صحيح البخاري
كِتَاب أَحَادِيثِ الْأَنْبِيَاءِ -- کتاب: انبیاء علیہم السلام کے بیان میں
8. بَابُ قَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى: {وَاتَّخَذَ اللَّهُ إِبْرَاهِيمَ خَلِيلاً} :
باب: اللہ تعالیٰ کا (سورۃ نساء میں) فرمان کہ ”اور اللہ نے ابراہیم کو خلیل بنایا“۔
وَقَالَ أَبُو مَيْسَرَةَ: الرَّحِيمُ بِلِسَانِ الْحَبَشَةِ.
‏‏‏‏ اور اللہ تعالیٰ کا فرمان «واتخذ الله إبراهيم خليلا‏» اور اللہ نے ابراہیم کو خلیل بنایا۔ اور (سورۃ نحل میں) اللہ تعالیٰ کا فرمان «إن إبراهيم كان أمة قانتا‏» بیشک ابراہیم (تمام خوبیوں کا مجموعہ ہونے کی وجہ سے خود) ایک امت تھے، اللہ تعالیٰ کے مطیع و فرماں بردار، ایک طرف ہونے والے اور (سورۃ التوبہ میں) اللہ تعالیٰ کا فرمان «إن إبراهيم لأواه حليم‏» بیشک ابراہیم نہایت نرم طبیعت اور بڑے ہی بردبار تھے۔ ابومیسرہ (عمرو بن شرحبیل) نے کہا کہ «أواه» حبشی زبان میں «لرحيم» کے معنی میں ہے۔
حدیث نمبر: 3349
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ كَثِيرٍ، أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ، حَدَّثَنَا الْمُغِيرَةُ بْنُ النُّعْمَانِ، قَالَ: حَدَّثَنِي سَعِيدُ بْنُ جُبَيْرٍ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" إِنَّكُمْ مَحْشُورُونَ حُفَاةً عُرَاةً غُرْلًا، ثُمَّ قَرَأَ كَمَا بَدَأْنَا أَوَّلَ خَلْقٍ نُعِيدُهُ وَعْدًا عَلَيْنَا إِنَّا كُنَّا فَاعِلِينَ سورة الأنبياء آية 104 وَأَوَّلُ مَنْ يُكْسَى يَوْمَ الْقِيَامَةِ إِبْرَاهِيمُ، وَإِنَّ أُنَاسًا مِنْ أَصْحَابِي يُؤْخَذُ بِهِمْ ذَاتَ الشِّمَالِ فَأَقُولُ: أَصْحَابِي، أَصْحَابِي، فَيَقُولُ: إِنَّهُمْ لَمْ يَزَالُوا مُرْتَدِّينَ عَلَى أَعْقَابِهِمْ مُنْذُ فَارَقْتَهُمْ فَأَقُولُ كَمَا، قَالَ: الْعَبْدُ الصَّالِحُ وَكُنْتُ عَلَيْهِمْ شَهِيدًا مَا دُمْتُ فِيهِمْ فَلَمَّا تَوَفَّيْتَنِي إِلَى قَوْلِهِ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ سورة المائدة آية 117 - 118".
ہم سے محمد بن کثیر نے بیان کیا، کہا ہم کو سفیان ثوری نے خبر دی، ان سے مغیرہ بن نعمان نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے سعید بن جبیر نے بیان کیا اور ان سے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم لوگ حشر میں ننگے پاؤں، ننگے جسم اور بن ختنہ اٹھائے جاؤ گے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آیت کی تلاوت کی «كما بدأنا أول خلق نعيده وعدا علينا إنا كنا فاعلين‏» جیسا کہ ہم نے پیدا کیا تھا پہلی مرتبہ، ہم ایسے ہی لوٹائیں گے۔ یہ ہماری طرف سے ایک وعدہ ہے جس کو ہم پورا کر کے رہیں گے (سورۃ انبیاء)۔ اور انبیاء میں سب سے پہلے ابراہیم علیہ السلام کو کپڑا پہنایا جائے گا اور میرے اصحاب میں سے بعض کو جہنم کی طرف لے جایا جائے گا تو میں پکار اٹھوں گا کہ یہ تو میرے اصحاب ہیں، میرے اصحاب! لیکن مجھے بتایا جائے گا کہ آپ کی وفات کے بعد ان لوگوں نے پھر کفر اختیار کر لیا تھا۔ اس وقت میں بھی وہی جملہ کہوں گا جو نیک بندے (عیسیٰ علیہ السلام) کہیں گے «وكنت عليهم شهيدا ما دمت فيهم‏» جب تک میں ان کے ساتھ تھا۔ ان پر نگران تھا۔ اللہ تعالیٰ کے ارشاد «الحكيم» ‏‏‏‏ تک۔
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 2423  
´حشر و نشر کا بیان۔`
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: قیامت کے دن لوگوں کا حشر اس حال میں ہو گا کہ وہ ننگے بدن، ننگے پیر اور ختنہ کے بغیر ہوں گے، پھر آپ نے اس آیت کریمہ کی تلاوت کی: «كما بدأنا أول خلق نعيده وعدا علينا إنا كنا فاعلين» جیسے کہ ہم نے اول دفعہ پیدائش کی تھی اسی طرح دوبارہ کریں گے، یہ ہمارے ذمے وعدہ ہے، اور ہم اسے ضرور کر کے ہی رہیں گے (الانبیاء: ۱۰۴)، انسانوں میں سب سے پہلے ابراہیم علیہ السلام کو کپڑا پہنایا جائے گا، اور میری امت کے بعض لوگ دائیں اور بائیں طرف لے جائے جائیں گے تو میں کہوں گا: میرے رب! یہ تو م۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ترمذي/كتاب صفة القيامة والرقائق والورع/حدیث: 2423]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
جیسے کہ ہم نے اول دفعہ پیدائش کی تھی اسی طرح دوبارہ کریں گے،
یہ ہمارے ذمے وعدہ ہے،
اور ہم اسے ضرور کرکے ہی رہیں گے۔
(الانبیاء: 104)
2؎:
ابراہیم علیہ السلام کے کپڑے اللہ کے راستے میں سب سے پہلے اتارے گئے تھے،
اور انہیں آگ میں ڈالا گیا تھا،
اس لیے قیامت کے دن سب سے پہلے انہیں لباس پہنایا جائے گا،
اس حدیث سے معلوم ہواکہ اگر انسان کا ایمان وعمل درست نہ ہوتووہ عذاب سے نہیں بچ سکتا اگرچہ وہ دینی اعتبار سے کسی عظیم ہستی کی صحبت میں ر ہا ہو،
کسی دوسری ہستی پر مغرور ہوکر عمل میں سستی کرنا اس سے بڑھ کر جہالت اور کیا ہوسکتی ہے،
بڑے بڑے مشائخ کے صحبت یافتہ اکثر و بیشتر اس مہلک مرض میں گرفتارہیں،
اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہواکہ دین میں نئی باتیں ایجاد کرنا اور اس پر عامل ہونا عظیم خسارے کا باعث ہے۔

