صحيح البخاري
كِتَاب أَحَادِيثِ الْأَنْبِيَاءِ -- کتاب: انبیاء علیہم السلام کے بیان میں
1M. بَابُ قَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى: {وَإِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلاَئِكَةِ إِنِّي جَاعِلٌ فِي الأَرْضِ خَلِيفَةً} :
باب: اللہ تعالیٰ کا (سورۃ البقرہ میں) یہ فرمانا ”اے رسول! وہ وقت یاد کر جب تیرے رب نے فرشتوں سے کہا میں زمین میں ایک (قوم کو) جانشین بنانے والا ہوں“۔
حدیث نمبر: 3334
حَدَّثَنَا قَيْسُ بْنُ حَفْصٍ، حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ الْحَارِثِ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ أَبِي عِمْرَانَ الْجَوْنِيِّ، عَنْ أَنَسٍ يَرْفَعُهُ، إِنَّ اللَّهَ يَقُولُ:" لِأَهْوَنِ أَهْلِ النَّارِ عَذَابًا لَوْ أَنَّ لَكَ مَا فِي الْأَرْضِ مِنْ شَيْءٍ كُنْتَ تَفْتَدِي بِهِ، قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: فَقَدْ سَأَلْتُكَ مَا هُوَ أَهْوَنُ مِنْ هَذَا وَأَنْتَ فِي صُلْبِ آدَمَ أَنْ لَا تُشْرِكَ بِي فَأَبَيْتَ إِلَّا الشِّرْكَ".
ہم سے قیس بن حفص نے بیان کیا، کہا ہم سے خالد بن حارث نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے ابوعمران جونی نے اور ان سے انس رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہ اللہ تعالیٰ (قیامت کے دن) اس شخص سے پوچھے گا جسے دوزخ کا سب سے ہلکا عذاب کیا گیا ہو گا۔ اگر دنیا میں تمہاری کوئی چیز ہوتی تو کیا تو اس عذاب سے نجات پانے کے لیے اسے بدلے میں دے سکتا تھا؟ وہ شخص کہے گا کہ جی ہاں اس پر اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ جب تو آدم کی پیٹھ میں تھا تو میں نے تجھ سے اس سے بھی معمولی چیز کا مطالبہ کیا تھا (روز ازل میں) کہ میرا کسی کو بھی شریک نہ ٹھہرانا، لیکن (جب تو دنیا میں آیا تو) اسی شرک کا عمل اختیار کیا۔
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3334  
3334. حضرت انس ؓسے روایت ہے، وہ اسے مرفوع بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اس شخص سے پوچھے گا جسے دوزخ میں سب سے ہلکا عذاب دیا جارہا ہوگا: اگر تیرے لیے روئے زمین کی سب چیزیں ہوں تو کیا وہ سب چیزیں اس عذاب سے چھٹکارے کے لیے قربان کردے گا؟ وہ کہے گا: جی ہاں۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا: جب تو آدم کی پشت میں تھا تو میں نے اس سے بھی آسان چیز کا مطالبہ کیا تھا کہ میرے ساتھ کسی کو شریک نہ کرنا لیکن تو نے شرک کے سوا ہر چیز کا انکار کردیا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3334]
حدیث حاشیہ:
جملہ انبیاءو رسل ؑ کا اولین پیغام یہی رہا کہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ کیا جائے، تمام آسمانی کتابیں اس مسئلہ پر اتفاق کامل رکھتی ہیں۔
قرآن مجید کی بہت سی آیات میں شرک کی تردید بڑے واضح اور مدلل الفاظ میں موجود ہے۔
جن کو نقل کیا جائے تو ایک دفتر تیار ہوجائے گا۔
مگر صدافسوس کہ دوسری امتوں کی طرح بہت سے نادان مسلمانوں کو بھی شیطان نے گمراہ کرکے شرک میں گرفتار کردیا۔
