صحيح البخاري
كِتَاب أَحَادِيثِ الْأَنْبِيَاءِ -- کتاب: انبیاء علیہم السلام کے بیان میں
7. بَابُ قِصَّةِ يَأْجُوجَ وَمَأْجُوجَ:
باب: یاجوج و ماجوج کا بیان۔
وَقَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى: {وَيَسْأَلُونَكَ عَنْ ذِي الْقَرْنَيْنِ قُلْ سَأَتْلُو عَلَيْكُمْ مِنْهُ ذِكْرًا إِنَّا مَكَّنَّا لَهُ فِي الأَرْضِ وَآتَيْنَاهُ مِنْ كُلِّ شَيْءٍ سَبَبًا فَاتَّبَعَ سَبَبًا} إِلَى قَوْلِهِ: {ائْتُونِي زُبَرَ الْحَدِيدِ} وَاحِدُهَا زُبْرَةٌ وَهْيَ الْقِطَعُ {حَتَّى إِذَا سَاوَى بَيْنَ الصَّدَفَيْنِ} يُقَالُ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ الْجَبَلَيْنِ، وَالسُّدَّيْنِ الْجَبَلَيْنِ {خَرْجًا} أَجْرًا {قَالَ انْفُخُوا حَتَّى إِذَا جَعَلَهُ نَارًا قَالَ آتُونِي أُفْرِغْ عَلَيْهِ قِطْرًا} أَصْبُبْ عَلَيْهِ رَصَاصًا، وَيُقَالُ الْحَدِيدُ. وَيُقَالُ الصُّفْرُ. وَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ النُّحَاسُ. {فَمَا اسْطَاعُوا أَنْ يَظْهَرُوهُ} يَعْلُوهُ، اسْتَطَاعَ اسْتَفْعَلَ مِنْ أَطَعْتُ لَهُ فَلِذَلِكَ فُتِحَ أَسْطَاعَ يَسْطِيعُ وَقَالَ بَعْضُهُمُ اسْتَطَاعَ يَسْتَطِيعُ، {وَمَا اسْتَطَاعُوا لَهُ نَقْبًا قَالَ هَذَا رَحْمَةٌ مِنْ رَبِّي فَإِذَا جَاءَ وَعْدُ رَبِّي جَعَلَهُ دَكًّا} أَلْزَقَهُ بِالأَرْضِ، وَنَاقَةٌ دَكَّاءُ لاَ سَنَامَ لَهَا، وَالدَّكْدَاكُ مِنَ الأَرْضِ مِثْلُهُ حَتَّى صَلُبَ مِنَ الأَرْضِ وَتَلَبَّدَ. {وَكَانَ وَعْدُ رَبِّي حَقًّا وَتَرَكْنَا بَعْضَهُمْ يَوْمَئِذٍ يَمُوجُ فِي بَعْضٍ}، {حَتَّى إِذَا فُتِحَتْ يَأْجُوجُ وَمَأْجُوجُ وَهُمْ مِنْ كُلِّ حَدَبٍ يَنْسِلُونَ} قَالَ قَتَادَةُ حَدَبٍ أَكَمَةٍ. قَالَ رَجُلٌ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَأَيْتُ السَّدَّ مِثْلَ الْبُرْدِ الْمُحَبَّرِ. قَالَ: «رَأَيْتَهُ» .
