صحيح البخاري
كِتَاب أَحَادِيثِ الْأَنْبِيَاءِ -- کتاب: انبیاء علیہم السلام کے بیان میں
1M. بَابُ قَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى: {وَإِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلاَئِكَةِ إِنِّي جَاعِلٌ فِي الأَرْضِ خَلِيفَةً} :
باب: اللہ تعالیٰ کا (سورۃ البقرہ میں) یہ فرمانا ”اے رسول! وہ وقت یاد کر جب تیرے رب نے فرشتوں سے کہا میں زمین میں ایک (قوم کو) جانشین بنانے والا ہوں“۔
حدیث نمبر: 3332
حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ حَفْصٍ، حَدَّثَنَا أَبِي، حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ، حَدَّثَنَا زَيْدُ بْنُ وَهْبٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ، حَدَّثَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ الصَّادِقُ الْمَصْدُوقُ:" إِنَّ أَحَدَكُمْ يُجْمَعُ فِي بَطْنِ أُمِّهِ أَرْبَعِينَ يَوْمًا، ثُمَّ يَكُونُ عَلَقَةً مِثْلَ ذَلِكَ، ثُمَّ يَكُونُ مُضْغَةً مِثْلَ ذَلِكَ، ثُمَّ يَبْعَثُ اللَّهُ إِلَيْهِ مَلَكًا بِأَرْبَعِ كَلِمَاتٍ فَيُكْتَبُ عَمَلُهُ وَأَجَلُهُ وَرِزْقُهُ وَشَقِيٌّ أَوْ سَعِيدٌ، ثُمَّ يُنْفَخُ فِيهِ الرُّوحُ فَإِنَّ الرَّجُلَ لَيَعْمَلُ بِعَمَلِ أَهْلِ النَّارِ حَتَّى مَا يَكُونُ بَيْنَهُ وَبَيْنَهَا إِلَّا ذِرَاعٌ فَيَسْبِقُ عَلَيْهِ الْكِتَابُ فَيَعْمَلُ بِعَمَلِ أَهْلِ الْجَنَّةِ فَيَدْخُلُ الْجَنَّةَ، وَإِنَّ الرَّجُلَ لَيَعْمَلُ بِعَمَلِ أَهْلِ الْجَنَّةِ حَتَّى مَا يَكُونُ بَيْنَهُ وَبَيْنَهَا إِلَّا ذِرَاعٌ فَيَسْبِقُ عَلَيْهِ الْكِتَابُ فَيَعْمَلُ بِعَمَلِ أَهْلِ النَّارِ فَيَدْخُلُ النَّارَ".
ہم سے عمر بن حفص نے بیان کیا، کہا ہم سے میرے والد نے بیان کیا، کہا ہم سے اعمش نے بیان کیا، کہا ہم سے زید بن وہب نے بیان کیا، کہا ہم سے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرمایا اور آپ سچوں کے سچے تھے کہ انسان کی پیدائش اس کی ماں کے پیٹ میں پہلے چالیس دن تک پوری کی جاتی ہے۔ پھر وہ اتنے ہی دنوں تک «علقة» یعنی غلیظ اور جامد خون کی صورت میں رہتا ہے۔ پھر اتنے ہی دنوں کے لیے «مضغة» (گوشت کا لوتھڑا) کی شکل اختیار کر لیتا ہے۔ پھر (چوتھے چلہ میں) اللہ تعالیٰ ایک فرشتہ کو چار باتوں کا حکم دے کر بھیجتا ہے۔ پس وہ فرشتہ اس کے عمل، اس کی مدت زندگی، روزی اور یہ کہ وہ نیک ہے یا بد، کو لکھ لیتا ہے۔ اس کے بعد اس میں روح پھونکی جاتی ہے۔ پس انسان (زندگی بھر) دوزخیوں کے کام کرتا رہتا ہے۔ اور جب اس کے اور دوزخ کے درمیان صرف ایک ہاتھ کا فاصلہ رہ جاتا ہے تو اس کی تقدیر سامنے آتی ہے اور وہ جنتیوں کے کام کرنے لگتا ہے اور جنت میں چلا جاتا ہے۔ اسی طرح ایک شخص جنتیوں کے کام کرتا رہتا ہے اور جب اس کے اور جنت کے درمیان صرف ایک ہاتھ کا فاصلہ رہ جاتا ہے تو اس کی تقدیر سامنے آتی ہے اور وہ دوزخیوں کے کام شروع کر دیتا ہے اور وہ دوزخ میں چلا جاتا ہے۔
