صحيح البخاري
كِتَاب أَحَادِيثِ الْأَنْبِيَاءِ -- کتاب: انبیاء علیہم السلام کے بیان میں
28. بَابٌ:
باب:۔۔۔
حدیث نمبر: 3404
حَدَّثَنِي إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، حَدَّثَنَا رَوْحُ بْنُ عُبَادَةَ، حَدَّثَنَا عَوْفٌ، عَنْ الْحَسَنِ وَمُحَمَّدٍ وَخِلَاسٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِنَّ مُوسَى كَانَ رَجُلًا حَيِيًّا سِتِّيرًا لَا يُرَى مِنْ جِلْدِهِ شَيْءٌ اسْتِحْيَاءً مِنْهُ فَآذَاهُ مَنْ آذَاهُ مِنْ بَنِي إِسْرَائِيلَ، فَقَالُوا: مَا يَسْتَتِرُ هَذَا التَّسَتُّرَ إِلَّا مِنْ عَيْبٍ بِجِلْدِهِ إِمَّا بَرَصٌ وَإِمَّا أُدْرَةٌ وَإِمَّا آفَةٌ وَإِنَّ اللَّهَ أَرَادَ أَنْ يُبَرِّئَهُ مِمَّا، قَالُوا لِمُوسَى: فَخَلَا يَوْمًا وَحْدَهُ فَوَضَعَ ثِيَابَهُ عَلَى الْحَجَرِ ثُمَّ اغْتَسَلَ فَلَمَّا فَرَغَ أَقْبَلَ إِلَى ثِيَابِهِ لِيَأْخُذَهَا وَإِنَّ الْحَجَرَ عَدَا بِثَوْبِهِ فَأَخَذَ مُوسَى عَصَاهُ وَطَلَبَ الْحَجَرَ فَجَعَلَ، يَقُولُ: ثَوْبِي حَجَرُ ثَوْبِي حَجَرُ حَتَّى انْتَهَى إِلَى مَلَإٍ مِنْ بَنِي إِسْرَائِيلَ فَرَأَوْهُ عُرْيَانًا أَحْسَنَ مَا خَلَقَ اللَّهُ وَأَبْرَأَهُ مِمَّا، يَقُولُونَ: وَقَامَ الْحَجَرُ فَأَخَذَ ثَوْبَهُ فَلَبِسَهُ وَطَفِقَ بِالْحَجَرِ ضَرْبًا بِعَصَاهُ فَوَاللَّهِ إِنَّ بِالْحَجَرِ لَنَدَبًا مِنْ أَثَرِ ضَرْبِهِ ثَلَاثًا أَوْ أَرْبَعًا أَوْ خَمْسًا فَذَلِكَ قَوْلُهُ يَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لا تَكُونُوا كَالَّذِينَ آذَوْا مُوسَى فَبَرَّأَهُ اللَّهُ مِمَّا قَالُوا وَكَانَ عِنْدَ اللَّهِ وَجِيهًا سورة الأحزاب آية 69".
