صحيح البخاري
كِتَاب أَحَادِيثِ الْأَنْبِيَاءِ -- کتاب: انبیاء علیہم السلام کے بیان میں
8. بَابُ قَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى: {وَاتَّخَذَ اللَّهُ إِبْرَاهِيمَ خَلِيلاً} :
باب: اللہ تعالیٰ کا (سورۃ نساء میں) فرمان کہ ”اور اللہ نے ابراہیم کو خلیل بنایا“۔
حدیث نمبر: 3350
حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: أَخْبَرَنِي أَخِي عَبْدُ الْحَمِيدِ، عَنْ ابْنِ أَبِي ذِئْبٍ، عَنْ سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيِّ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" يَلْقَى إِبْرَاهِيمُ أَبَاهُ آزَرَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَعَلَى وَجْهِ آزَرَ قَتَرَةٌ وَغَبَرَةٌ، فَيَقُولُ لَهُ إِبْرَاهِيمُ: أَلَمْ أَقُلْ لَكَ لَا تَعْصِنِي، فَيَقُولُ: أَبُوهُ فَالْيَوْمَ لَا أَعْصِيكَ، فَيَقُولُ إِبْرَاهِيمُ: يَا رَبِّ إِنَّكَ وَعَدْتَنِي أَنْ لَا تُخْزِيَنِي يَوْمَ يُبْعَثُونَ فَأَيُّ خِزْيٍ أَخْزَى مِنْ أَبِي الْأَبْعَدِ، فَيَقُولُ اللَّهُ تَعَالَى: إِنِّي حَرَّمْتُ الْجَنَّةَ عَلَى الْكَافِرِينَ، ثُمَّ يُقَالُ: يَا إِبْرَاهِيمُ مَا تَحْتَ رِجْلَيْكَ فَيَنْظُرُ فَإِذَا هُوَ بِذِيخٍ مُلْتَطِخٍ فَيُؤْخَذُ بِقَوَائِمِهِ فَيُلْقَى فِي النَّارِ".
ہم سے اسماعیل بن عبداللہ نے بیان کیا کہ مجھے میرے بھائی عبدالحمید نے خبر دی، انہیں ابن ابی ذئب نے، انہیں سعید مقبری نے اور انہیں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ابراہیم علیہ السلام اپنے والد آذر سے قیامت کے دن جب ملیں گے تو ان کے (والد کے) چہرے پر سیاہی اور غبار ہو گا۔ ابراہیم علیہ السلام کہیں گے کہ کیا میں نے آپ سے نہیں کہا تھا کہ میری مخالفت نہ کیجئے۔ وہ کہیں گے کہ آج میں آپ کی مخالفت نہیں کرتا۔ ابراہیم علیہ السلام عرض کریں گے کہ اے رب! تو نے وعدہ فرمایا تھا کہ مجھے قیامت کے دن رسوا نہیں کرے گا۔ آج اس رسوائی سے بڑھ کر اور کون سی رسوائی ہو گی کہ میرے والد تیری رحمت سے سب سے زیادہ دور ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ میں نے جنت کافروں پر حرام قرار دی ہے۔ پھر کہا جائے گا کہ اے ابراہیم! تمہارے قدموں کے نیچے کیا چیز ہے؟ وہ دیکھیں گے تو ایک ذبح کیا ہوا جانور خون میں لتھڑا ہوا وہاں پڑا ہو گا اور پھر اس کے پاؤں پکڑ کر اسے جہنم میں ڈال دیا جائے گا۔
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 4769  
´ابراہیم علیہ السلام کی والد کے لیے دعا `
«. . . عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:" يَلْقَى إِبْرَاهِيمُ أَبَاهُ، فَيَقُولُ: يَا رَبِّ، إِنَّكَ وَعَدْتَنِي أَنْ لَا تُخْزِيَنِي يَوْمَ يُبْعَثُونَ، فَيَقُولُ اللَّهُ: إِنِّي حَرَّمْتُ الْجَنَّةَ عَلَى الْكَافِرِينَ . . .»
. . . نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ابراہیم علیہ الصلٰوۃ والسلام اپنے والد سے (قیامت کے دن) جب ملیں گے تو اللہ تعالیٰ سے عرض کریں گے کہ اے رب! تو نے وعدہ کیا تھا کہ تو مجھے اس دن رسوا نہیں کرے گا جب سب اٹھائے جائیں گے لیکن اللہ تعالیٰ جواب دے گا کہ میں نے جنت کو کافروں پر حرام قرار دے دیا ہے . . . [صحيح البخاري/كِتَاب تَفْسِيرِ الْقُرْآنِ: 4769]

