صحيح البخاري
كِتَاب أَحَادِيثِ الْأَنْبِيَاءِ -- کتاب: انبیاء علیہم السلام کے بیان میں
39. بَابُ: {وَاذْكُرْ عَبْدَنَا دَاوُدَ ذَا الأَيْدِ إِنَّهُ أَوَّابٌ} إِلَى قَوْلِهِ: {وَفَصْلَ الْخِطَابِ} :
باب: اللہ تعالیٰ کا (سورۃ ص میں) فرمان ”ہمارے زوردار بندے داؤد کا ذکر کر، وہ اللہ کی طرف رجوع ہونے والا تھا“ اللہ تعالیٰ کے ارشاد «وفصل الخطاب‏» تک (یعنی فیصلہ کرنے والی تقریر ہم نے انہیں عطا کی تھی)۔
حدیث نمبر: 3422
حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا وُهَيْبٌ، حَدَّثَنَا أَيُّوبُ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ:" لَيْسَ ص مِنْ عَزَائِمِ السُّجُودِ، وَرَأَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَسْجُدُ فِيهَا".
ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا، کہا ہم سے وہب نے بیان کیا، ان سے ایوب نے بیان کیا، ان سے عکرمہ نے اور ان سے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ سورۃ ص کا سجدہ ضروری نہیں، لیکن میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس سورۃ میں سجدہ کرتے دیکھا ہے۔
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 958  
´سورۃ «‏‏‏‏ص» ‏‏‏‏ میں سجدوں کا بیان۔`
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہم سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے سورۃ «ص» میں سجدہ کیا، اور فرمایا: داود علیہ السلام نے یہ سجدہ توبہ کے لیے کیا تھا، اور ہم یہ سجدہ (توبہ کی قبولیت پر) شکر ادا کرنے کے لیے کر رہے ہیں۔‏‏‏‏ [سنن نسائي/باب سجود القرآن/حدیث: 958]
958 ۔ اردو حاشیہ:
➊ قرآن مجید میں بعض آیات ایسی آتی ہیں جن میں اللہ تعالیٰ کے نیک بندوں کی فرمانبرداری اور ان کے سجدہ کرنے کا ذکر ہے یا ان میں تکبر کی مذمت کی گئی ہے یا اللہ تعالیٰ کے سامنے عاجزی، بندگی اور سجدے کی تعریف کی گئی ہے یا ان میں سجدے کا حکم ہے۔ ان آیات کو پڑھتے وقت ایک مومن شخص بے ساختہ سجدے میں گر پڑتا ہے۔ انہیں سجدے کی آیات کہا جاتا ہے اور اس سجدے کو سجدۂ تلاوت کہتے ہیں۔ اگر قاری سجدے کی استطاعت رکھتا ہو تو اسے سجدہ کرنا چاہیے، ویسے نہ گزر جائے۔ اگر سجدہ کرنے کی حالت میں نہیں تو سر جھکا لے اور اشارے سے سجدہ کرے، مثلاً: سائیکل یا گاڑی چلانے والا۔ نیچے اتر کر سجدہ کرنا ممکن ہو تو کیا ہی بات ہے۔ اگر کوئی شخص قرأت کر رہا ہو اور اس کے لیے سجدے کی استطاعت ہو، تو وہ بھی سجدہ کرے۔ سجدۂ تلاوت مستحب ہے۔ اور افضل یہ ہے کہ اسے ترک نہ کیا جائے۔ سجدۂ تلاوت کے تفصیلی احکام و مسائل کے لیے دیکھیے: [سنن ابوداود اردو سجود القرآن، كا ابتدائيه، طبع دارالسلام، و ذخيرة العقبي شرح سنن النسائي: 196-190/12]
➋ سورۂ صٓ کا سجدہ امام شافعی رحمہ اللہ تسلیم نہیں کرتے کیونکہ وہاں آیت میں سجدے کا لفظ ہی نہیں، بس یہ الفاظ ہیں: « ﴿خَرَّ رَاكِعًا وَأَنَابَ﴾ » [ص: 24: 38]
جبکہ دیگر اہل علم اس سجدے کے قائل ہیں کیونکہ یہاں معنی تو سجدے ہی کا ہے اگرچہ لفظ «‏‏‏‏رَاكِعًا» ‏‏‏‏ کے ہیں۔ امام مالک بھی امام شافعی کے ہم نوا ہیں۔
➌ حضرت داود علیہ السلام سے کوئی (اجتہادی) غلطی ہو گئی تھی جس کی تفصیل قرآن مجید اور احادیث صحیحہ میں نہیں ہے، لہٰذا ہمیں بھی اس کی کرید نہیں کرنی چاہیے۔ جب انہیں غلطی کا احساس ہوا تو انہوں نے بطور توبہ سجدہ کیا۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی توبہ قبول فرمائی تو اس کے شکرانے کے طور پر ہم سجدہ کرتے ہیں۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 958   