مجھ سے اسحاق بن ابراہیم نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے روح بن عبادہ نے بیان کیا ‘ ان سے عوف بن ابوجمیلہ نے بیان کیا ‘ ان سے امام حسن بصری اور محمد بن سیرین اور خلاس بن عمرو نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ موسیٰ علیہ السلام بڑے ہی شرم والے اور بدن ڈھانپنے والے تھے۔ ان کی حیاء کی وجہ سے ان کے بدن کو کوئی حصہ بھی نہیں دیکھا جا سکتا تھا۔ بنی اسرائیل کے جو لوگ انہیں اذیت پہنچانے کے درپے تھے ‘ وہ کیوں باز رہ سکتے تھے ‘ ان لوگوں نے کہنا شروع کیا کہ اس درجہ بدن چھپانے کا اہتمام صرف اس لیے ہے کہ ان کے جسم میں عیب ہے یا کوڑھ ہے یا ان کے خصیتین بڑھے ہوئے ہیں یا پھر کوئی اور بیماری ہے۔ ادھر اللہ تعالیٰ کو یہ منظور ہوا کہ موسیٰ علیہ السلام کی ان کی ہفوات سے پاکی دکھلائے۔ ایک دن موسیٰ علیہ السلام اکیلے غسل کرنے کے لیے آئے ایک پتھر پر اپنے کپڑے (اتار کر) رکھ دیئے۔ پھر غسل شروع کیا۔ جب فارغ ہوئے تو کپڑے اٹھانے کے لیے بڑھے لیکن پتھر ان کے کپڑوں سمیت بھاگنے لگا۔ موسیٰ علیہ السلام نے اپنا عصا اٹھایا اور پتھر کے پیچھے دوڑے۔ یہ کہتے ہوئے کہ پتھر! میرا کپڑا دیدے۔ آخر بنی اسرائیل کی ایک جماعت تک پہنچ گئے اور ان سب نے آپ کو ننگا دیکھ لیا ‘ اللہ کی مخلوق میں سب سے بہتر حالت میں اور اس طرح اللہ تعالیٰ نے ان کی تہمت سے ان کی برات کر دی۔ اب پتھر بھی رک گیا اور آپ نے کپڑا اٹھا کر پہنا۔ پھر پتھر کو اپنے عصا سے مارنے لگے۔ اللہ کی قسم اس پتھر پر موسیٰ علیہ السلام کے مارنے کی وجہ سے تین یا چار یا پانچ جگہ نشان پڑ گئے تھے۔ اللہ تعالیٰ کے اس فرمان «يا أيها الذين آمنوا لا تكونوا كالذين آذوا موسى فبرأه الله مما قالوا وكان عند الله وجيها‏» تم ان کی طرح نہ ہو جانا جنہوں نے موسیٰ علیہ السلام کو اذیت دی تھی ‘ پھر ان کی تہمت سے اللہ تعالیٰ نے انہیں بری قرار دیا اور وہ اللہ کی بارگاہ میں بڑی شان والے اور عزت والے تھے۔ میں اسی واقعہ کی طرف اشارہ ہے۔
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 278  
´پتھر کا موسیٰ علیہ السلام کے کپڑے لے کر بھاگنا `
«. . . عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" كَانَتْ بَنُو إِسْرَائِيلَ يَغْتَسِلُونَ عُرَاةً يَنْظُرُ بَعْضُهُمْ إِلَى بَعْضٍ، وَكَانَ مُوسَى يَغْتَسِلُ وَحْدَهُ، فَقَالُوا: وَاللَّهِ مَا يَمْنَعُ مُوسَى أَنْ يَغْتَسِلَ مَعَنَا إِلَّا أَنَّهُ آدَرُ، فَذَهَبَ مَرَّةً يَغْتَسِلُ فَوَضَعَ ثَوْبَهُ عَلَى حَجَرٍ فَفَرَّ الْحَجَرُ بِثَوْبِهِ، فَخَرَجَ مُوسَى فِي إِثْرِهِ، يَقُولُ: ثَوْبِي يَا حَجَرُ، حَتَّى نَظَرَتْ بَنُو إِسْرَائِيلَ إِلَى مُوسَى، فَقَالُوا: وَاللَّهِ مَا بِمُوسَى مِنْ بَأْسٍ وَأَخَذَ ثَوْبَهُ فَطَفِقَ بِالْحَجَرِ ضَرْبًا"، فَقَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ: وَاللَّهِ إِنَّهُ لَنَدَبٌ بِالْحَجَرِ سِتَّةٌ أَوْ سَبْعَةٌ ضَرْبًا بِالْحَجَرِ.»