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث مشكوة المصابيح 82  
´تقدیر کا غالب آنا`
«. . . ‏‏‏‏عَن عبد الله بن مَسْعُود قَالَ: حَدَّثَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ الصَّادِق المصدوق: «إِن أحدكُم يجمع خلقه فِي بطن أمه أَرْبَعِينَ يَوْمًا ثمَّ يكون فِي ذَلِك علقَة مثل ذَلِك ثمَّ يكون فِي ذَلِك مُضْغَة مثل ذَلِك ثمَّ يُرْسل الْملك فينفخ فِيهِ الرّوح وَيُؤمر بِأَرْبَع كَلِمَات بكتب رزقه وأجله وَعَمله وشقي أَو سعيد فوالذي لَا إِلَه غَيره إِن أحدكُم لَيَعْمَلُ بِعَمَلِ أَهْلِ الْجَنَّةِ حَتَّى مَا يَكُونُ بَيْنَهُ وَبَيْنَهَا إِلَّا ذِرَاعٌ فَيَسْبِقُ عَلَيْهِ الْكِتَابُ فَيَعْمَلُ بِعَمَلِ أَهْلِ النَّارِ فَيَدْخُلُهَا وَإِنَّ أَحَدَكُمْ لَيَعْمَلُ بِعَمَلِ أَهْلِ النَّارِ حَتَّى مَا يَكُونُ بَيْنَهُ وَبَيْنَهَا إِلَّا ذِرَاعٌ فَيَسْبِقُ عَلَيْهِ الْكِتَابُ فَيَعْمَلُ بِعَمَلِ أَهْلِ الْجَنَّةِ فَيَدْخُلُهَا» . . .»
. . . سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو سچے ہیں اور سچے کیے گئے ہیں ہم لوگوں کو یہ حدیث بیان فرمائی کہ تم میں سے ہر ایک کی پیدائش کی (ابتداء میں یہ صورت ہوتی ہے) کہ چالیس روز تک ماں کے پیٹ میں نطفہ جمع کیا جاتا ہے یعنی معمولی تغیر کے ساتھ نطفہ رہتا ہے، پھر یہ نطفہ چالیس روز کے اندر منجمد خون کی شکل اختیار کرتا ہے پھر چالیس روز میں گوشت کا لوتھڑا بن جاتا ہے اس کے بعد اللہ تعالیٰ اس کے پاس ایک فرشتہ چار باتوں کا حکم دے کر بھیجتا ہے تو وہ فرشتہ اس کے عمل و کام کو، اور اس کی موت کو، اور اس کی روزی کو، اور اس کے نیک بخت اور بدبخت ہونے کو لکھتا ہے پھر اس میں روح پھونکی جاتی ہے۔ اس اللہ کی قسم جس کے سوا کوئی معبود نہیں ہے کہ تم میں سے کوئی شخص ساری زندگی اہل جنت کا کام کرتا ہے یہاں تک کہ اس میں اور جنت میں صرف ایک ہاتھ کا فاصلہ رہ جاتا ہے (مگر اس پر) تقدیر کا لکھا ہوا غالب آ جاتا ہے اور دوزخیوں کا کام کر کے دوزخ میں داخل ہو جاتا ہے اور (اسی طرح سے) تم میں سے ایک شخص ساری زندگی دوزخیوں کے کام کرتا ہے یہاں تک کہ اس کے اور دوزخ کے درمیان صرف ایک ہاتھ کا فاصلہ رہ جاتا ہے تو اس پر نوشتہ تقدیر غالب آ جاتا ہے اور آخر عمر میں جنتیوں کا کام کر کے جنت میں داخل ہو جاتا ہے۔ اس حدیث کو بخاری و مسلم نے روایت کیا ہے (جنتی دوزخی ہونا خاتمہ کے عمل پر موقوف ہے اگر خاتمہ بالخیر ہو تو جنتی اور اگر خاتمہ بالشر ہوا تو جہنمی اور ایک ہاتھ کا فاصلہ مثال کے طور پر کہا گیا ہے مراد نزدیک ہونا ہے۔) . . . [مشكوة المصابيح/كِتَاب الْإِيمَانِ: 82]

تخریج:
[صحيح بخاري 6594]،
[صحيح مسلم 6723]

فقہ الحدیث:
➊ عقیدہ تقدیر برحق ہے۔
