صحيح البخاري
كِتَاب أَحَادِيثِ الْأَنْبِيَاءِ -- کتاب: انبیاء علیہم السلام کے بیان میں
48. بَابُ: {وَاذْكُرْ فِي الْكِتَابِ مَرْيَمَ إِذِ انْتَبَذَتْ مِنْ أَهْلِهَا} :
باب: اللہ تعالیٰ نے (سورۃ مریم میں) فرمایا ”(اس) کتاب میں مریم کا ذکر کر جب وہ اپنے گھر والوں سے الگ ہو کر ایک پورب رخ مکان میں چلی گئی“۔
حدیث نمبر: 3442
حَدَّثَنَا أَبُو الْيَمَانِ، أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، قَالَ: أَخْبَرَنِي أَبُو سَلَمَةَ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، أَنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ:" أَنَا أَوْلَى النَّاسِ بِابْنِ مَرْيَمَ وَالْأَنْبِيَاءُ أَوْلَادُ عَلَّاتٍ لَيْسَ بَيْنِي وَبَيْنَهُ نَبِيٌّ".
ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا، کہا ہم کو شعیب نے خبر دی، ان سے زہری نے بیان کیا، انہیں ابوسلمہ نے خبر دی اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرما رہے تھے کہ میں ابن مریم علیہما السلام سے دوسروں کے مقابلہ میں زیادہ قریب ہوں، انبیاء علاتی بھائیوں کی طرح ہیں اور میرے اور عیسیٰ علیہ السلام کے درمیان کوئی نبی نہیں ہے۔
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4675  
´انبیاء و رسل علیہم السلام کو ایک دوسرے پر فضیلت دینا کیسا ہے؟`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: میں ابن مریم سے لوگوں میں سب سے زیادہ قریب ہوں، انبیاء علیہم السلام علاتی بھائی ہیں، میرے اور ان کے درمیان کوئی نبی نہیں ۱؎۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/كتاب السنة /حدیث: 4675]
فوائد ومسائل:
انبیا کرام کا علاقی بھائی (باپ کی طرف سے بھائی) ہونے کے معنی یہ ہیں کہ ان کی دعوت کے اصول ایک ہیں، یعنی توحید، نبوت اور بعثت قیامت، البتہ دیگر مسائل شرعیہ میں اختلاف رہا ہے۔
آپ نے خود انبیاء کو أخي (یوسف) کہہ کر یاد فرمایا، انبیا کا تذکرہ بہت محبت سے اور خوبصورت انداز سے فرمایا۔
پھر امت کے لئے کیسے روا ہو سکتا ہے کہ وہ تفصیل دینے کا اندازمیں ان کا تذکرہ کرے یا کسی کو افضل اور کسی کو مفضول قرار دے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 4675   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3442  
3442. حضرت ابوہریرہ ؓسے روایت ہے، انھوں نے کہا: میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا: میں ابن مریم ؑ کے سب لوگوں سے زیادہ قریب ہوں۔ اور تمام انبیاء ؑ باہمی پدری بھائی ہیں۔ میرے اورعیسیٰ ؑ کے درمیان کوئی نبی نہیں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3442]
حدیث حاشیہ:
آپ ﷺ بھی پیغمبر وہ بھی پیغمبر، آپ کےاور ان کےبیچ میں دوسرا کوئی پیغمبر نہیں ہوا۔
خود حضرت عیسیٰ نے انجیل میں آب کی بشارت دی کہ میرے بعد تسلی دینے والا آئے گا اوروہ تم کوبہت سی باتیں بتلائے گاجومیں نے نہیں بتلائی کیونکہ وہ بھی وہیں علم حاصل کرےگا جہاں سے میں حاصل کرتا ہوں۔
ایک انجیل میں صاف آنحضرت ﷺ کانام مذکور ہےلیکن نصاریٰ نے اس کوچھپا ڈالا ہے۔
اس شرارت کاکوئی ٹھکانا ہے۔
کہتے ہیں کہ فارقلیط کےمعنی بھی سراہا ہوا ہیں یعنی محمد ﷺ۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3442   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3442  
3442. حضرت ابوہریرہ ؓسے روایت ہے، انھوں نے کہا: میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا: میں ابن مریم ؑ کے سب لوگوں سے زیادہ قریب ہوں۔ اور تمام انبیاء ؑ باہمی پدری بھائی ہیں۔ میرے اورعیسیٰ ؑ کے درمیان کوئی نبی نہیں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3442]
حدیث حاشیہ:

اقتدا اور پیروی کے لحاظ سے رسول اللہ ﷺ حضرت ابراہیم ؑکے قریب ہیں اور زمانے اوروقت کے اعتبار سے آپ حضرت عیسیٰ ؑ کے قریب ہیں۔

حضرات انبیاء ؑ علاتی،یعنی پدری بھائی اس بنا پر ہیں کہ عقیدہ توحید میں سب متحد ہیں اور توحید بمنزلہ باپ کے ہے کیونکہ تمام شریعتیں اس کی محتاج ہیں،البتہ شریعتیں الگ الگ ہیں۔
شریعت ماں کے قائم مقام ہے۔
علامہ عینی ؒ کا کہنا ہے کہ انبیائے کرام ؑ کے اصولی مسائل ایک ہیں،البتہ فروع میں اختلاف ہے۔
اصول ادیان میں توحید سرفہرست ہے۔
(عمدة القاري: 198/10)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3442