‏‏‏‏ اللہ تعالیٰ کا یہ فرمانا «ويسألونك عن ذي القرنين قل سأتلو عليكم منه ذكرا * إنا مكنا له في الأرض وآتيناه من كل شىء سببا * فاتبع سببا‏» اور آپ سے (اے رسول) ذوالقرنین (بادشاہ) کے متعلق یہ لوگ پوچھتے ہیں۔ (آپ فرما دیں کہ) ان کا قصہ میں ابھی تمہارے سامنے بیان کرتا ہوں ہم نے اسے زمین کی حکومت دی تھی اور ہم نے اس کو ہر طرح کا سامان عطا فرمایا تھا پھر وہ ایک سمت چل نکلا . اللہ تعالیٰ کے ارشاد «ائتوني زبر الحديد‏» تم لوگ میرے پاس لوہے کی چادریں لاؤ، تک۔ «زبر» کا واحد «زبرة» ہے اور «زبرة» ٹکڑے کو کہتے ہیں یہاں تک کہ جب اس نے ان دونوں پہاڑوں کے برابر دیوار اٹھا دی۔ «صدفين‏» سے پہاڑ مراد ہیں۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما سے ( «بين الصدفين‏» کی تفسیر میں منقول ہے) اور «السدين الصدفين‏» کی دوسری قرآت بھی «الجبلين» (دو پہاڑ) کے معنی میں ہے۔ «خرجا‏» بمعنی محصول اجرت، ذوالقرنین نے (عملہ سے) کہا کہ اب اس دیوار کو آگ سے دھونکو یہاں تک کہ جب اسے آگ بنا دیا تو کہا اب میرے پاس پگھلا ہوا سیسہ تانبا لاؤ تو میں اس پر ڈال دوں «أفرغ عليه قطرا‏» کے معنی ہیں کہ میں اس پر پگھلا ہوا سیسہ ڈال دوں ( «قطر» کے معنی) بعض نے لوہے (پگھلے ہوئے سے) کئے ہیں اور بعض نے پیتل سے، ابن عباس رضی اللہ عنہما نے اس کا معنی تانبا بتایا ہے۔ پھر قوم یاجوج و ماجوج کے لوگ (اس سد کے بعد) اس پر چڑھ نہ سکے «يظهروه‏» بمعنی «يعلوه»، «أطعت له» سے استفعال کا صیغہ ہے۔ اسی لیے «أسطاع» «يسطيع» «يستطيع» بھی پڑھتے ہیں اور یاجوج ماجوج اس میں سوراخ بھی نہ کر سکے۔ ذوالقرنین نے کہا کہ یہ میرے پروردگار کی ایک رحمت ہے پھر جب میرے پروردگار کا مقررہ وعدہ آ پہنچے گا تو وہ اس دیوار کو «دكا‏» یعنی زمین کے ساتھ ملا دے گا، عرب کے لوگ اسی سے بولتے ہیں «ناقة دكاء» جس سے مراد وہ اونٹ ہے جس کی کوہان نہ ہو۔ اور «الدكداك من الأرض» کی مثال وہ زمین جو ہموار ہو کر سخت ہو گئی ہو، اونچی نہ ہو اور میرے رب کا وعدہ برحق ہے اور اس روز ہم ان کو اس طرح چھوڑ دیں گے کہ بعض ان کا بعض سے گڈ مڈ ہو جائے گا۔ یہاں تک کہ جب یاجوج ماجوج کو کھول دیا جائے گا اور وہ ہر بلندی سے دوڑ پڑیں گے۔ قتادہ نے کہا کہ «حدب» کے معنی ٹیلہ کے ہیں۔ ایک صحابی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ میں نے اس دیوار کو دھاری دار چادر کی طرح دیکھا ہے جس کی ایک دھاری سرخ ہے اور ایک کالی ہے، اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا واقعی تم نے اس کو دیکھا ہے۔
حدیث نمبر: 3346
حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ بُكَيْرٍ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ عُقَيْلٍ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ، أَنَّ زَيْنَبَ ابْنَةَ أَبِي سَلَمَةَ حَدَّثَتْهُ، عَنْ أُمِّ حَبِيبَةَ بِنْتِ أَبِي سُفْيَانَ، عَنْ زَيْنَبَ ابْنَةَ جَحْشٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُنَّ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ دَخَلَ عَلَيْهَا فَزِعًا، يَقُولُ:" لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَيْلٌ لِلْعَرَبِ مِنْ شَرٍّ قَدِ اقْتَرَبَ فُتِحَ الْيَوْمَ مِنْ رَدْمِ يَأْجُوجَ وَمَأْجُوجَ مِثْلُ هَذِهِ وَحَلَّقَ بِإِصْبَعِهِ الْإِبْهَامِ وَالَّتِي تَلِيهَا، قَالَتْ: زَيْنَبُ ابْنَةَ جَحْشٍ، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ أَنَهْلِكُ وَفِينَا الصَّالِحُونَ، قَالَ: نَعَمْ إِذَا كَثُرَ الْخَبَثُ".