➋ کون خوش قسمت ہے اور کون بدقسمت؟ یہ سب اللہ تعالیٰ کو معلوم ہے اور اس نے اپنے علم سے، اسے تقدیر میں لکھ رکھا ہے۔
➌ سچی توبہ کرنے سے سابقہ گناہ معاف ہو جاتے ہیں، لہٰذا کسی توبہ کرنے والے شخص کو سابقہ گناہوں اور غلطیوں پر ملامت نہیں کرنا چاہئیے۔
➍ کفریہ عقائد و اعمال انسان کو جہنم کی طرف لے جاتے ہیں اور اللہ کے فضل و کرم سے اسلامی عقائد و اعمال انسان کے جنت میں داخلے کا ذریعہ بن جاتے ہیں۔
➎ جن عقائد و اعمال پر خاتمہ ہوتا ہے اسی کا اعتبار ہے، لہٰذا ہر وقت اللہ تعالیٰ سے خاتمہ بالخیر کی دعا مانگنی چاہئیے۔
➏ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہر بات میں سچے اور امین تھے، چاہے نبوت سے پہلے کی زندگی تھی یا بعد کی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مخالفین بھی آپ کو سچا اور امین مانتے تھے۔
➐ جدید طبی تحقیقات نے اس حدیث کی تصدیق کر دی ہے، جس سے اہل ایمان کا ایمان اور زیادہ ہو جاتا ہے۔ «والحمد لله عليٰ كل حال»
➑ اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ چار ماہ کے بعد بچے میں روح پھونک دی جاتی ہے۔ اگر پانچ ماہ یا زیادہ مدت والا بچہ مردہ پیدا ہو جائے یا پیدا ہوتے ہی مر جائے تو اس کی نماز جنازہ پڑھنی چاہیے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
«والسقط يصلي عليه ويدعيٰ لوالديه بالمغفرة والرحمة»
اور «سقط» (ناتمام بچہ جو اپنی میعاد سے پہلے گر جائے) کی نماز جنازہ پڑھی جائے گی اور اس کے والدین کے لئے مغفرت و رحمت کی دعا کی جائے گی۔ [سنن ابي داود: 3180 وسنده صحيح، سنن الترمذي: 1031، وقال: حسن صحيح وصححه ابن حبان: 769 والحاكم عليٰ شرط البخاري 1؍363 ووافقه الذهبي]
◈ اس حدیث کے راوی سیدنا مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
«سقط» کی نماز جنازہ پڑھی جائے گی اور اس کے والدین کے لئے مغفرت و رحمت کی دعا کی جائے گی۔ [مصنف ابن ابي شيبه 3؍317 ح11589 وسنده صحيح]
◈ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نے ناتمام مردہ بچے کی نماز جنازہ پڑھی، نافع نے کہا کہ مجھے پتا نہیں کہ وہ زندہ پیدا ہو کر (مر گیا تھا) یا پیدا ہی مردہ ہوا تھا۔ [ابن ابي شيبه 3؍317 ح 11584، وسنده صحيح]
◈ مشہور تابعی محمد بن سیرین رحمہ اللہ نے فرمایا:
اگر اس کی تخلیق پوری ہو جائے تو اس کا نام رکھا جائے گا اور اس کی نماز جنازہ اسی طرح پڑھی جائے گی، جس طرح بڑے آدمی کی پڑھی جاتی ہے۔ [ابن ابي شيبه 3؍317 ح11588، وسنده صحيح]
◈ عبدالرحمٰن بن ابی لیلیٰ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
ہم اپنی اولاد میں سے کسی کو بھی نماز جنازہ پڑھے بغیر نہیں چھوڑیں گے۔ [ابن ابي شيبه 3؍317 ح11590، وسنده صحيح]
◈ امام ترمذی رحمہ اللہ نے فرمایا:
«والعمل عليه عند بعض أهل العلم من أصحاب النبى صلى الله عليه وسلم وغيرهم، قالوا: يصليٰ على الطفل وإن لم يستهل بعد أن يعلم أنه خلق وهو قول أحمد وإسحاق»
