صحيح البخاري
كِتَاب أَحَادِيثِ الْأَنْبِيَاءِ -- کتاب: انبیاء علیہم السلام کے بیان میں
23. بَابُ: {وَقَالَ رَجُلٌ مُؤْمِنٌ مِنْ آلِ فِرْعَوْنَ} إِلَى قَوْلِهِ: {مُسْرِفٌ كَذَّابٌ} :
باب: (اللہ تعالیٰ نے فرمایا) ”اور فرعون کے خاندان کے ایک مومن مرد (شمعان نامی) نے کہا جو اپنے ایمان کو پوشیدہ رکھے ہوئے تھا“ اللہ تعالیٰ کے ارشاد «مسرف كذاب» تک۔
وَوَهَبْنَا لَهُ مِنْ رَحْمَتِنَا أَخَاهُ هَارُونَ نَبِيًّا سورة مريم آية 53 يُقَالُ لِلْوَاحِدِ وَللْاثْنَيْنِ وَالْجَمِيعِ نَجِيٌّ وَيُقَالُ خَلَصُوا نَجِيًّا اعْتَزَلُوا نَجِيًّا وَالْجَمِيعُ أَنْجِيَةٌ يَتَنَاجَوْنَ.
‏‏‏‏ اور ان کے لیے اپنی مہربانی سے ہم نے ان کے بھائی ہارون علیہ السلام کو نبی بنایا۔ واحد ‘ تثنیہ اور جمع سب کے لیے لفظ «نجي‏.‏» بولا جاتا ہے۔ سورۃ یوسف میں ہے۔ «خلصوا نجيا.‏» یعنی اکیلے میں جا کر مشورہ کرنے لگے (اگر «نجي‏.‏» کا لفظ مفرد کے لیے استعمال ہوا ہو تو) اس کی جمع «أنجية‏» ہو گی۔ سورۃ المجادلہ میں لفظ «يتناجون» بھی اسی سے نکلا ہے۔
حدیث نمبر: 3392
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، قَالَ: حَدَّثَنِي عُقَيْلٌ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ سَمِعْتُ عُرْوَةَ، قَالَ: قَالَتْ عَائِشَةُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا:"فَرَجَعَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى خَدِيجَةَ يَرْجُفُ فُؤَادُهُ فَانْطَلَقَتْ بِهِ إِلَى وَرَقَةَ بْنِ نَوْفَلٍ وَكَانَ رَجُلًا تَنَصَّرَ يَقْرَأُ الْإِنْجِيلَ بِالْعَرَبِيَّةِ، فَقَالَ:" وَرَقَةُ مَاذَا تَرَى فَأَخْبَرَهُ، فَقَالَ: وَرَقَةُ هَذَا النَّامُوسُ الَّذِي أَنْزَلَ اللَّهُ عَلَى مُوسَى وَإِنْ أَدْرَكَنِي يَوْمُكَ أَنْصُرْكَ نَصْرًا مُؤَزَّرًا النَّامُوسُ صَاحِبُ السِّرِّ الَّذِي يُطْلِعُهُ بِمَا يَسْتُرُهُ عَنْ غَيْرِهِ".
ہم سے عبداللہ بن یوسف تنیسی نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے لیث بن سعد نے بیان کیا ‘ کہا کہ مجھ سے عقیل نے بیان کیا ‘ ان سے ابن شہاب نے ‘ انہوں نے عروہ بن زبیر سے سنا ‘ انہوں نے بیان کیا کہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا ‘ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم (غار حراء سے) ام المؤمنین خدیجہ رضی اللہ عنہا کے پاس لوٹ آئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا دل دھڑک رہا تھا۔ خدیجہ رضی اللہ عنہا آپ کو ورقہ بن نوفل کے پاس لے گئیں، وہ نصرانی ہو گئے تھے اور انجیل کو عربی میں پڑھتے تھے۔ ورقہ نے پوچھا کہ آپ کیا دیکھتے ہیں؟ آپ نے انہیں بتایا تو انہوں نے کہا کہ یہی ہیں وہ «ناموس» جنہیں اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام کے پاس بھیجا تھا اور اگر میں تمہارے زمانے تک زندہ رہا تو میں تمہاری پوری مدد کروں گا۔ «ناموس» محرم راز کو کہتے ہیں جو ایسے راز سے بھی آگاہ ہو جو آدمی دوسروں سے چھپائے۔
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3392  
3392. حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا: پھر نبی کریم ﷺ (وحی آنے کے بعد) حضرت خدیجہ ؓ کی طرف لوٹے تو آپ کا دل کانپ رہا تھا، چنانچہ وہ آپ کو حضرت ورقہ بن نوفل کے پاس لے گئیں۔ وہ شخص نصرانی ہوگیا تھا۔ انجیل کاعربی زبان میں ترجمہ کرتاتھا، ورقہ نے آپ سے پوچھا: آپ نے کیادیکھا؟ تو آپ نے اس سے ساراواقعہ بیان کردیا۔ ورقہ نے کہا: یہ تو وہی راز دان ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ ؑ پر اتارا تھا۔ اگر مجھے آپ کا زمانہ (ظہور نبوت) مل گیا تو میں آپ کی بھر پور مدد کروں گا۔ ناموس، اس رازدان کو کہتے ہیں جو دوسروں سے راز میں رکھتے ہوئے کسی چیز کی اطلاع دے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3392]
حدیث حاشیہ:

انبیائے بنی اسرائیل میں سے حضرت موسیٰ ؑ بڑے جلیل القدر پیغمبر ہیں۔
ان کاذکر خیر متعدد آیات میں آیا ہے۔
ان کی پیدائش اور بعد کی پوری زندگی قدرت الٰہی کی بڑی بڑی نشانیوں میں سے تھی۔
انھوں نے وقت کے جابر حکمران سے ٹکر لی جو خود کو رب اعلیٰ (سب سے بڑا رب)
کہتا تھا۔
آسمانی کتاب کے بغیر صرف وحی خفی، یعنی احادیث مبارکہ سے اس کا مقابلہ کیا۔
آخر وہ صفحہ ہستی سے مٹ گیا اور بعد میں آنے والوں کے لیے نشان ِعبرت بنا۔
حضرت موسیٰ ؑ کا یہ وہ کارنامہ ہے جو رہتی دنیا تک یاد رہے گا۔

اس حدیث میں ورقہ بن نوفل کا ایک مقولہ محل استشہاد ہے:
یہ تو وہی رازدان ہے جسے اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ ؑ پر نازل کیا تھا۔
اس سے مراد فرشتہ وحی حضرت جبرئیل ؑ ہیں۔

فرعون کو غرق کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ نے انھیں تورات جیسی مقدس کتاب عطا فرمائی جو سراپا ہدایت اور روشنی تھی۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3392