صحيح البخاري
كِتَاب أَحَادِيثِ الْأَنْبِيَاءِ -- کتاب: انبیاء علیہم السلام کے بیان میں
12. بَابُ قَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى: {وَاذْكُرْ فِي الْكِتَابِ إِسْمَاعِيلَ إِنَّهُ كَانَ صَادِقَ الْوَعْدِ} :
باب: اور اللہ تعالیٰ کا فرمان ”اور یاد کرو اسماعیل کو کتاب میں بیشک وہ وعدے کے سچے تھے“۔
حدیث نمبر: 3373
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا حَاتِمٌ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي عُبَيْدٍ، عَنْ سَلَمَةَ بْنِ الْأَكْوَعِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: مَرَّ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى نَفَرٍ مِنْ أَسْلَمَ يَنْتَضِلُونَ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" ارْمُوا بَنِي إِسْمَاعِيلَ فَإِنَّ أَبَاكُمْ كَانَ رَامِيًا وَأَنَا مَعَ بَنِي فُلَانٍ، قَالَ: فَأَمْسَكَ أَحَدُ الْفَرِيقَيْنِ بِأَيْدِيهِمْ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مَا لَكُمْ لَا تَرْمُونَ، فَقَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، نَرْمِي وَأَنْتَ مَعَهُمْ، قَالَ: ارْمُوا وَأَنَا مَعَكُمْ كُلِّكُمْ".
ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے حاتم بن اسماعیل نے بیان کیا ‘ ان سے یزید بن ابی عبید نے اور ان سے سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم قبیلہ اسلم کی ایک جماعت سے گزرے جو تیر اندازی میں مقابلہ کر رہی تھی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے بنو اسماعیل! تیر اندازی کئے جاؤ کیونکہ تمہارے بزرگ دادا بھی تیرانداز تھے اور میں بنو فلاں کے ساتھ ہوں۔ راوی نے بیان کیا کہ یہ سنتے ہی دوسرے فریق نے تیر اندازی بند کر دی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا بات ہوئی ‘ تم لوگ تیر کیوں نہیں چلاتے؟ انہوں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! جب آپ فریق مقابل کے ساتھ ہو گئے تو اب ہم کس طرح تیر چلا سکتے ہیں۔ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مقابلہ جاری رکھو ‘ میں تم سب کے ساتھ ہوں۔
  حافظ عمران ايوب لاهوري حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 3372  
´ابراہیم علیہ السلام نے شک کا اظہار نہیں کیا`
«. . . عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: نَحْنُ أَحَقُّ بِالشَّكِّ مِنْ إِبْرَاهِيمَ إِذْ قَالَ رَبِّ أَرِنِي كَيْفَ تُحْيِي الْمَوْتَى قَالَ أَوَلَمْ تُؤْمِنْ قَالَ بَلَى وَلَكِنْ لِيَطْمَئِنَّ قَلْبِي سورة البقرة آية 260 وَيَرْحَمُ اللَّهُ لُوطًا لَقَدْ كَانَ يَأْوِي إِلَى رُكْنٍ شَدِيدٍ وَلَوْ لَبِثْتُ فِي السِّجْنِ طُولَ مَا لَبِثَ يُوسُفُ لَأَجَبْتُ الدَّاعِيَ . . .»
. . . انہیں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہم ابراہیم علیہ السلام کے مقابلے میں شک کرنے کے زیادہ مستحق ہیں جب کہ انہوں نے کہا تھا کہ میرے رب! مجھے دکھا کہ تو مردوں کو کس طرح زندہ کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: کہا کیا تم ایمان نہیں لائے ‘ انہوں نے عرض کیا کہ کیوں نہیں ‘ لیکن یہ صرف اس لیے تاکہ میرے دل کو اور زیادہ اطمینان ہو جائے۔ اور اللہ لوط علیہ السلام پر رحم کر کہ وہ زبردست رکن (یعنی اللہ تعالیٰ) کی پناہ لیتے تھے اور اگر میں اتنی مدت تک قید خانے میں رہتا جتنی مدت تک یوسف علیہ السلام رہے تھے تو میں بلانے والے کے بات ضرور مان لیتا . . . [صحيح البخاري/كِتَاب أَحَادِيثِ الْأَنْبِيَاءِ/بَابُ قَوْلُهُ عَزَّ وَجَلَّ: وَنَبِّئْهُمْ عَنْ ضَيْفِ إِبْرَاهِيمَ : 3372]

