صحيح البخاري
كِتَاب أَحَادِيثِ الْأَنْبِيَاءِ -- کتاب: انبیاء علیہم السلام کے بیان میں
40. بَابُ قَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى: {وَوَهَبْنَا لِدَاوُدَ سُلَيْمَانَ نِعْمَ الْعَبْدُ إِنَّهُ أَوَّابٌ} :
باب: اللہ تعالیٰ کے اس قول کا بیان ”اور ہم نے داؤد کو سلیمان (بیٹا) عطا فرمایا، وہ بہت اچھا بندہ تھا، بیشک وہ بہت رجوع کرنے والا تھا“۔
الرَّاجِعُ الْمُنِيبُ، وَقَوْلُهُ: {هَبْ لِي مُلْكًا لاَ يَنْبَغِي لأَحَدٍ مِنْ بَعْدِي} وَقَوْلُهُ: {وَاتَّبَعُوا مَا تَتْلُوا الشَّيَاطِينُ عَلَى مُلْكِ سُلَيْمَانَ}، {وَلِسُلَيْمَانَ الرِّيحَ غُدُوُّهَا شَهْرٌ وَرَوَاحُهَا شَهْرٌ وَأَسَلْنَا لَهُ عَيْنَ الْقِطْرِ} أَذَبْنَا لَهُ عَيْنَ الْحَدِيدِ {وَمِنَ الْجِنِّ مَنْ يَعْمَلُ بَيْنَ يَدَيْهِ} إِلَى قَوْلِهِ: {مِنْ مَحَارِيبَ}. قَالَ مُجَاهِدٌ: بُنْيَانٌ مَا دُونَ الْقُصُورِ وَتَمَاثِيلَ وَجِفَانٍ كَالْجَوَابِ سورة سبأ آية 13 كَالْحِيَاضِ لِلْإِبِلِ وَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: كَالْجَوْبَةِ مِنَ الْأَرْضِ وَقُدُورٍ رَاسِيَاتٍ اعْمَلُوا آلَ دَاوُدَ شُكْرًا وَقَلِيلٌ مِنْ عِبَادِيَ الشَّكُورُ سورة سبأ آية 13 فَلَمَّا قَضَيْنَا عَلَيْهِ الْمَوْتَ مَا دَلَّهُمْ عَلَى مَوْتِهِ إِلا دَابَّةُ الأَرْضِ سورة سبأ آية 14الْأَرَضَةُ تَأْكُلُ مِنْسَأَتَهُ سورة سبأ آية 14 عَصَاهُ فَلَمَّا خَرَّ سورة سبأ آية 14 إِلَى قَوْلِهِ فِي الْعَذَابِ الْمُهِينِ سورة سبأ آية 14 حُبَّ الْخَيْرِ عَنْ ذِكْرِ رَبِّي سورة ص آية 32 فَطَفِقَ مَسْحًا بِالسُّوقِ وَالأَعْنَاقِ سورة ص آية 33 يَمْسَحُ أَعْرَافَ الْخَيْلِ وَعَرَاقِيبَهَا الْأَصْفَادُ الْوَثَاقُ، قَالَ مُجَاهِدٌ الصَّافِنَاتُ سورة ص آية 31صَفَنَ الْفَرَسُ رَفَعَ إِحْدَى رِجْلَيْهِ حَتَّى تَكُونَ عَلَى طَرَفِ الْحَافِرِ الْجِيَادُ سورة ص آية 31 السِّرَاعُ جَسَدًا سورة ص آية 34 شَيْطَانًا رُخَاءً سورة ص آية 36طَيِّبَةً حَيْثُ أَصَابَ سورة ص آية 36 حَيْثُ شَاءَ فَامْنُنْ سورة ص آية 39 أَعْطِ بِغَيْرِ حِسَابٍ سورة ص آية 39 بِغَيْرِ حَرَجٍ.