3؎:
اگر تو انہیں عذاب دے تو یقینا یہ تیرے بندے ہیں اور اگر انہیں تو بخش دے تو یقینا تو غالب اور حکمت والا ہے۔
(المائدہ: 118)
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 2423   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3349  
3349. حضرت ابن عباس ؓسے روایت ہے، وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: قیامت کے دن تم لوگ ننگے پاؤں، برہنہ بدن اور بغیر ختنہ جمع کیے جاؤ گے۔ پھر آپ نے یہ آیت پڑھی: جیسے ہم نے پہلی بار پیدا کیا، اسی طرح ہم دوبارہ لوٹائیں گے۔ یہ وعدہ ہمارے ذمے ہے۔ یقیناً (اسے)ہم پورا کریں گے۔ (پھر فرمایا:)قیامت کے دن سب سے پہلے حضرت ابراہیم ؑ کو لباس پہنایا جائے گا۔ پھر ایسا ہو گا کہ میرے چند اصحاب بائیں طرف کھینچ لیے جائیں گے۔ میں کہوں گا: یہ تو میرے اصحاب ہیں۔ جواب دیا جائے گا کہ جب تمھاری وفات ہوئی تو یہ لوگ اسلام سے برگشتہ ہوگئے تھے۔ پھر میں وہی کہوں گا۔ جیسا کہ ایک نیک بندے نے کہا تھا: میں جب تک ان لوگوں میں رہا ان کا حال دیکھتا رہا آخر آیت تک۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3349]
حدیث حاشیہ:
مراد وہ لوگ ہیں جو آنحضرت ﷺ کی وفات کے بعد حضرت ابوبکر صدیق ؓ کی خلافت میں مرتد ہوگئے تھے۔
حضرت ابوبکر ؓنے ان سے جہاد کیا۔
یہ دیہات کے وہ بدوی تھے جو برائے نام اسلام میں داخل ہوگئے تھے اور آنحضرت ﷺ کی وفات کے ساتھ ہی پھر مرتد ہوکر اسلام کے خلاف مقابلہ کے لیے کھڑے ہوگئے تھے جو یا تو منافق تھے یا اسلام کے غلبہ سے خوف زدہ ہوکر اسلام میں داخل ہوگئے تھے۔
اور انہوں نے اسلام سے کبھی کوئی دلچسپی سرے سے لی ہی نہیں تھی۔
ان مرتدین نے خلافت اسلامیہ کے خلاف جنگ کی اور شکست کھائی یا قتل کئے گئے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3349   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3349  
3349. حضرت ابن عباس ؓسے روایت ہے، وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: قیامت کے دن تم لوگ ننگے پاؤں، برہنہ بدن اور بغیر ختنہ جمع کیے جاؤ گے۔ پھر آپ نے یہ آیت پڑھی: جیسے ہم نے پہلی بار پیدا کیا، اسی طرح ہم دوبارہ لوٹائیں گے۔ یہ وعدہ ہمارے ذمے ہے۔ یقیناً (اسے)ہم پورا کریں گے۔ (پھر فرمایا:)قیامت کے دن سب سے پہلے حضرت ابراہیم ؑ کو لباس پہنایا جائے گا۔ پھر ایسا ہو گا کہ میرے چند اصحاب بائیں طرف کھینچ لیے جائیں گے۔ میں کہوں گا: یہ تو میرے اصحاب ہیں۔ جواب دیا جائے گا کہ جب تمھاری وفات ہوئی تو یہ لوگ اسلام سے برگشتہ ہوگئے تھے۔ پھر میں وہی کہوں گا۔ جیسا کہ ایک نیک بندے نے کہا تھا: میں جب تک ان لوگوں میں رہا ان کا حال دیکھتا رہا آخر آیت تک۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3349]
حدیث حاشیہ:

حضرت ابراہیم ؑ کی خصوصیت یہ تھی کہ انھیں ننگا کرکے آتش نمرود میں ڈالا گیا تھا۔
چونکہ یہ اللہ کے لیے تھا،اس لیے قیامت کے دن تمام لوگوں سے پہلے انھیں لباس پہنایا جائے گا۔
اگرچہ رسول اللہ ﷺ تمام انبیاء سے افضل ہیں، تاہم یہ جزوی فضیلت کلی فضیلت کے منافی نہیں جیسا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
قیامت کے دن جب میں ہوش میں آؤں گا تو حضرت موسیٰ علیہ السلام کو عرش الٰہی کاکنارا پکڑے ہوئے پاؤں گا۔
(صحیح البخاري، الخصومات، حدیث: 2411)
یہ بھی ایک اُصول ہے کہ متکلم اپنے عمومی خطاب میں داخل نہیں ہوتا۔
چونکہ رسول اللہ ﷺ متکلم ہیں، اس لیے مذکورہ حکم سے خارج ہیں۔

حدیث کے آخر میں جن لوگوں کا حال بیان کیا گیا ہے ان سے غالباً وہ لوگ مراد ہیں جو رسول اللہ ﷺ کی وفات کے بعد خلافت صدیقی میں مرتد ہوگئے اور حضرت ابوبکر ؓنے ان کے خلاف جہاد کیا تھا۔

رسول اللہ ﷺ حضرت عیسیٰ کی بات دہرائیں گے جسے قرآن نے ان الفاظ میں بیان کیا ہے:
جب تک میں ان کے اندر رہا ان کا حال دیکھتا رہا،پھر جب تو نے مجھے واپس بلالیا تو پھر تو ہی ان پر نگران تھا اور توتو ساری چیزوں پر شاہد ہے۔
اگر توانھیں سزا دے تو وہ تیرے ہی بندے ہیں اوراگر تو انھیں معاف کردے تو بلاشبہ تو ہی غالب اور دانا ہے۔
(المآئدة: 117/5، 118)

بہرحال اس حدیث سے امام بخاری ؒنے حضرت ابراہیم ؑ کی ایک جزوی فضیلت کو ثابت کیا ہے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3349