فهم الحدیث: ہم ابراہیم علیہ السلام سے شک کے زیادہ حقدار ہیں اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ ابراہیم علیہ السلام نے شک کی وجہ سے مردوں کو زندہ ہوتے دیکھنے کا مطالبہ کیا تھا بلکہ انہوں نے مزید اطمینان قلب کے لئے یہ مطالبہ کیا تھا اور ایک حدیث بھی ہے کہ آنکھوں دیکھا سنی سنائی بات کی طرح نہیں۔ [صحيح جامع الصغير 5373 مسند احمد 215/1] علاوہ ازیں نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے جو شک کا لفظ استعمال کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر ابراہیم علیہ السلام نے شک کا اظہار کیا ہوتا تو ہم ان سے زیادہ شک کے حقدار ہوتے (لیکن انہوں نے شک نہیں کیا اس لیے ہم بھی شک نہیں کرتے)۔
   جواہر الایمان شرح الولووالمرجان، حدیث/صفحہ نمبر: 92   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3373  
3373. حضرت سلمہ بن اکوع ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ کا گزر قبیلہ اسلم کے چند لوگوں کے پاس سے ہوا جو تیر اندازی کر رہے تھے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اے اولاد اسماعیل ؑ! تیراندازی کرو کیونکہ تمھارے باپ بھی بڑے تیر اندازتھے۔ اور میں فلاں فریق کی طرف ہوں۔ راوی کہتے ہیں۔ یہ سن کر دوسرے فریق نے ہاتھ روک لیے۔ اس پر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: تمھیں کیا ہوا، تیر اندازی کیوں نہیں کرتے؟ انھوں نے کہا: اللہ کے رسول اللہ ﷺ! ہم کس طرح تیراندازی کریں جبکہ آپ دوسرے فریق کے ساتھ ہیں؟ پھر آپ نے فرمایا: تیراندازی کرو، میں تم سب کے ساتھ ہوں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3373]
حدیث حاشیہ:
روایت میں سیدنا اسماعیل ؑ کا ذکر ہے۔
باب اورحدیث میں یہی وجہ مناسبت ہے۔
یہ بھی معلوم ہوا کہ باپ دادا کے اچھے کاموں کو فخر کے ساتھ اپنانا بہتر ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3373   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3373  
3373. حضرت سلمہ بن اکوع ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ کا گزر قبیلہ اسلم کے چند لوگوں کے پاس سے ہوا جو تیر اندازی کر رہے تھے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اے اولاد اسماعیل ؑ! تیراندازی کرو کیونکہ تمھارے باپ بھی بڑے تیر اندازتھے۔ اور میں فلاں فریق کی طرف ہوں۔ راوی کہتے ہیں۔ یہ سن کر دوسرے فریق نے ہاتھ روک لیے۔ اس پر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: تمھیں کیا ہوا، تیر اندازی کیوں نہیں کرتے؟ انھوں نے کہا: اللہ کے رسول اللہ ﷺ! ہم کس طرح تیراندازی کریں جبکہ آپ دوسرے فریق کے ساتھ ہیں؟ پھر آپ نے فرمایا: تیراندازی کرو، میں تم سب کے ساتھ ہوں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3373]
حدیث حاشیہ:

جزیرہ عرب کے باشندے بنواسماعیل اورشام و فلسطین کے باشندے بنو سرائیل ہیں۔
حضرت اسماعیل ؑ نے یمن کے ایک جرہم نامی قبیلے سے عربی زبان سیکھی اور آپ بہترین تیر ساز اور تیرانداز تھے۔
عنوان میں حضرت اسماعیل ؑ کا ذکر تھا اور حدیث بھی آپ کے ذکر خیر پر مشتمل ہے۔

اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ باپ داداکے اچھے کاموں کو عمل میں لانا باعث تعریف ہے باتوں میں "پدرم سلطان بود" کہنا قابل مذمت ہے۔

ذکر کردہ آیت کے آخر میں ہے کہ حضرت اسماعیل ؑ رسول اللہ بن تھے آپ کے ابراہیمی شریعت دے کر بنو جرہم کی طرف بھیجا گیا۔
رسول اللہ ﷺ انھی کی اولاد سے ہیں آپ کا صادق الوعدہ ہونا مشہور تھا۔
اللہ سے پابندوں سے جو وعدہ کیا اسے ضرور پورا کرتے خواہ اس وعدہ وفائی میں جان تک قربان کرنا پڑے۔
واللہ المستعان۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3373