‏‏‏‏ بہت ہی رجوع ہونے والا اور توجہ کرنے والا۔ سلیمان کا یہ کہنا کہ مالک مجھ کو ایسی بادشاہت دے کہ میرے سوا کسی کو میسر نہ ہو۔ اور سورۃ التوبہ میں اللہ تعالیٰ کا فرمان اور یہ لوگ پیچھے لگ گئے اس علم کے جو سلیمان کی بادشاہت میں شیطان پڑھا کرتے تھے۔ اور سورۃ سبا میں فرمایا (ہم نے) سلیمان علیہ السلام کے لیے ہوا کو (تابع) کر دیا کہ اس کی صبح کی منزل مہینہ بھر کی ہوتی اور اس کی شام کی منزل مہینہ بھر کی ہوتی اور «قطر‏» یعنی ہم نے ان کے لیے لوہے کا چشمہ بہا دیا ( «وأسلنا له عين القطر‏» بمعنی) «وأذبنا له عين الحديد» ہے اور جنات میں کچھ وہ تھے جو ان کے آگے ان کے پروردگار کے حکم سے خوب کام کرتے تھے۔ آخر آیت «من محاريب‏» تک۔ مجاہد نے کہا کہ «محاريب‏» وہ عمارتیں جو محلوں سے کم ہوں۔ «تماثيل» تصویریں اور لگن اور «جواب‏» یعنی حوض جیسے اونٹوں کے لیے حوض ہوا کرتے ہیں۔ اور (بڑی بڑی) جمی ہوئی دیگیں۔ آیت «الشكور‏» تک۔ پھر جب ہم نے ان پر موت کا حکم جاری کر دیا تو کسی چیز نے ان کی موت کا پتہ نہ دیا بجز ایک زمین کے کیڑے (دیمک) کے کہ وہ ان کے عصا کو کھاتا رہا، سو جب وہ گر پڑے تب جنات نے جانا کہ وہ مر گئے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان «المهين‏» تک۔ سلیمان علیہ السلام کہنے لگے کہ میں اس مال کی محبت میں پروردگار کی یاد سے غافل ہو گیا «فطفق مسحا‏»، الخ یعنی اس نے گھوڑوں کی ایال اور اگاڑی پچھاڑی کی رسیوں پر ہاتھ پھیرنا شروع کر دیا۔ «الأصفاد» بمعنی «الوثاق‏» بیڑیاں زنجیریں۔ مجاہد نے کہا کہ «الصافنات‏»، «صفن الفرس» سے مشتق ہے، اس وقت بولتے ہیں جب گھوڑا ایک پاؤں اٹھا کر کھر کی نوک پر کھڑا ہو جائے، «الجياد‏» یعنی دوڑنے میں تیز۔ «جسدا‏» بمعنی شیطان، (جو سلیمان علیہ السلام کی انگوٹھی پہن کر ان کی کرسی پر بیٹھ گیا تھا) «رخاء‏» نرمی سے، خوشی سے۔ «حيث أصاب‏» یعنی جہاں وہ جانا چاہتے۔ «فامنن‏ أعط‏.‏‏» کے معنی میں ہے، جس کو چاہے دے بغیر حساب بغیر کسی تکلیف کے، بے حرج۔
حدیث نمبر: 3423
حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ زِيَادٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:"إِنَّ عِفْرِيتًا مِنَ الْجِنِّ تَفَلَّتَ الْبَارِحَةَ لِيَقْطَعَ عَلَيَّ صَلَاتِي فَأَمْكَنَنِي اللَّهُ مِنْهُ فَأَخَذْتُهُ فَأَرَدْتُ أَنْ أَرْبُطَهُ عَلَى سَارِيَةٍ مِنْ سَوَارِي الْمَسْجِدِ حَتَّى تَنْظُرُوا إِلَيْهِ كُلُّكُمْ، فَذَكَرْتُ دَعْوَةَ أَخِي سُلَيْمَانَ رَبِّ هَبْ لِي مُلْكًا لَا يَنْبَغِي لِأَحَدٍ مِنْ بَعْدِي فَرَدَدْتُهُ خَاسِئًا عِفْرِيتٌ مُتَمَرِّدٌ مِنْ إِنْسٍ أَوْ جَانٍّ مِثْلُ زِبْنِيَةٍ جَمَاعَتُهَا الزَّبَانِيَةُ".
