صحيح البخاري
كِتَاب أَحَادِيثِ الْأَنْبِيَاءِ -- کتاب: انبیاء علیہم السلام کے بیان میں
8. بَابُ قَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى: {وَاتَّخَذَ اللَّهُ إِبْرَاهِيمَ خَلِيلاً} :
باب: اللہ تعالیٰ کا (سورۃ نساء میں) فرمان کہ ”اور اللہ نے ابراہیم کو خلیل بنایا“۔
حدیث نمبر: 3360
حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ حَفْصِ بْنِ غِيَاثٍ، حَدَّثَنَا أَبِي، حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ، قَالَ: حَدَّثَنِي إِبْرَاهِيمُ، عَنْ عَلْقَمَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ:" لَمَّا نَزَلَتْ الَّذِينَ آمَنُوا وَلَمْ يَلْبِسُوا إِيمَانَهُمْ بِظُلْمٍ سورة الأنعام آية 82 قُلْنَا يَا رَسُولَ اللَّهِ أَيُّنَا لَا يَظْلِمُ نَفْسَهُ، قَالَ: لَيْسَ كَمَا تَقُولُونَ وَلَمْ يَلْبِسُوا إِيمَانَهُمْ بِظُلْمٍ سورة الأنعام آية 82 بِشِرْكٍ أَوَ لَمْ تَسْمَعُوا إِلَى قَوْلِ لُقْمَانَ لِابْنِهِ يَا بُنَيَّ لا تُشْرِكْ بِاللَّهِ إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ سورة لقمان آية 13".
ہم سے عمر بن حفص بن غیاث نے بیان کیا، کہا ہم سے ہمارے والد نے بیان کیا، ان سے اعمش نے بیان کیا کہا کہ مجھ سے ابراہیم نے بیان کیا، ان سے علقمہ نے اور ان سے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ جب یہ آیت اتری «الذين آمنوا ولم يلبسوا إيمانهم بظلم‏» جو لوگ ایمان لائے اور اپنے ایمان میں کسی قسم کے ظلم کی ملاوٹ نہ کی۔ تو ہم نے عرض کیا: یا رسول اللہ! ہم میں ایسا کون ہو گا جس نے اپنی جان پر ظلم نہ کیا ہو گا؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ واقعہ وہ نہیں جو تم سمجھتے ہو۔ جس نے اپنے ایمان کے ساتھ ظلم کی ملاوٹ نہ کی۔ (میں ظلم سے مراد) شرک ہے کیا تم نے لقمان علیہ السلام کی اپنے بیٹے کو یہ نصیحت نہیں سنی کہ اے بیٹے! اللہ کے ساتھ شریک نہ کرنا، بیشک شرک بہت ہی بڑا ظلم ہے۔
  الشيخ محمد حسين ميمن حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 6937  
´تاویل کرنے والوں کے بارے میں بیان`
«. . . عَنْ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: لَمَّا نَزَلَتْ هَذِهِ الْآيَةُ: الَّذِينَ آمَنُوا وَلَمْ يَلْبِسُوا إِيمَانَهُمْ بِظُلْمٍ سورة الأنعام آية 82، شَقَّ ذَلِكَ عَلَى أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَقَالُوا: أَيُّنَا لَمْ يَظْلِمْ نَفْسَهُ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" لَيْسَ كَمَا تَظُنُّونَ، إِنَّمَا هُوَ كَمَا قَالَ لُقْمَانُ لِابْنِهِ: يَا بُنَيَّ لا تُشْرِكْ بِاللَّهِ إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ سورة لقمان آية 13 . . .»
. . . عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ جب یہ آیت نازل ہوئی «الذين آمنوا ولم يلبسوا إيمانهم بظلم‏» وہ لوگ جو ایمان لے آئے اور اپنے ایمان کے ساتھ ظلم کو نہیں ملایا تو صحابہ کو یہ معاملہ بہت مشکل نظر آیا اور انہوں نے کہا ہم میں کون ہو گا جو ظلم نہ کرتا ہو۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس کا مطلب وہ نہیں ہے جو تم سمجھتے ہو بلکہ اس کا مطلب لقمان علیہ السلام کے اس ارشاد میں ہے جو انہوں نے اپنے لڑکے سے کہا تھا «يا بنى لا تشرك بالله إن الشرك لظلم عظيم‏» کہ اے بیٹے! اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرانا، بلاشبہ شرک کرنا بہت بڑا ظلم ہے۔ [صحيح البخاري/كِتَاب اسْتِتَابَةِ الْمُرْتَدِّينَ وَالْمُعَانِدِينَ وَقِتَالِهِمْ: 6937]
صحیح بخاری کی حدیث نمبر: 6937 کا باب: «بَابُ مَا جَاءَ فِي الْمُتَأَوِّلِينَ:»

باب اور حدیث میں مناسبت:
ترجمۃ الباب اور حدیث میں کس طرح مناسبت قائم ہو گی؟ کیوں کہ حدیث میں بظاہر کوئی ایسی چیز نظر نہیں آتی، جو باب کے بیان کردہ مفہوم کے مطابق ہو۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«و وجه دخول فى الترجمة من جهة أنه صلى الله عليه وسلم لم يؤاخذ الصحابة بحملهم الظلم فى الآية على عمومة حتي يتناول كل معصية قولهم سار يسور إذا ارتفع ذكره . . . . . .» [فتح الباري لابن حجر: 261/13]
ترجمۃ الباب میں اس حدیث کی مناسبت اس جہت سے ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے آیت مبارکہ میں مذکور ظلم کو اس کے عموم پر محمول کرنے کی وجہ سے کہ ہر معصیت متناول ہو، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا مواخذہ نہ فرمایا، بلکہ انہیں معذور جانا، کیوں کہ ظاہر میں یہی تاویل تھی، پھر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے لیے اس مراد کی وضاحت فرمائی جس سے اشکال دور ہو گیا۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کے بیان کے مطابق جب صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے لفظ ظلم کی تاویل فرمائی جو کہ عمومیت پر قائم تھی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی اس تاویل و عذر کو قبول فرما لیا اور ان پر کسی قسم کا مواخذہ یا نکیر نہیں فرمائی۔ اب گفتگو کا خلاصہ اور باب سے حدیث کی مناسبت اس طرح ہوئی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ظلم کی تاویل شرک کے ساتھ فرمائی جبکہ ظلم کا عمومی اور ظاہری معنی تو گناہ کے ہیں جس میں ہر شخص داخل ہے اور تاویل (جیسا کے باب میں مذکور ہے) خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرمائی، لہٰذا اسی کی تاویل یقینی طور پر قبول ہے۔
علامہ قسطلانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
مطابقت باب سے حدیث کی اس طرح سے ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ سے کوئی مواخذہ نہیں فرمایا جب انہوں نے ظلم کی تاویل مطلق گناہ سے کی بلکہ اس کی جگہ انہیں دوسرا صحیح معنی بتایا۔ پس یہیں سے باب اور حدیث میں مناسبت ہے۔
   عون الباری فی مناسبات تراجم البخاری ، جلد دوئم، حدیث/صفحہ نمبر: 260   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 3067  
´سورۃ الانعام سے بعض آیات کی تفسیر۔`
عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ جب آیت «الذين آمنوا ولم يلبسوا إيمانهم بظلم» جو لوگ ایمان لائے اور اپنے ایمان میں ظلم (شرک) کی آمیزش نہ کی (الأنعام ۸۲)، نازل ہوئی تو مسلمانوں پر یہ بات گراں گزری، لوگوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! ہم میں کون ایسا ہے جس سے اپنی ذات کے حق میں ظلم و زیادتی نہ ہوئی ہے۔ آپ نے فرمایا: (تم غلط سمجھے) ایسی بات نہیں ہے، اس ظلم سے مراد صرف شرک ہے، کیا تم لوگوں نے سنا نہیں کہ لقمان علیہ السلام نے اپنے بیٹے کو کیا نصیحت کی تھی؟ انہوں نے کہا تھا: «يا بني لا تشرك بالله إن الشرك لظلم عظيم» اے میرے بیٹ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ترمذي/كتاب تفسير القرآن/حدیث: 3067]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