عقیدت ومحبت بزرگوں کے نام سے ان کو دھوکا دیا اور وہ بھی مشرکین مکہ کی طرح یہی کہنے لگے۔
﴿مَا نَعْبُدُهُمْ إِلَّا لِيُقَرِّبُونَا إِلَى اللَّهِ زُلْفَى﴾ (الزمر: 3)
ہم ان بزرگان کو صرف اسی لیے مانتے ہیں کہ یہ ہم کو خدا کے نزدیک پہنچادیں، یہ ہمارے وسیلے ہیں جن کے پوجنے سے خدا ملتا ہے۔
یہ شیطان کا وہ فریب ہے جو ہمیشہ مشرک قوموں کے لیے ضلالت و گمراہی کا سبب بنا ہے۔
آج بہت سے بزرگوں کے مزاروں پر نادان مسلمان وہ سب حرکتیں کرتے ہیں جو ایک بت پرست بت کے سامنے کرتا ہے۔
اٹھتے بیٹھتے ان کا نام لیتے ہیں، امداد کے لیے ان کی دہائی دیتے ہیں۔
یاغوث یا علی وغیرہ ان کے وظائف بنے ہوئے ہیں۔
جہاں تک قرآن اور سنت کی تشریحات ہیں ایسے لوگ کھلے شرک کے مرتکب ہیں اور مشرکین کے لیے اللہ نے جنت کو حرام کردیا ہے۔
عقیدہ توحید جو اسلام نے پیش کیا ہے وہ ہرگز ان خرافات کے لیے درجہ جواز نہیں دیتا۔
اللہ پاک ایسے نام نہاد مسلمانوں کو ہدایت بخشے۔
آمین۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3334   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3334  
3334. حضرت انس ؓسے روایت ہے، وہ اسے مرفوع بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اس شخص سے پوچھے گا جسے دوزخ میں سب سے ہلکا عذاب دیا جارہا ہوگا: اگر تیرے لیے روئے زمین کی سب چیزیں ہوں تو کیا وہ سب چیزیں اس عذاب سے چھٹکارے کے لیے قربان کردے گا؟ وہ کہے گا: جی ہاں۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا: جب تو آدم کی پشت میں تھا تو میں نے اس سے بھی آسان چیز کا مطالبہ کیا تھا کہ میرے ساتھ کسی کو شریک نہ کرنا لیکن تو نے شرک کے سوا ہر چیز کا انکار کردیا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3334]
حدیث حاشیہ:

اس حدیث میں انسان سے اللہ تعالیٰ کے ایک مطالبے کا ذکر ہے جبکہ وہ ابھی آدم ؑ کی پشت میں تھا۔
عنوان سے اسی قدر مطابقت ہے کہ اولاد آدم کی تخلیق کے وقت ہی اسے کہا گیا تھا کہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرنا کیونکہ یہ ناقابل معانی جرم ہے اور شرک کے علاوہ ہر گناہ معاف ہو سکتا ہے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿إِنَّ اللَّهَ لا يَغْفِرُ أَنْ يُشْرَكَ بِهِ وَيَغْفِرُ مَا دُونَ ذَلِكَ لِمَنْ يَشَاءُ﴾ اللہ تعالیٰ شرک معاف نہیں کرے گا۔
اور اس کے علاوہ جسے چاہے جو چاہے معاف کر دے۔
(النساء: 48)

آدم کی پشت میں انسان سے جس چیز کا مطالبہ کیا گیا تھا اس کا ذکر اس آیت کریمہ میں ہے۔
﴿وَإِذْ أَخَذَ رَبُّكَ مِن بَنِي آدَمَ مِن ظُهُورِهِمْ ذُرِّيَّتَهُمْ وَأَشْهَدَهُمْ عَلَىٰ أَنفُسِهِمْ أَلَسْتُ بِرَبِّكُمْ ۖ قَالُوا بَلَىٰ ۛ شَهِدْنَا﴾ اور جب تمھارے رب نے بنی آدم علیہ السلام کی پشتوں سے ان کی نسل کو نکالا اور انھیں خود ان کے اوپر گواہ بناتے ہوئے پوچھا:
کیا میں تمھارا رب نہیں ہوں؟انھوں نے کہا:
ضرور!تو ہی ہمارا رب ہے ہم اس پر گواہی دیتے ہیں۔
(الاعراف: 172)
بہر حال انسان کو چاہیے کہ وہ اللہ کے ساتھ کسی بھی صورت میں کوئی شریک نہ بنائے کیونکہ مشرک پر جنت حرام ہے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3334