فوائد و مسائل:
اس حدیث کے بہت سے شواہد ہیں مثلاً:
«كتاب التفسير للنسائي [ح395] وسنده حسن»
«كشف الاستار في زوائد البزار [22/1ح97] و سنده حسن»
اس صحیح حدیث کو قرآن مقدس کے خلاف قرار دینا اسی شخص کا کام ہو سکتا ہے جو قرآن اور حدیث دونوں سے تہی دامن اور کنگلا ہو۔
یہ کہنا کہ سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے تو براءت کر دی تھی اس بات کے منافی نہیں ہے کہ قیامت کے دن جب وہ اپنے والد کو دیکھیں گے تو پدری رشتے کہ وجہ سے جو کہ فطری امر ہے اپنے باپ کو جہنم کے عذاب سے بچانے کی کوشش کریں گے مگر اللہ رب العالمین کے دربار میں یہ کوشش کامیاب نہیں ہو گی۔
معلوم ہوا کہ اللہ کے سامنے انبیاء اور اولیاء سب مجبور ہیں، ہوتا وہی ہے جو اللہ چاہتا ہے۔
   توفيق الباري في تطبيق القرآن و صحيح بخاري، حدیث/صفحہ نمبر: 33   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3350  
3350. حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے۔ وہ نبی ﷺ سےبیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: قیامت کے دن جب حضرت ابراہیم ؑ اپنے باپ آزر سے ملیں گے تو آزر کے چہرے پر سیاہی اور گردو غبار پڑی ہوگی۔ حضرت ابراہیم ؑ اس سے کہیں گے: میں نے تم سے یہ نہ کہا تھا کہ میری نافرمانی نہ کرو۔ ان کا باپ جواب دے گا۔ اب میں تمھاری نافرمانی نہیں کروں گا۔ پھر حضرت ابراہیم ؑ عرض کریں گے۔ اے میرے رب! تونے مجھ سے وعدہ فرمایا تھا کہ قیامت کے دن تجھے ذلیل نہیں کروں گا۔ اور اب رحمت سے انتہائی دور میرے باپ کی ذلت سے زیادہ اور کون سی رسوائی ہو گی؟ اللہ تعالیٰ فرمائے گا: میں نے کافروں پر جنت حرام کردی ہے۔ پھر انھیں کہا جائے گا۔ اے حضرت ابراہیم ؑ! تمھارے پاؤں کے نیچے کیا چیز ہے؟ وہ دیکھیں گے تو ایک بجو نجاست میں لتھڑاہواپائیں گے۔ پھر اس کی ٹانگوں سے گھسیٹ کر اسے دوزخ میں ڈال دیا جائےگا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3350]
حدیث حاشیہ:
اس حدیث سے ان نام نہاد مسلمانوں کو عبرت پکڑنی چاہئے جو اولیاءاللہ کے بارے میں جھوٹی حکایات و کرامات گھڑگھڑ کر ان کوبدنام کرتے ہیں۔
مثلاً یہ کہ بڑے پیرجیلانی صاحب نے روحوں کی تھیلی حضرت عزرائیل ؑ سے چھین لی جن میں مومن و کافر سب کی روحیں تھیں وہ سب جنت میں داخل ہوگئے۔
ایسے بہت سے قصے بہت سے بزرگوں کے بارے میں مشرکین نے گھڑ رکھے ہیں۔
جب حضرت خلیل اللہ جیسے پیغمبرقیامت کے دن اپنے باپ کے کام نہ آسکیں گے تو اور دوسرے کسی کی کیا مجال ہے کہ بغیر اذن الٰہی کسی مرید یا شاگرد کو بخشوا سکیں۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3350   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3350  
3350. حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے۔ وہ نبی ﷺ سےبیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: قیامت کے دن جب حضرت ابراہیم ؑ اپنے باپ آزر سے ملیں گے تو آزر کے چہرے پر سیاہی اور گردو غبار پڑی ہوگی۔ حضرت ابراہیم ؑ اس سے کہیں گے: میں نے تم سے یہ نہ کہا تھا کہ میری نافرمانی نہ کرو۔ ان کا باپ جواب دے گا۔ اب میں تمھاری نافرمانی نہیں کروں گا۔ پھر حضرت ابراہیم ؑ عرض کریں گے۔ اے میرے رب! تونے مجھ سے وعدہ فرمایا تھا کہ قیامت کے دن تجھے ذلیل نہیں کروں گا۔ اور اب رحمت سے انتہائی دور میرے باپ کی ذلت سے زیادہ اور کون سی رسوائی ہو گی؟ اللہ تعالیٰ فرمائے گا: میں نے کافروں پر جنت حرام کردی ہے۔ پھر انھیں کہا جائے گا۔ اے حضرت ابراہیم ؑ! تمھارے پاؤں کے نیچے کیا چیز ہے؟ وہ دیکھیں گے تو ایک بجو نجاست میں لتھڑاہواپائیں گے۔ پھر اس کی ٹانگوں سے گھسیٹ کر اسے دوزخ میں ڈال دیا جائےگا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3350]
حدیث حاشیہ:

حضرت ابراہیم ؑ کے باپ آزر کو بجو کی شکل میں مسخ کردیاجائے گا کیونکہ یہ تمام جانوروں میں سے زیادہ بے وقوف ہے۔
وہ ضروری چیزوں سے بھی غافل ہوجاتا ہے جن سے غفلت نہیں برتی جاتی۔
جب آپ کے باپ نے آپ کی نصیحت کو قبول نہ کیا اور شیطان کے فریب میں پھنسارہا، نیز وہ ضروری امر سے غافل رہا تو قیامت کے دن اسے بجو بنادیا جائےگا۔

اس حدیث سے معلوم ہوا کہ انسان اگرکفر پرمرا ہوتو اس کے بیٹے کا بلند مرتبہ ہونا اسے کوئی فائدہ نہیں دے گا اور نہ بیٹے کو باپ کا بلند مرتبہ ہونا ہی فائدہ دے سکتا ہے جیسا کہ حضرت نوح، اور ان کے بیٹے کا واقعہ ہے۔

اس حدیث سے ان نام نہاد مسلمانوں کو عبرت پکڑنی چاہیے جو اولیائے کرام ؑ کے بارے میں جھوٹی کرامات بیان کرکے ان کی بدنامی کا باعث بنتے ہیں۔

جب حضرت ابراہیم ؑ قیامت کے دن اپنے باپ کے کام نہیں آسکیں گے تو کسی کا کیا مجال ہے کہ وہ اپنے کسی عقیدت مند یا تعلق دار کو اللہ کے ہاں پروانہ نجات دے سکے۔
واللہ المستعان۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3350