۔۔۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بنی اسرائیل ننگے ہو کر اس طرح نہاتے تھے کہ ایک شخص دوسرے کو دیکھتا لیکن موسیٰ علیہ السلام تنہا پردہ سے غسل فرماتے۔ اس پر انہوں نے کہا کہ بخدا موسیٰ کو ہمارے ساتھ غسل کرنے میں صرف یہ چیز مانع ہے کہ آپ کے خصیے بڑھے ہوئے ہیں۔ ایک مرتبہ موسیٰ علیہ السلام غسل کرنے لگے اور آپ نے کپڑوں کو ایک پتھر پر رکھ دیا۔ اتنے میں پتھر کپڑوں کو لے کر بھاگا اور موسیٰ علیہ السلام بھی اس کے پیچھے بڑی تیزی سے دوڑے۔ آپ کہتے جاتے تھے۔ اے پتھر! میرا کپڑا دے۔ اے پتھر! میرا کپڑا دے۔ اس عرصہ میں بنی اسرائیل نے موسیٰ علیہ السلام کو ننگا دیکھ لیا اور کہنے لگے کہ بخدا موسیٰ کو کوئی بیماری نہیں اور موسیٰ علیہ السلام نے کپڑا لیا اور پتھر کو مارنے لگے۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ بخدا اس پتھر پر چھ یا سات مار کے نشان باقی ہیں۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْغُسْل: 278]

تخریج الحدیث:
یہ روایت صحیح بخاری میں تین مقامات پر ہے۔ [ح 278، 3404، 4799]
امام بخاری رحمہ اللہ کے علاوہ درج ذیل محدثین نے بھی اسے روایت کیا ہے:
مسلم النیسابوری [صحيح مسلم ح339 وترقيم دارالسلام: 770 وبعد ح 2371 ترقيم دارالسلام: 6146، 6147]
ترمذي [السنن: 3221 وقال: هذا حديث حسن صحيح إلخ]
النسائي فى التفسير [444، 445]
الطحاوي فى مشكل الآثار [1؍11]
والطبري فى تفسيره [تفسير ابن جرير 22؍37]
یہ روایت درج ذیل کتابوں میں بھی موجود ہے:
مسند ابي عوانه [281/1]
صحيح ابن حبان [الاحسان 94/14 ح 6178، دوسرا نسخه: 6211]
الاوسط لابن المنذر [120/2 ح649]
السنن الكبريٰ للبيهقي [198/1]
معالم التنزيل للبغوي [545/3]
یہ روایت امام بخاری رحمہ اللہ سے پہلے درج ذیل محدثین نے بھی بیان کی ہے:
أحمد بن حنبل [المسند 2؍315، 392، 514، 535]
عبدالرزاق [المصنف: 20531]
همام بن منبہ [الصحيفة: 61]
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے یہ روایت درج ذیل جلیل القدر تابعین کی سند سے مروی ہے:
① ہمام بن منبہ [الصحيفة: 61 وصحيح البخاري: 278 وصحيح مسلم: 339]
② محمد بن سیرین [صحيح البخاري: 3404، 4799]
③ خلاس بن عمرو [صحيح البخاري: 3404، 4799]
④ الحسن البصری [صحيح البخاري: 3404، 4799]
⑤ عبداللہ بن شقیق [صحيح مسلم: 339 بعد ح2371 ترقيم دارالسلام: 6147]
اس روایت کی دوسری سندیں، آثارِ صحابہ اور آثارِ تابعین بھی مروی ہیں دیکھئیے:
مصنف ابن ابی شیبہ [11؍533، 535]
وتفسیر الطبری [22؍36، 37]
وكشف الاستار [مسند البزار: 2252]
اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ صحیح بخاری کی یہ روایت بالکل صحیح ہے۔