ہم سے یحییٰ بن بکیر نے بیان کیا، کہا ہم سے لیث نے بیان کیا، ان سے عقیل نے، ان سے ابن شہاب نے، ان سے عروہ بن زبیر نے اور ان سے زینب بنت ابی سلمہ رضی اللہ عنہا نے، ان سے ام حبیبہ بنت ابی سفیان رضی اللہ عنہا نے، ان سے زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ان کے یہاں تشریف لائے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کچھ گھبرائے ہوئے تھے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ کے سوا اور کوئی معبود نہیں، ملک عرب میں اس برائی کی وجہ سے بربادی آ جائے گی جس کے دن قریب آنے کو ہیں، آج یاجوج ماجوج نے دیوار میں اتنا سوراخ کر دیا ہے پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انگوٹھے اور اس کے قریب کی انگلی سے حلقہ بنا کر بتلایا۔ ام المؤمنین زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ میں نے سوال کیا: یا رسول اللہ! کیا ہم اس کے باوجود ہلاک کر دئیے جائیں گے کہ ہم میں نیک لوگ بھی موجود ہوں گے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب فسق و فجور بڑھ جائے گا (تو یقیناً بربادی ہو گی)۔
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3346  
3346. حضرت زینب بنت حجش ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ گھبرائے ہوئے ان کے پاس آئے اور فرمایا: اللہ کے سوا کوئی معبود بر حق نہیں۔ عرب کی تباہی اس آفت کی وجہ سے ہونے والی ہے جو بالکل قریب آلگی ہے۔ آج یا جوج و ماجوج کی دیوار میں اتنا سوراخ ہو گیا ہے۔ آپ ﷺ نے انگوٹھے اور شہادت کی انگلی سے سوراخ بنا کر اس کی مقدار بتائی۔ حضرت زینب بنت حجش ؓ کہتی ہیں کہ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول اللہ ﷺ! کیا ہم نیک لوگوں کی موجودگی میں ہلاک ہو جائیں گے؟ آپ نے فرمایا: ہاں جب برائی زیادہ پھیل جائے گی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3346]
(1)
ان کا تعلق آدم کی اولاد سے ہے۔
، آدم کے علاوہ وہ کسی اور سے پیدا شدہ نہیں ہیں۔
(2)
وہ اس قدر کثرت سے ہیں کہ ملت اسلامیہ ان کافروں کا ہزارواں حصہ ہو گی۔
(3)
دنگا فساد ان کی سرشت ہے۔
ذوالقرنین نے ان کے حملوں سے بچاؤ کے لیے ان دروں کولوہے سے بند کردیا تھا جن کے ذریعے سے وہ دوسروں پر حملہ آور ہوتے تھے۔
(4)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں ایک شخص نے اس سد سکندری کو دیکھا تھا جو منقش چادر کی طرح تھی۔
(5)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں وہ دیوار کچھ کمزور ہو چکی تھی کہ اس میں معمولی سا سوراخ ہوگیا تھا۔
(6)
قیامت کے نزدیک وہ دیوار پیوند زمین ہو جائے گی اور یاجوج و ماجوج سمندر کی موجوں کی طرح ٹھاٹھیں مارتے ہوئے نکلیں گے۔
(7)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
کہ قیامت اس وقت تک قائم نہیں ہو گی۔
جب تک نشانیاں ظاہر نہ ہو جائیں۔
ان میں ایک یاجوج و ماجوج کا حملہ آور ہونا ہے۔
ان کی یورش کے بعد جلد ہی قیامت بپا ہو جائے گی۔
جو روایات ان قدو قامت کے متعلق منقول ہیں وہ محدثین کے معیار صحت پر پوری نہیں اترتیں۔
حدیث ترجمہ:
ہم سے یحییٰ بن بکیر نے بیان کیا، کہا ہم سے لیث نے بیان کیا، ان سے عقیل نے، ان سے ابن شہاب نے، ان سے عروہ بن زبیر نے اور ان سے حضرت زینب بنت ابی سلمہ ؓ نے، ان سے ام حبیبہ بنت ابی سفیان نے، ان سے زینب بنت جحش‬ ؓ ن‬ے کہ نبی کریم ﷺ ان کے یہاں تشریف لائے آپ کچھ گھبرائے ہوئے تھے۔
پھر آپ نے فرمایا کہ اللہ کے سوا اور کوئی معبود نہیں، ملک عرب میں اس برائی کی وجہ سے بربادی آجائے گی جس کے دن قریب آنے کو ہیں، آج یاجوج ماجوج نے دیوار میں اتنا سوراخ کردیا ہے پھر آنحضرت ﷺ نے انگوٹھے اور اس کے قریب کی انگلی سے حلقہ بناکر بتلایا۔
ام المؤمنین حضرت زینب بنت جحش‬ ؓ ن‬ے بیان کیا کہ میں نے سوال کیا یارسول اللہ! کیا ہم اس کے باوجود ہلاک کردئیے جائیں گے کہ ہم میں نیک لوگ بھی موجود ہوں گے؟ آپ نے فرمایا کہ جب فسق و فجور بڑھ جائے گا۔
(تو یقینا بربای ہوگی)
حدیث حاشیہ:
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3346