صحيح البخاري
كِتَاب أَحَادِيثِ الْأَنْبِيَاءِ -- کتاب: انبیاء علیہم السلام کے بیان میں
35. بَابُ قَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى: {وَإِنَّ يُونُسَ لَمِنَ الْمُرْسَلِينَ} إِلَى قَوْلِهِ: {فَمَتَّعْنَاهُمْ إِلَى حِينٍ} :
باب: (یونس علیہ السلام کا بیان) سورۃ الصافات میں اللہ تعالیٰ کے اس قول کا بیان ”اور بلاشبہ یونس یقیناً رسولوں میں سے تھا“ اس قول تک ”تو ہم نے انہیں ایک وقت تک فائدہ دیا“۔
حدیث نمبر: 3416
حَدَّثَنَا أَبُو الْوَلِيدِ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ سَعْدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ، سَمِعْتُ حُمَيْدَ بْنَ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" لَا يَنْبَغِي لِعَبْدٍ أَنْ يَقُولَ أَنَا خَيْرٌ مِنْ يُونُسَ بْنِ مَتَّى".
ہم سے ابوالولید نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا ‘ ان سے سعد بن ابراہیم نے ‘ انہوں نے حمید بن عبدالرحمٰن سے سنا اور انہوں نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کسی شخص کے لیے یہ کہنا لائق نہیں کہ میں یونس بن متی سے افضل ہوں۔
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3416  
3416. حضرت ابوہریرہ ؓسے روایت ہے، وہ نبی کریم ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: کسی بندے کے لیے مناسب نہیں کہ وہ یہ کہے: میں، یعنی رسول اللہ ﷺ حضرت یونس بن متی سے بہتر ہوں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3416]
حدیث حاشیہ:
یعنی اپنی رائے اورعقل سےکیونکہ فضیلت ایک مخفی امرہے۔
اس کا اللہ کےعلم پر چھوڑنا بہتر ہےمگر چونکہ دوسری حدیثوں میں اس کی صراحت آگئی کہ آنحضرت ﷺ سب انبیاء کےسردار ہیں، اس لیے آپ کو ان سےبہتر کہنا جائز ہوا مگر ادب کےساتھ کہ دوسرے پیغمبروں کی توہین نہ ہو۔
(وحید ی)
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3416   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3416  
3416. حضرت ابوہریرہ ؓسے روایت ہے، وہ نبی کریم ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: کسی بندے کے لیے مناسب نہیں کہ وہ یہ کہے: میں، یعنی رسول اللہ ﷺ حضرت یونس بن متی سے بہتر ہوں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3416]
حدیث حاشیہ:

ارشاد باری تعالیٰ ہے۔
آپ اپنے پروردگار کے حکم کے انتظار میں صبر کریں اور مچھلی والے کی طرح نہ ہو جائیں جب انھوں نے پکارا تو وہ غم سے بھرے ہوئے تھے۔
(القلم: 68۔
48)

حضرت یونس ؑ نے اپنی قوم کی مخالفت سے تنگ آکر بے صبری کا مظاہرہ کیا تھا انھیں وحی الٰہی کا انتظار کیے بغیر خود ہی عذاب کی دھمکی دے دی تھی اور پھر وہاں سے اذان الٰہی کے بغیر ہی چل دیے تھے۔

سیدنا یونس ؑ کو اپنی اجتہادی غلطی کا احساس تو نینواسے نکلنے کے فوراً بعدہی ہو گیا تھا۔
چنانچہ ان واقعات سے ان کے ایک کمزور پہلو کی نشاندہی ہوتی ہے اس لیے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
تمام انبیاء ؑ نبی ہونے کے اعتبار سے برابر ہیں۔
خاص طور پر حضرت یونس ؑ کے متعلق کوئی اس انداز سے تبصرہ نہ کرے کہ ان کی تنقیص کا پہلو نمایاں ہو۔
مندرجہ بالا احادیث کا مطالعہ ہمارے بیان کردہ پس منظر میں کیا جائے۔
ایک حدیث میں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
جس نے مجھے یونس بن متی پر فضیلت دی اس نے جھوٹ بولا۔
(صحیح البخاري، التفسیر، حدیث: 4604)

اجتہادی غلطی حضرات انبیاء ؑ سے ہو سکتی ہے لیکن اللہ تعالیٰ ان کی فوراً اصلاح فرما دیتا ہے اور انھیں اس غلطی پر برقرار نہیں رہنے دیا جاتا کیونکہ مقربین کی معمولی لغزش بھی اللہ کے ہاں بڑی اور قابل مؤاخذہ ہوتی ہے اسی بنا پر ان حضرات کا اللہ تعالیٰ مؤاخذہ کرتا ہے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3416