ہم سے محمد بن بشار نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے محمد بن جعفر نے بیان کیا، ان سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے محمد بن زیاد نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ایک سرکش جن کل رات میرے سامنے آ گیا تاکہ میری نماز خراب کر دے لیکن اللہ تعالیٰ نے مجھے اس پر قدرت دے دی اور میں نے اسے پکڑ لیا۔ پھر میں نے چاہا کہ اسے مسجد کے کسی ستون سے باندھ دوں کہ تم سب لوگ بھی دیکھ سکو۔ لیکن مجھے اپنے بھائی سلیمان علیہ السلام کی دعا یاد آ گئی کہ یا اللہ! مجھے ایسی سلطنت دے جو میرے سوا کسی کو میسر نہ ہو۔ اس لیے میں نے اسے نامراد واپس کر دیا۔ «عفريت» سرکش کے معنی میں ہے، خواہ انسانوں میں سے ہو یا جنوں میں سے۔
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3423  
3423. حضرت ابوہریرہ ؓسے روایت ہے، وہ نبی کریم ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: آج رات ایک سرکش جن پر مجھ پر حملہ آور ہوا تاکہ میری نماز قطع کرے۔ اللہ تعالیٰ نے مجھے اس پر قدرت دے دی تو میں نےاسے پکڑ لیا۔ میں نے اسے مسجد کے ستونوں میں سے کسی ستون کے ساتھ باندھ دینے کا ارادہ کیا تاکہ تم سب کے سب اسے دیکھ لو۔ پھر مجھے اپنے بھائی سلیمان کی دعا یاد آگئی: اے میرے رب! مجھے ایسی حکومت عطا فر جو میرے بعد کسی کو نہ ملے۔ "تو میں نے اسے ذلیل وخوار کرکے چھوڑ دیا۔ عِفْرِيتٌ کے معنی شرکش ہیں، خواہ وہ انسان ہو یا جن۔ یہ زبنية کی طرح ہے جس کی جمع زبانية ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3423]
حدیث حاشیہ:
روایت میں حضرت سلیمان کا ذکر ہے، باب سےیہی مناسبت ہے۔
حضرت سلیمان کی دعا آیت ﴿قَالَ رَبِّ اغْفِرْ لِي وَهَبْ لِي مُلْكًا لَا يَنْبَغِي لِأَحَدٍ مِنْ بَعْدِي﴾ (ص: 35)
میں مذکورہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3423   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3423  
3423. حضرت ابوہریرہ ؓسے روایت ہے، وہ نبی کریم ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: آج رات ایک سرکش جن پر مجھ پر حملہ آور ہوا تاکہ میری نماز قطع کرے۔ اللہ تعالیٰ نے مجھے اس پر قدرت دے دی تو میں نےاسے پکڑ لیا۔ میں نے اسے مسجد کے ستونوں میں سے کسی ستون کے ساتھ باندھ دینے کا ارادہ کیا تاکہ تم سب کے سب اسے دیکھ لو۔ پھر مجھے اپنے بھائی سلیمان کی دعا یاد آگئی: اے میرے رب! مجھے ایسی حکومت عطا فر جو میرے بعد کسی کو نہ ملے۔ "تو میں نے اسے ذلیل وخوار کرکے چھوڑ دیا۔ عِفْرِيتٌ کے معنی شرکش ہیں، خواہ وہ انسان ہو یا جن۔ یہ زبنية کی طرح ہے جس کی جمع زبانية ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3423]
حدیث حاشیہ:

اس حدیث میں حضرت سلیمان ؑ کا ذکر ہے، اس لیے امام بخاری ؒ نے اسے ذکر کردیا ہے۔
حضرت سلیمان ؑ کی دعادرج ذیل آیت میں ہے:
میرے رب! مجھے معاف کردے اور مجھے ایسی حکومت دے جو میرے بعدکسی کے لائق نہ ہو۔
(ص: 35)

اس حدیث میں اشارہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت سلیمان ؑ کی رعایت کرتے ہوئے اس سرکش جن کو چھوڑدیا۔
یہ بھی احتمال ہے کہ جنات کو کام میں لانا حضرت سلیمان ؑ کی خصوصیت ہو۔
قرآن کریم کی صراحت ہے کہ ہم جنوں کو نہیں دیکھ سکتے وہ ہمیں دیکھتے ہیں۔
(الأعراف: 27)
واقعی اللہ تعالیٰ نے حضرت سلیمان ؑ کے لیے تمام جنوں کو تابع کردیا تھا، وہ ان سے مختلف کام لیتے تھے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3423