اس حدیث کی تشریح میں حافظ ابن حزم اندلسی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
«انه ليس فى الحديث انهم رأوا من موسي الذكر - الذى هو عورة - و ان رأوا منه هيئة تبينوا بها أنه مبرأ مما قالوا من الادرة وهذا يتبين لكل ناظر بلا شك، بغير أن يرى شيئًا من الذكر لكن بأن يرى مابين الفخذين خاليًا»
حدیث میں یہ نہیں ہے کہ انہوں (بنی اسرائیل) نے موسیٰ (علیہ السلام) کا ذکر یعنی شرمگاہ دیکھی تھی۔ انہوں نے ایسی حالت دیکھی جس سے واضح ہو گیا کہ موسیٰ علیہ السلام ان لوگوں کے الزمات کہ وہ آدر ہیں (یعنی ان کے خصیے بہت موٹے ہیں) سے بری ہیں۔ ہر دیکھنے والے کو (ایسی حالت میں) بغیر کسی شک کے ذَکر (شرمگاہ) دیکھے بغیر ہی یہ معلوم ہو جاتا ہے جب وہ دیکھتا ہے کہ رانوں کے درمیان جگہ خالی ہے۔ [المحليٰ 3؍213 مسئله: 349]
اس تشریح سے معلوم ہوا کہ بنی اسرائیل سیدنا موسیٰ علیہ السلام پر جو جسمانی نقص والے الزامات لگاتے تھے، ان تمام الزامات سے آپ بری تھے۔ دوسرے یہ کہ اس روایت میں یہ بھی نہیں ہے کہ سیدنا موسیٰ علیہ السلام بالکل ننگے نہا رہے تھے۔ امام ابن حزم کے کلام سے ظاہر ہوتا ہے کہ آپ نے لنگوٹی وغیرہ سے اپنی شرمگاہ کو چھپا رکھا تھا اور باقی جسم ننگا تھا۔
بنی اسرائیل نے آپ کی شرمگاہ کو دیکھا ہی نہیں لہٰذا منکرین حدیث کا اس حدیث کا مذاق اڑانا مردود ہے۔
بعض الناس نے کہا کہ تو تین یا چار نشان کہنے کا کیا مطلب؟
عرض ہے کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: «وَأَرْسَلْنَاهُ إِلَىٰ مِائَةِ أَلْفٍ أَوْ يَزِيدُونَ» اور بھیجا اس کو لاکھ آدمیوں پر یا زیادہ۔ [الصّٰفّٰت: 147 ترجمه شاه عبدالقادر ص543]
اس آیت کریمہ کا ترجمہ شاہ ولی اللہ الدہلوی کی تحریر سے پڑھ لیں:
«وفرستاديم اُو را بسوئے صد هزار يا بيشتر ازان باشند» [ص543]
منکرین حدیث اس آیت کریمہ میں لفظ او کی جو تشریح کریں گے وہی تشریح سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے قول «ستة أو سبعة» میں «او» کی ہے۔ «والحمدلله»
   ماہنامہ الحدیث حضرو ، شمارہ 24، حدیث/صفحہ نمبر: 11   
  حافظ عمران ايوب لاهوري حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 278  
´جس نے تنہائی میں ننگے ہو کر غسل کیا`
«. . . عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " كَانَتْ بَنُو إِسْرَائِيلَ يَغْتَسِلُونَ عُرَاةً يَنْظُرُ بَعْضُهُمْ إِلَى بَعْضٍ، وَكَانَ مُوسَى يَغْتَسِلُ وَحْدَهُ، فَقَالُوا: وَاللَّهِ مَا يَمْنَعُ مُوسَى أَنْ يَغْتَسِلَ مَعَنَا إِلَّا أَنَّهُ آدَرُ . . .»