صحابہ کرام وغیرہم میں سے بعض کا اسی پر عمل ہے، انہوں نے کہا: بچے کی نماز جنازہ پڑھی جائے گی اگرچہ وہ پیدا ہوتے وقت آواز نہ نکالے، یہ معلوم ہو جانے کے بعد کہ اس کی تخلیق (مکمل) ہو چکی ہے اور أحمد (بن حنبل) اور اسحاق (بن راہویہ) کا یہی قول ہے۔ [سنن الترمذي: 1031]
↰ جو علماء مردہ بچے کی نماز جنازہ کے قائل نہیں ہیں، ان کا قول نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث کے خلاف ہونے کی وجہ سے متروک و ناقابل حجت ہے۔
❀ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ چھوٹے بچے پر نماز جنازہ میں درج ذیل دعا پڑھتے تھے:
«اللَّهُمَّ اجْعَلْهُ فَرَطَاً وَذُخْراً»
اے اللہ! اسے امیر سامان، آگے چلنے والا اور ذخیرہ بنادے۔ [السنن الكبريٰ للبيهقي 4؍10، وسنده حسن]
   اضواء المصابیح فی تحقیق مشکاۃ المصابیح، حدیث/صفحہ نمبر: 82   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث76  
´قضا و قدر (تقدیر) کا بیان۔`
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جو صادق و مصدوق (یعنی جو خود سچے ہیں اور سچے مانے گئے ہیں) نے بیان کیا کہ پیدائش اس طرح ہے کہ تم میں سے ہر ایک کا نطفہ خلقت ماں کے پیٹ میں چالیس دن تک جمع رکھا جاتا ہے، پھر وہ چالیس دن تک جما ہوا خون رہتا ہے، پھر چالیس دن تک گوشت کا ٹکڑا ہوتا ہے، پھر اللہ تعالیٰ اس کے پاس چار باتوں کا حکم دے کر ایک فرشتہ بھیجتا ہے، اللہ تعالیٰ اس فرشتہ سے کہتا ہے: اس کا عمل، اس کی مدت عمر، اس کا رزق، اور اس کا بدبخت یا نیک بخت ہونا لکھو، قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے تم میں سے۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابن ماجه/كتاب السنة/حدیث: 76]
اردو حاشہ:
(1)
تقدیر کا مطلب یہ ہے کہ ابد تک جو کچھ بھی ہونے والا ہے، اس کا علم پہلے سے اللہ کو ہے اور اس نے اسے لکھ رکھا ہے۔
اب جو کچھ ہوتا ہے وہ اس کے ازلی علم کے مطابق ہی ہوتا ہے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ اللہ نے گناہ گار کو گناہ کرنے پر مجبور کیا ہے۔
انسان اللہ کی دی ہوئی طاقت ہی سے نیکی یا گناہ کرتا ہے۔
اگراللہ تعالیٰ چاہتا تو یہ اختیار چھین لیتا لیکن وہ ایسا نہیں کرتا، البتہ اسے پہلے سے معلوم ہے کہ فلاں بندہ اس اختیار کو صحیح طریقے سے استعمال کر کے اس کی خوشنودی حاصل کر لے گا اور فلاں بندہ اس اختیار کے غلط استعمال کی وجہ سے اللہ کو ناراض کر کے سزا کا مستحق ہو جائے گا۔

(2)
انسان کے نیک و بد اعمال، اس کی عمر، اس کا رزق اور اس کا جنتی یا جہنمی ہونا ایک خاص وقت پر اللہ کے بتانے سے فرشتوں کے علم میں آتا ہے اور وہ لکھ لیتے ہیں، اگرچہ یہ فیصلے ازل میں ہو چکے ہیں اور لوح محفوظ میں درج ہو چکے ہیں۔

(3)
ماں کے پیٹ میں انسان کی تخلیق کے مختلف مراحل ہیں۔