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 271  
´سجود سہو وغیرہ کا بیان`
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ سورۃ «ص» کا سجدہ ان میں سے نہیں ہے جن کا ذکر ضروری ہے، البتہ میں نے یقیناً رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس میں سجدہ کرتے دیکھا ہے۔ (بخاری) «بلوغ المرام/حدیث: 271»
تخریج:
«أخرجه البخاري، سجود القرآن، باب سجدة ص، حديث:1069.»
تشریح:
1. اس سے معلوم ہوا کہ سورۂ صٓ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سجدہ کیا ہے‘ البتہ آپ نے اس کا حکم نہیں فرمایا اور اس کی تاکید نہیں کی۔
2. اس سے معلوم ہوا کہ بعض اعمال اگرچہ مسنون ہیں مگر ان کے بارے میں تاکید نہیں۔
وہ بھی سنت خیرالانام کے زمرے میں آتے ہیں۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 271   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 577  
´سورۃ ص کے سجدے کا بیان۔`
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سورۃ ص میں سجدہ کرتے دیکھا۔ ابن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں: یہ واجب سجدوں میں سے نہیں ہے۔ [سنن ترمذي/أبواب السفر/حدیث: 577]
اردو حاشہ: 1 ؎:
یہ نبی داؤد علیہ السلام تھے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 577   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3422  
3422. حضرت ابن عباس ؓ ہی سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا: سورہ ص کا سجدہ عزائم (ضروری) سجود میں سے نہیں ہے۔ میں نے دیکھا ہے کہ نبی کریم ﷺ اس میں سجدہ کیا کرتے تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3422]
حدیث حاشیہ:
گوحدیث اس باب سےتعلق نہیں رکھتی مگر سورۂ ص میں حضرت داؤد کا بیا ن ہے اور اس میں سجدہ بھی حضرت داؤد کی توبہ قبول ہونے کےشکریہ میں ہے، اس مناسبت سے اس کوبیان کردیا۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3422   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3422  
3422. حضرت ابن عباس ؓ ہی سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا: سورہ ص کا سجدہ عزائم (ضروری) سجود میں سے نہیں ہے۔ میں نے دیکھا ہے کہ نبی کریم ﷺ اس میں سجدہ کیا کرتے تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3422]
حدیث حاشیہ:

چونکہ سورہ ص میں حضرت داؤد ؑ اور ان کا سجدہ کرنے کا بیان ہے، اس مناسبت سے اس حدیث کو یہاں بیان کیا گیا ہے۔

عزائم سجود کا مطلب یہ ہے کہ مؤکدات سجود سے نہیں، یعنی سورہ ص کا سجدہ ضروری نہیں بلکہ سجدہ شکر ہے۔
حضرت ابوسعیدخدری ؓسے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے منبر پر سورہ ص تلاوت فرمائی، جب مقام سجدہ پر پہنچے تو اترے اور سجدہ کیا، پھر کسی اور دن اسے تلاوت فرمایا تو جب آیت سجدہ پر پہنچے تو لوگ سجدے کے لیے تیار ہوئے، آپ نے فرمایا:
یہ تو ایک نبی کی توبہ کے نتیجے میں تھا لیکن میں نے تمھیں دیکھاہے کہ تم سجدے کے لیے تیار ہو، آپ اترے اور سجدہ کیا۔
(سنن أبي داود، السجود، حدیث: 1410)

اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ سورہ ص کا سجدہ مؤکدات سجود سے نہیں۔
واللہ أعلم۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3422