. . . انہوں نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے، انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہ` آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بنی اسرائیل ننگے ہو کر اس طرح نہاتے تھے کہ ایک شخص دوسرے کو دیکھتا لیکن موسیٰ علیہ السلام تنہا پردہ سے غسل فرماتے . . . [صحيح البخاري/كِتَاب الْغُسْل/بَابُ مَنِ اغْتَسَلَ عُرْيَانًا وَحْدَهُ فِي الْخَلْوَةِ، وَمَنْ تَسَتَّرَ فَالتَّسَتُّرُ أَفْضَلُ:: 278]

تخريج الحديث:
[194۔ البخاري فى: 5 كتاب الغسل: 20 باب من اغتسل عريانًا وحده فى الخلوة 278، مسلم 339]
لغوی توضیح:
«آدَرُ» بڑے بڑے خصیتین والا۔
«فِيْ اِثْرِهِ» اس کے پیچھے۔
«نَدَبٌ» نشان۔
   جواہر الایمان شرح الولووالمرجان، حدیث/صفحہ نمبر: 194   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 3221  
´سورۃ الاحزاب سے بعض آیات کی تفسیر۔`
ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: موسیٰ علیہ السلام باحیاء، پردہ پوش انسان تھے، ان کے بدن کا کوئی حصہ ان کے شرما جانے کے ڈر سے دیکھا نہ جا سکتا تھا، مگر انہیں تکلیف پہنچائی جس کسی بھی اسرائیلی نے تکلیف پہنچائی، ان لوگوں نے کہا: یہ شخص (اتنی زبردست) ستر پوشی محض اس وجہ سے کر رہا ہے کہ اسے کوئی جلدی بیماری ہے: یا تو اسے برص ہے، یا اس کے خصیے بڑھ گئے ہیں، یا اسے کوئی اور بیماری لاحق ہے۔ اللہ نے چاہا کہ ان پر جو تہمت اور جو الزامات لگائے جا رہے ہیں ان سے انہیں بری کر دے۔ (تو ہوا یوں کہ) موسیٰ علیہ السل۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ترمذي/كتاب تفسير القرآن/حدیث: 3221]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
اے ایمان لانے والو! تم ان لوگوں کی طرح نہ ہو جانا جنہوں نے موسیٰ علیہ السلام کو اپنے جھوٹے الزامات سے تکلیف پہنچائی،
تو اللہ نے انہیں اس تہمت سے بری قرار دیا،
وہ اللہ کے نزدیک بڑی عزت ومرتبت والا تھاؔ (الأحزاب: 69)
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 3221   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3404  
3404. حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے، انھوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: موسیٰ ؑ بڑے حیادار اورستر پوش تھے۔ ان کے حیا کی وجہ سے ان کے جسم کاکوئی حصہ بھی نہیں دیکھا جاسکتاتھا۔ بنی اسرائیل کے جولوگ انھیں اذیت پہنچانے کے درپے تھے انھوں نے کہا کہ اس قدر بدن چھپانے کا اہتمام صرف اس لیے ہے کہ ان کے جسم میں کوئی عیب ہے۔ انھیں برص ہے یا فتق (خصیتین کے بڑا چھوٹا ہونے یاپھول جانے) کی یاکوئی اور بیماری ہے۔ اللہ تعالیٰ نے موسیٰ ؑ کو ان کی تکلیف دہ باتوں (اور ایزا رسانیوں) سے پاک کرنا چاہا، چنانچہ ایک دن موسیٰ ؑ اکیلے غسل کرنے کے لیے آئے تو ایک پتھر پر اپنے کپڑے اتا کررکھ دیے، پھرغسل کرنے لگے۔ فراغت کے بعد کپڑے اٹھانے کے لیے پتھر کی طرف بڑھے تو پتھر ان کے کپڑے لے کر بھاگ نکلا۔ موسیٰ ؑ نے اپنا عصالیا اور پتھر کے پیچھے یہ کہتے ہوئے دوڑے: اے پتھر! میرے کپڑے دے دے۔ اے پتھر! میرے کپڑے دےدے۔ حتیٰ کہ بنی اسرائیل کی ایک۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:3404]
