صحيح البخاري
كِتَاب أَحَادِيثِ الْأَنْبِيَاءِ -- کتاب: انبیاء علیہم السلام کے بیان میں
48. بَابُ: {وَاذْكُرْ فِي الْكِتَابِ مَرْيَمَ إِذِ انْتَبَذَتْ مِنْ أَهْلِهَا} :
باب: اللہ تعالیٰ نے (سورۃ مریم میں) فرمایا ”(اس) کتاب میں مریم کا ذکر کر جب وہ اپنے گھر والوں سے الگ ہو کر ایک پورب رخ مکان میں چلی گئی“۔
حدیث نمبر: 3444
وحَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ، عَنْ هَمَّامٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" رَأَى عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ رَجُلًا يَسْرِقُ، فَقَالَ لَهُ: أَسَرَقْتَ، قَالَ: كَلَّا وَاللَّهِ الَّذِي لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ، فَقَالَ عِيسَى: آمَنْتُ بِاللَّهِ وَكَذَّبْتُ عَيْنِي".
ہم سے عبداللہ بن محمد نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالرزاق نے بیان کیا، کہا ہم کو معمر نے خبر دی، انہیں ہمام نے اور انہیں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا عیسیٰ ابن مریم علیہما السلام نے ایک شخص کو چوری کرتے ہوئے دیکھا پھر اس سے دریافت فرمایا: تو نے چوری کی ہے؟ اس نے کہا ہرگز نہیں، اس ذات کی قسم جس کے سوا اور کوئی معبود نہیں۔ عیسیٰ علیہ السلام نے فرمایا کہ میں اللہ پر ایمان لایا اور میری آنکھوں کو دھوکا ہوا۔
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2102  
´اللہ کی قسم کھا کر کوئی بات کہی جائے تو اس کو مان لینے کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: عیسیٰ بن مریم علیہ السلام نے ایک شخص کو چوری کرتے ہوئے دیکھا تو فرمایا: تم نے چوری کی ہے؟ اس نے کہا: نہیں، قسم ہے اس ذات کی جس کے سوا کوئی معبود برحق نہیں، عیسیٰ علیہ السلام نے کہا: میں اللہ پر ایمان لایا، اور میں نے اپنی آنکھ کو جھٹلا دیا ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الكفارات/حدیث: 2102]
اردو حاشہ:
فوائد ومسائل:

(1)
  یہ مومن کی قسم پر اعتبار کرنے کی مثال ہے کہ اس کی قسم پر اپنی آنکھوں دیکھی چیز کو رد کر دیا۔

(2)
  ممکن ہے وہ چیز اسی شخص کی ہو جو اسے لے رہا تھا لیکن کسی خاص وجہ سے اس نے چھپ کر اٹھائی ہو۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2102   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3444  
3444. حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہی سے روایت ہے، وہ نبی کریم ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: حضرت عیسیٰ ؑ نے کسی کو چوری کرتے ہوئے دیکھا تو اس سے کہا: کیا تو نے چوری کی ہے؟ اس نے کہا: ہرگز نہیں، اس اللہ کی قسم جس کے سوا کوئی معبود برحق نہیں! میں نے ایسا نہیں کیا۔ حضرت عیسیٰ ؑ نے فرمایا: میں اللہ پر ایمان لاتا ہوں اور اپنی آنکھ کی تکذیب کرتا ہوں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3444]
حدیث حاشیہ:
یعنی مومن جھوٹی قسم نہیں کھاسکتا جب ا س نے قسم کھالی تومعلوم ہواکہ وہ سچا ہے۔
آنکھوں سےغلطی ممکن ہے مثلا اس کے شبیہ کوئی دوسرا شخص ہو۔
یادرحقیقت اس کا فعل چوری نہ ہو۔
اس مال میں اس کاکوئی حق متعین ہو۔
بہت سے احتمال ہوسکتےہیں۔
بعض نےکہا ایسا کہنےسے حضرت عیسیٰ ؑکى مراد یہ تھی کہ مومن کی قسم پر ایسا بھروسہ ہونا چاہئے جیسے آنکھ سے دیکھنے پربلکہ اس سے زیادہ۔
بعض نے یہ کہا مطلب یہ تھا کہ قاضی کواپنے علم اور مشاہدے پرحکم دینا درست نہیں جب تک باقاعدہ جرم کےلیے ثبوت مہیا نہ ہوجائے۔
(وحیدی)
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3444   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3444  
3444. حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہی سے روایت ہے، وہ نبی کریم ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: حضرت عیسیٰ ؑ نے کسی کو چوری کرتے ہوئے دیکھا تو اس سے کہا: کیا تو نے چوری کی ہے؟ اس نے کہا: ہرگز نہیں، اس اللہ کی قسم جس کے سوا کوئی معبود برحق نہیں! میں نے ایسا نہیں کیا۔ حضرت عیسیٰ ؑ نے فرمایا: میں اللہ پر ایمان لاتا ہوں اور اپنی آنکھ کی تکذیب کرتا ہوں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3444]
حدیث حاشیہ:

چونکہ چور نے اللہ کے نام کی قسم اٹھا کر اپنی براءت کا اظہار کیا تھا، اس لیے حضرت عیسیٰ ؑ نے اللہ کے نام کی لاج رکھتے ہوئے اسے سچا خیال کیا اور اپنی آنکھ کو جھوٹا قراردیا کیونکہ ممکن ہے اس مال مسروقہ میں چوری کرنے والے کا حق ہویا صرف دیکھنے کے لیے مال پکڑا ہوغصب کرنا مقصود نہ ہو۔

حضرت عیسیٰ ؑ نے ظاہری حکم کے اعتبار سے تکذیب کی،باطن حکم میں نہیں کیونکہ کسی چیز کا مشاہدہ یقین و اذعان کی اعلیٰ قسم ہے، اس کی تکذیب کیسے ہوسکتی ہے۔

اس حدیث میں حضرت عیسیٰ ؑ کی سیرت کا ایک پہلو بیان ہوا ہے، اس لیے امام بخاری ؒ نے اسے یہاں بیان کیا ہے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3444