُ فِي أَرْحَامِ النِّسَاءِ. وَقَالَ مُجَاهِدٌ: {إِنَّهُ عَلَى رَجْعِهِ لَقَادِرٌ} النُّطْفَةُ فِي الإِحْلِيلِ. كُلُّ شَيْءٍ خَلَقَهُ فَهْوَ شَفْعٌ، السَّمَاءُ شَفْعٌ، وَالْوِتْرُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ. {فِي أَحْسَنِ تَقْوِيمٍ} فِي أَحْسَنِ خَلْقٍ {أَسْفَلَ سَافِلِينَ} إِلاَّ مَنْ آمَنَ {خُسْرٍ} ضَلاَلٌ، ثُمَّ اسْتَثْنَى إِلاَّ مَنْ آمَنَ {لاَزِبٍ} لاَزِمٌ. {نُنْشِئَكُمْ} فِي أَيِّ خَلْقٍ نَشَاءُ. {نُسَبِّحُ بِحَمْدِكَ} نُعَظِّمُكَ. وَقَالَ أَبُو الْعَالِيَةِ: {فَتَلَقَّى آدَمُ مِنْ رَبِّهِ كَلِمَاتٍ} فَهْوَ قَوْلُهُ: {رَبَّنَا ظَلَمْنَا أَنْفُسَنَا}، {فَأَزَلَّهُمَا} فَاسْتَزَلَّهُمَا. وَ{يَتَسَنَّهْ} يَتَغَيَّرْ، آسِنٌ مُتَغَيِّرٌ، وَالْمَسْنُونُ الْمُتَغَيِّرُ {حَمَإٍ} جَمْعُ حَمْأَةٍ وَهْوَ الطِّينُ الْمُتَغَيِّرُ. {يَخْصِفَانِ} أَخْذُ الْخِصَافِ {مِنْ وَرَقِ الْجَنَّةِ} يُؤَلِّفَانِ الْوَرَقَ وَيَخْصِفَانِ بَعْضَهُ إِلَى بَعْضٍ {سَوْآتُهُمَا} كِنَايَةٌ عَنْ فَرْجِهِمَا {وَمَتَاعٌ إِلَى حِينٍ} هَاهُنَا إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ، الْحِينُ عِنْدَ الْعَرَبِ مِنْ سَاعَةٍ إِلَى مَا لاَ يُحْصَى عَدَدُهُ. {قَبِيلُهُ} جِيلُهُ الَّذِي هُوَ مِنْهُمْ.
‏‏‏‏ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا سورۃ الطارق میں جو «لما عليها حافظ‏» کے الفاظ ہیں، یہاں «لما» «إلا» کے معنے میں ہے۔ یعنی کوئی جان نہیں مگر اس پر اللہ کی طرف سے ایک نگہبان مقرر ہے، (سورۃ البلد میں جو) «في كبد‏» کا لفظ آیا ہے «كبد‏» کے معنی سختی کے ہیں۔ اور (سورۃ الاعراف میں) جو «ريشا» کا لفظ آیا ہے «رياش» اس کی جمع ہے یعنی مال۔ یہ ابن عباس رضی اللہ عنہما کی تفسیر ہے دوسروں نے کہا، «رياش» اور «ريش» کا ایک ہی معنی ہے۔ یعنی ظاہری لباس اور (سورۃ واقعہ میں) جو «تمنون‏» کا لفظ آیا ہے اس کے معنی «نطفة» کے ہیں جو تم عورتوں کے رحم میں (جماع کر کے) ڈالتے ہو۔ (اور سورۃ الطارق میں ہے) «إنه على رجعه لقادر‏» مجاہد نے کہا اس کے معنے یہ ہیں کہ وہ اللہ منی کو پھر ذکر میں لوٹا سکتا ہے (اس کو فریابی نے وصل کیا، اکثر لوگوں نے یہ معنی کئے ہیں کہ وہ اللہ آدمی کے لوٹانے یعنی قیامت میں پیدا کرنے پر قادر ہے) (اور سورۃ السجدہ میں) «كل شىء خلقه» کا معنی یہ ہے کہ ہر چیز کو اللہ نے جوڑے جوڑے بنایا ہے۔ آسمان زمین کا جوڑ ہے (جن آدمی کا جوڑ ہے، سورج چاند کا جوڑ ہے۔) اور طاق اللہ کی ذات ہے جس کا کوئی جوڑ نہیں ہے۔ سورۃ التین میں ہے «في أحسن تقويم‏» یعنی اچھی صورت اچھی خلقت میں ہم نے انسان کو پیدا کیا۔ «أسفل سافلين‏ إلا من آمن» یعنی پھر آدمی کو ہم نے پست سے پست تر کر دیا (دوزخی بنا دیا) مگر جو ایمان لایا۔ (سورۃ العصر میں) «في خسر‏» کا معنی گمراہی میں پھر ایمان والوں کو مستثنیٰ کیا۔ (فرمایا «الا الذين امنوا») سورۃ والصافات میں «لازب‏» کے معنی لازم (یعنی چمٹتی ہوئی لیس دار) سورۃ الواقعہ میں الفاظ «ننشئكم‏‏ في ما لا تعلمون» ‏‏‏‏ یعنی جونسی صورت میں ہم چاہیں تم کو بنا دیں۔ (سورۃ البقرہ میں) «نسبح بحمدك‏» یعنی فرشتوں نے کہا کہ ہم تیری بڑائی بیان کرتے ہیں۔ ابوالعالیہ نے کہا اسی سورۃ میں جو ہے «فتلقى آدم من ربه كلمات‏» » ‏‏‏‏ وہ کلمات یہ ہیں «ربنا ظلمنا أنفسنا‏» اسی سورۃ میں «فأزلهما‏» کا معنی یعنی ان کو ڈگمگا دیا پھسلا دیا۔ (اسی سورۃ میں ہے) «لم يتسنه‏» یعنی بگڑا تک نہیں۔ اسی سے (سورۃ محمد میں) «آسن» یعنی بگڑا ہوا (بدبودار پانی) اسی سے سورۃ الحجر میں لفظ «مسنون» ہے یعنی بدلی ہوئی بدبودار۔ (اسی سورۃ میں) «حمإ‏» کا لفظ ہے جو «حمأة» کی جمع ہے یعنی بدبودار کیچڑ (سورۃ الاعراف میں) لفظ «يخصفان‏» کے معنی یعنی دونوں آدم اور حواء نے بہشت کے پتوں کو جوڑنا شروع کر دیا۔ ایک پر ایک رکھ کر اپنا ستر چھپانے لگے۔ لفظ «سوآتهما‏» سے مراد شرمگاہ ہیں۔ لفظ «ومتاع إلى حين‏» میں «حين‏» سے قیامت مراد ہے، عرب لوگ ایک گھڑی سے لے کر بے انتہا مدت تک کو «حين‏» کہتے ہیں۔ «قبيله‏» سے مراد شیطان کا گروہ جس میں وہ خود ہے۔