حدیث حاشیہ:
حدیث میں حضرت موسیٰ اور بنی اسرائیل کا ذکر ہے۔
باب سے یہی مناسبت ہے۔
قرآن پاک کی آیت ﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَكُونُوا كَالَّذِينَ آذَوْا مُوسَى﴾ (الأحزاب: 69)
میں اسی واقعہ کی طرف اشارہ ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3404   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3404  
3404. حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے، انھوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: موسیٰ ؑ بڑے حیادار اورستر پوش تھے۔ ان کے حیا کی وجہ سے ان کے جسم کاکوئی حصہ بھی نہیں دیکھا جاسکتاتھا۔ بنی اسرائیل کے جولوگ انھیں اذیت پہنچانے کے درپے تھے انھوں نے کہا کہ اس قدر بدن چھپانے کا اہتمام صرف اس لیے ہے کہ ان کے جسم میں کوئی عیب ہے۔ انھیں برص ہے یا فتق (خصیتین کے بڑا چھوٹا ہونے یاپھول جانے) کی یاکوئی اور بیماری ہے۔ اللہ تعالیٰ نے موسیٰ ؑ کو ان کی تکلیف دہ باتوں (اور ایزا رسانیوں) سے پاک کرنا چاہا، چنانچہ ایک دن موسیٰ ؑ اکیلے غسل کرنے کے لیے آئے تو ایک پتھر پر اپنے کپڑے اتا کررکھ دیے، پھرغسل کرنے لگے۔ فراغت کے بعد کپڑے اٹھانے کے لیے پتھر کی طرف بڑھے تو پتھر ان کے کپڑے لے کر بھاگ نکلا۔ موسیٰ ؑ نے اپنا عصالیا اور پتھر کے پیچھے یہ کہتے ہوئے دوڑے: اے پتھر! میرے کپڑے دے دے۔ اے پتھر! میرے کپڑے دےدے۔ حتیٰ کہ بنی اسرائیل کی ایک۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:3404]
حدیث حاشیہ:

اس حدیث میں حضرت موسیٰ ؑ اور بنی اسرائیل کا ذکر ہے، اس مناسبت سے امام بخاری ؒ نے اسے یہاں بیان کیا ہے۔

اس حدیث سے معلوم ہوا کہ ضرورت کے وقت برہنہ چلنا جائز ہے نیز علاج کے لیے یا آپریشن کے وقت مریض کو برہنہ دیکھاجائز ہے اور حضرات انبیاء ؑ ظاہری اور باطنی عیوب سے پاک ہوتے ہیں اور جو کوئی کسی نبی کی خلقت میں عیب لگائے وہ اپنے ایمان کی خیر منائے۔
ایسے کام کرنا نبی کو اذیت پہچانا ہے اور اذیت رسانی حرام ہے۔
واللہ أعلم۔

جو لوگ خرق عادت واقعات یا معجزات کے منکرہیں انھیں مذکورہ بالا تفسیر راس نہیں آسکتی تاہم اس حدیث کے الفاظ میں اتنی گنجائش موجود ہے کہ وہ بھی اسے مان لیں کیونکہ عربی زبان میں حجر کے معنی گھوڑی کے بھی ہیں۔
اعتبار سے واقعہ یوں ہو گا کہ حضرت موسیٰ ؑ گھوڑی پر سوار تھے کسی تنہائی کے مقام پرنہانے لگے تو گھوڑی کو کھڑا کیا اور اسی پراپنے کپڑے رکھ دیے۔
جب فراغت کے بعد اپنے کپڑے لینے کے لیے آگے بڑھے تو گھوڑی دوڑ پڑی اور موسیٰ ؑ اس کے پیچھے ثوبی حجر ثوبی حجر کہتے ہوئے دوڑپڑے یہاں تک کہ کچھ لوگوں نے آپ کو ننگے بدن دیکھا لیا کہ آپ بالکل بے داغ اور ان کی مزعومہ بیماری سے پاک ہیں اس طرح اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ ؑ کو ان لوگوں کے الزام سے بری کردیا۔
اسے تسلیم کرنے میں کوئی امر مانع نہیں۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3404