جو لوگ ایمان لائے اور اپنے ایمان میں ظلم (شرک) کی آمیزش نہ کی۔
(الأنعام: 82)

2؎:
اے میرے بیٹے! شرک نہ کر۔
شرک بہت بڑا گناہ ہے (لقمان: 13)
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 3067   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3360  
3360. حضرت عبداللہ بن مسعود ؓسے روایت ہے، کہ جب درج ذیل آیت کریمہ نازل ہوئی: جو لوگ ایمان لائے اور اپنے ایمان کو ظلم سے آلودہ نہ کیا تو ان کے لیے امن و سلامتی ہے۔ ہم نے عرض کیا: اللہ کے رسول اللہ ﷺ! ہم میں سے کون سا شخص ہے جس نے اپنے آپ پر ظلم نہیں کیا؟ تو آپ نے فرمایا: ایسا نہیں جیسا تم نے سمجھ لیا ہے۔ اس آیت سے مراد یہ ہے کہ انھوں نے اپنے ایمان کو شرک سے آلودہ نہ کیاہو۔ کیا تم نے نہیں سنا کہ حضرت لقمان نے اپنے بیٹے سے کہا تھا: اے لخت جگر! اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ بناؤ کیونکہ شرک بہت بڑاظلم ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3360]
حدیث حاشیہ:
کرمانی نے کہا کہ آیت مذکورہ میں بعد ہی حضرت ابراہیم ؑ کا ذکر آیا ہے۔
یہی باب سے مناسبت ہے۔
بعض نے کہا کہ آیت ﴿الَّذِينَ آمَنُوا وَلَمْ يَلْبِسُوا﴾ (الأنعام: 82)
حضرت ابراہیم ہی کا مقولہ ہے اور حاکم نے حضرت على ؓ سے نکالا کہ یہ آیت حضرت ابراہیم ؑ اور ان کے ساتھ والوں کے حق میں ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3360   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3360  
3360. حضرت عبداللہ بن مسعود ؓسے روایت ہے، کہ جب درج ذیل آیت کریمہ نازل ہوئی: جو لوگ ایمان لائے اور اپنے ایمان کو ظلم سے آلودہ نہ کیا تو ان کے لیے امن و سلامتی ہے۔ ہم نے عرض کیا: اللہ کے رسول اللہ ﷺ! ہم میں سے کون سا شخص ہے جس نے اپنے آپ پر ظلم نہیں کیا؟ تو آپ نے فرمایا: ایسا نہیں جیسا تم نے سمجھ لیا ہے۔ اس آیت سے مراد یہ ہے کہ انھوں نے اپنے ایمان کو شرک سے آلودہ نہ کیاہو۔ کیا تم نے نہیں سنا کہ حضرت لقمان نے اپنے بیٹے سے کہا تھا: اے لخت جگر! اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ بناؤ کیونکہ شرک بہت بڑاظلم ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3360]
حدیث حاشیہ:
اس آیت سے پہلے سورہ انعام کی آیت: 74 سے حضرت ابراہیم ؑ کا ذکر شروع ہوتا ہے۔
جب آپ نے ستاروں، چاند اور سورج کی بے بسی بیان کردی کہ یہ سب چیزیں غروب وطلوع ہوتی ہیں، لہذا عبادت کے لائق نہیں، پھر فرمایا:
اور جنھیں تم اللہ کے شریک بناتے ہوئے اللہ سے نہیں ڈرتے، میں ان سے کیسے ڈروں جس کے لیے اللہ نے کوئی دلیل بھی نال نہیں کی؟ پھر ہم دونوں فریقوں میں سے امن کاحق دار کون ہے۔
اگرتم جانتے ہوتو جواب دو؟"(الانعام 6/81)
اس کے بعد فرمایا:
"جو لوگ ایمان لائے اور اپنے ایمان کو ظلم سے آلودہ نہ کیا تو ان کے لیے امن وسلامتی ہے۔
"(الأنعام: 82/6)
ان آیات کے بعداللہ تعالیٰ نے فرمایا:
یہی وہ ہماری دلیل تھی جو ہم نے ابراہیم علیہ السلام کو اس کی قوم کے خلاف دی تھی۔
(الأنعام: 83/6)
مستدرک حاکم میں حضرت علی ؓ سے روایت ہے کہ انھوں نے حدیث میں ذکر کردہ آیت کو پڑھا اس کے بعد فرمایا:
یہ آیت حضرت ابراہیم ؑ اور ان کے صحابہ کرام ؓ کے متعلق نازل ہوئی تھی۔
(المستدرك للحاکم 316/2)
اس تفصیل سے پتہ چلا کہ مذکورہ حدیث عنوان سے غیر متعلق نہیں جیساکہ بعض شارحین نے تاثر دیاہے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3360