ایک مرحلے سے دوسرے مرحلہ میں وہ دیکھنے میں خون سے زیادہ مشابہ محسوس ہوتا ہے۔
تیسرے مرحلے میں اعضاء بننے لگتے ہیں لیکن مجموعی طور پر وہ نرم گوشت کے ٹکڑے سے مشابہ نظر آتا ہے۔

(4)
ہر انسان کی عمر مقرر ہے۔
اس سے پہلے فوت نہیں ہو سکتا، لہذا بندے کو جان کے خوف سے ایمان ترک نہیں کرنا چاہیے بلکہ ایمان کی حفاظت کے لیے جان قربان کرنے کے لیے تیار رہنا چاہیے۔

(5)
ہر انسان کا رزق مقرر ہو چکا ہے جو اسے بہرحال ملنا ہے، بندے کی آزمائش اسی چیز میں ہے کہ وہ اس کے حصول کے لیے کون سے ذرائع اختیار کرنے سے بھی نہیں ملے گی، اس لیے اللہ پر توکل کرتے ہوئے رزق حلال حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔

(6)
کسی شخص کے بارے میں بالیقین جنتی یا جہنمی ہونے کا فیصلہ نہیں کرنا چاہیے۔
یہ بات صرف اللہ تعالیٰ کو معلوم ہے کہ کون جنت میں جانے والا ہے اور کون جہنم کا ایندھن بننے والا ہے، البتہ اللہ تعالیٰ کی رحمت کی امید رکھنا ضروری ہے اور کسی نیک آدمی کے بارے میں اظہار خیال کرتے ہوئے یہی کہنا چاہیے کہ ہمارے خیال میں وہ نیک آدمی تھا اور ہم اللہ کی رحمت سے امید رکھتے ہیں کہ وہ جنت میں جائے گا، البتہ جن افراد کے متعلق اللہ تعالیٰ نے یا اس کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بتا دیا ہے، ان کے جنتی یا جہنمی ہونے کے بارے میں یقین رکھنا چاہیے، مثلا:
ابولہب اور اس کی بیوی کا جہنمی ہونا، جیسے سورہ لہب میں مذکور ہے یا عشرہ مبشرہ رضی اللہ عنھم کا جنتی ہونا وغیرہ۔

(7)
کسی غیر مسلم یا گناہ گار کو تبلیغ کی جائے اور وہ قبول نہ کرے تو یہ نہیں کہنا چاہیے کہ اسے ہرگز ہدایت نہیں ملے گی کیونکہ اس کا علم صرف اللہ کو ہے ممکن ہے آخری وقت میں ہدایت نصیب ہو جائے، جیسے ایک یہودی لڑکے کو مرض الموت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسلام لانے کو کہا، تو وہ اسلام لے آیا اور فوت ہو گیا۔ (صحيح البخاري، الجنائز، باب إذا أسلم الصبي فمات هل يُصلي عليه... حديث: 1356)

(8)
مومن کو نیکیوں پر فخر نہیں کرنا چاہیے بلکہ اللہ کا خوف رکھتے ہوئے استقامت کی دعا کرتے رہنا چاہیے۔
حضرت یوسف علیہ السلام نے دعا فرمائی تھی:
  ﴿فاطِرَ‌ السَّمـوتِ وَالأَر‌ضِ أَنتَ وَلِيّۦ فِى الدُّنيا وَالءاخِرَ‌ةِ تَوَفَّنى مُسلِمًا وَأَلحِقنى بِالصّـلِحينَ﴾  (یوسف: 101)
 اے زمین اور آسمان کے بنانے والے! تو ہی دنیا اور آخرت مین میرا دوست اور کارساز ہے، مجھے اسلام کی حالت میں فوت کرنا اور نیکوں میں شامل کر دینا۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 76   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 2137  
´خاتمہ والے اعمال معتبر ہونے کا بیان۔`
عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ ہم سے صادق و مصدوق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان کیا ۱؎، تم میں سے ہر آدمی اپنی ماں کے پیٹ میں چالیس دن تک نطفہ کی شکل میں رہتا ہے، پھر اتنے ہی دن تک «علقة» (یعنی جمے ہوئے خون) کی شکل میں رہتا ہے، پھر اتنے ہی دن تک «مضغة» (یعنی گوشت کے لوتھڑے) کی شکل میں رہتا ہے، پھر اللہ تعالیٰ اس کے پاس فرشتہ بھیجتا ہے جو اس کے اندر روح پھونکتا ہے، پھر اسے چار چیزوں (کے لکھنے) کا حکم کیا جاتا ہے، چنانچہ وہ لکھتا ہے: اس کا رزق، اس کی موت، اس کا عمل اور یہ چیز کہ وہ «شقي» (بدبخت) ہے یا «سعيد» (نیک بخ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ترمذي/كتاب القدر/حدیث: 2137]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
یعنی سچے ہیں او ر سچی بات آپ کی طرف وحی کی جاتی ہے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 2137   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4708  
´تقدیر (قضاء و قدر) کا بیان۔`
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں ہم سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (آپ صادق اور آپ کی صداقت مسلم ہے) بیان فرمایا: تم میں سے ہر شخص کا تخلیقی نطفہ چالیس دن تک اس کی ماں کے پیٹ میں جمع رکھا جاتا ہے، پھر اتنے ہی دن وہ خون کا جما ہوا ٹکڑا رہتا ہے، پھر وہ اتنے ہی دن گوشت کا لوتھڑا رہتا ہے، پھر اس کے پاس ایک فرشتہ بھیجا جاتا ہے اور اسے چار باتوں کا حکم دیا جاتا ہے: تو وہ اس کا رزق، اس کی عمر، اس کا عمل لکھتا ہے، پھر لکھتا ہے: آیا وہ بدبخت ہے یا نیک بخت، پھر وہ اس میں روح پھونکتا ہے، اب اگر تم میں سے کوئی جنتیوں کے عمل کرتا ہے، یہاں تک کہ اس ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابي داود/كتاب السنة /حدیث: 4708]
فوائد ومسائل:
1: بظاہر اگر کوئی انسان ایک راہ پر جارہا ہوتو یہ نہیں سمجھنا چاہیے کہ وہ ہمیشہ اسی راہ پر چلتا رہے گا، اس کے اگر آخر میں جا کر بھی راستہ بدل لینا ہے تو یہ سب پہلے سے اللہ کے علم کے مطابق لکھا ہواہے۔

2: تقدیرکا معاملہ سراسر غیب کا معاملہ ہے، انسان کو خود بھی خیر کے عمل کرکے دھوکے میں نہیں پڑنا چاہیے کہ بس بخشا گیا یا غلط ہونے کی وجہ سے بابکل ہی مایوس نہیں ہونا چاہیے کہ بس مارا گیا، بلکہ ہمیشہ اللہ الرحمن الرحیم سے بھلائی کی توفیق مانگتے رہنا چاہیے اور غلط کشی سے فورا توبہ کرنی چاہیے اور یہ دعا بھی کرنا چاہیے: (یا مقلبَ القلوبِ ثَبِّت قلبي علی دینِكَ)  (جامع الترمذي، الدعوات،باب: الدعاء، یا مقلب القلوب، حدیث: 3522) (اللهم مصرفَ القلوبِ صرِّف قلبي علی طاعتِكَ)  (صحیح مسلم، القدر،باب تصریف اللہ تعالی القلوب کیف یشاء، حدیث: 2654) اے دلوں کے بدلنے والے، مجھے اپنے دین کی اطاعت پر ثابت قدم رکھ۔
۔
۔
۔
اور اے دلوں کے پھیرنے والے! میرے دل کو اپنی اطاعت کی طرف پھیر دے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 4708