حدیث نمبر: 3326
حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، عَنْ مَعْمَرٍ، عَنْ هَمَّامٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" خَلَقَ اللَّهُ آدَمَ وَطُولُهُ سِتُّونَ ذِرَاعًا، ثُمَّ قَالَ: اذْهَبْ فَسَلِّمْ عَلَى أُولَئِكَ مِنَ الْمَلَائِكَةِ فَاسْتَمِعْ مَا يُحَيُّونَكَ تَحِيَّتُكَ وَتَحِيَّةُ ذُرِّيَّتِكَ، فَقَالَ: السَّلَامُ عَلَيْكُمْ، فَقَالُوا: السَّلَامُ عَلَيْكَ وَرَحْمَةُ اللَّهِ فَزَادُوهُ وَرَحْمَةُ اللَّهِ فَكُلُّ مَنْ يَدْخُلُ الْجَنَّةَ عَلَى صُورَةِ آدَمَ فَلَمْ يَزَلِ الْخَلْقُ يَنْقُصُ حَتَّى الْآنَ".
ہم سے عبداللہ بن محمد نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے عبدالرزاق نے بیان کیا، ان سے معمر نے، ان سے ہمام نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ پاک نے آدم علیہ السلام کو پیدا کیا تو ان کو ساٹھ ہاتھ لمبا بنایا پھر فرمایا کہ جا اور ان ملائکہ کو سلام کر، دیکھنا کن لفظوں میں وہ تمہارے سلام کا جواب دیتے ہیں کیونکہ وہی تمہارا اور تمہاری اولاد کا طریقہ سلام ہو گا۔ آدم علیہ السلام (گئے اور) کہا، السلام علیکم فرشتوں نے جواب دیا، السلام علیک ورحمۃ اللہ۔ انہوں نے ورحمۃ اللہ کا جملہ بڑھا دیا، پس جو کوئی بھی جنت میں داخل ہو گا وہ آدم علیہ السلام کی شکل اور قامت پر داخل ہو گا، آدم علیہ السلام کے بعد انسانوں میں اب تک قد چھوٹے ہوتے رہے۔
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3326  
3326. حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے، وہ نبی کریم ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: "اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم ؑ کو پیداکیا تو ان کا قد ساٹھ ہاتھ تھا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے ان سے فرمایا کہ جاؤ اور ان فرشتوں کو سلام کرو، نیز غور سے سنو وہ تمھیں کیا جواب دیتے ہیں؟وہی تمہارا اور تمہاری اولاد کا سلام ہوگا، چنانچہ حضرت آدم ؑ نے کہا: "السلام علیکم"تم پر اللہ کی سلامتی ہو۔ فرشتوں نے جواب دیا: "السلام علیک ورحمۃ اللہ"تجھ پر سلامتی اور اللہ کی رحمت ہو۔ انھوں نے ورحمۃ اللہ کا اضافہ کیا۔ بہرحال جو لوگ جنت میں داخل ہوں گے وہ سب حضرت آدم ؑ کی شکل وصورت پر ہوں گے گویہ لوگ ابتدائے پیدائش سے اب تک جسامت میں کم ہورہے ہیں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3326]
حدیث حاشیہ:
چھوٹے ہوتے ہوتے اس حد کو پہنچے جس حد پر یہ امت ہے۔
ابن قتیبہ نے کہا کہ آدم بے ریش و بروت تھے، گھونگروالے بال اور نہایت خوبصورت تھے۔
قسطلانی نے کہا بہشتی سب ان ہی کی صورت اور حسن و جمال کے ساتھ جنت میں داخل ہوں گے اور دنیا میں جو رنگ کی سیاہی یا بدصورتی ہے وہ جاتی رہے گی۔
یا اللہ راقم کو بھی بایں صورت جنت کا داخلہ نصیب کیجےؤ اور ان سب بھائیوں مردوں عورتوں کو بھی جو بخاری شریف کا یہ مقام مطالعہ فرماتے وقت باآواز بلند آمین کہیں۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3326