صحيح البخاري
كِتَاب أَحَادِيثِ الْأَنْبِيَاءِ -- کتاب: انبیاء علیہم السلام کے بیان میں
48. بَابُ: {وَاذْكُرْ فِي الْكِتَابِ مَرْيَمَ إِذِ انْتَبَذَتْ مِنْ أَهْلِهَا} :
باب: اللہ تعالیٰ نے (سورۃ مریم میں) فرمایا ”(اس) کتاب میں مریم کا ذکر کر جب وہ اپنے گھر والوں سے الگ ہو کر ایک پورب رخ مکان میں چلی گئی“۔
حدیث نمبر: 3445
حَدَّثَنَا الْحُمَيْدِيُّ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، قَالَ: سَمِعْتُ الزُّهْرِيَّ، يَقُولُ: أَخْبَرَنِي عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ سَمِعَ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، يَقُولُ: عَلَى الْمِنْبَرِ سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ:" لَا تُطْرُونِي كَمَا أَطْرَتِ النَّصَارَى ابْنَ مَرْيَمَ فَإِنَّمَا أَنَا عَبْدُهُ، فَقُولُوا: عَبْدُ اللَّهِ وَرَسُولُهُ".
ہم سے حمیدی نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان نے بیان کیا، کہا کہ میں نے زہری سے سنا، وہ بیان کرتے تھے کہ مجھے عبیداللہ بن عبداللہ نے خبر دی اور انہیں ابن عباس رضی اللہ عنہما نے، انہوں نے عمر رضی اللہ عنہ کو منبر پر یہ کہتے سنا تھا کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مجھے میرے مرتبے سے زیادہ نہ بڑھاؤ جیسے عیسیٰ ابن مریم علیہما السلام کو نصاریٰ نے ان کے رتبے سے زیادہ بڑھا دیا ہے۔ میں تو صرف اللہ کا بندہ ہوں، اس لیے یہی کہا کرو (میرے متعلق) کہ میں اللہ کا بندہ اور اس کا رسول ہوں۔
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3445  
3445. حضرت عمر ؓ سے روایت ہے، انھوں نے برسرمنبر کہا: میں نے نبی کریم ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا: مجھے ایسا نہ بڑھاؤ جس طرح نصاریٰ نے عیسیٰ ؑ ابن مریم کو بڑھایا۔ بس میں تو اللہ کا بندہ ہوں، اس لیے تم یوں کہاکرو: آپ اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3445]
حدیث حاشیہ:
اللہ کےغلام، اللہ کےحبیب،اللہ کےخلیل، اشرف انبیاء آپ کےتعریف کی حد یہی ہے۔
جب قرآن میں آپ کواللہ کا بند ہ فرمایا یہ آیت اتری ﴿لما قامَ عبدُاللہِ﴾ (الجن: 19)
توآپ نہایت ہی خوش ہوئےاللہ کی عبودیت خالصہ بہت بڑا مرتبہ ہے۔
یہ جاہل کیاجانیں۔
انہوں نے آنحضرت ﷺ کی نعت یہی سمجھ رکھی ہےکہ آپ کوخدا بنادیں یا خدا سےبھی ایک درجہ آگے چڑھا دیں۔
﴿کُبُرَت کَلمة تَخرُجُ مِن أَفواھِھِم﴾ (وحیدی)
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3445   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3445  
3445. حضرت عمر ؓ سے روایت ہے، انھوں نے برسرمنبر کہا: میں نے نبی کریم ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا: مجھے ایسا نہ بڑھاؤ جس طرح نصاریٰ نے عیسیٰ ؑ ابن مریم کو بڑھایا۔ بس میں تو اللہ کا بندہ ہوں، اس لیے تم یوں کہاکرو: آپ اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3445]
حدیث حاشیہ:

رسول اللہ ﷺ نے ہماری رہنمائی فرمائی ہے کہ آپ کی مدح سرائی میں مبالغے سے کام نہ لیاجائے جیسا کہ عیسائیوں نے حضرت عیسیٰ ؑ کو منصب الوہیت تک پہنچایا اور انھیں اللہ کا بیٹا قراردیا۔
یہ آپ کی تعریف میں انتہائی مبالغہ تھا جس سے آپ نے منع فرمایا۔

سورہ جن میں اللہ تعالیٰ نے آپ کو اللہ کا بندہ کہا ہے،ارشاد باری تعالیٰ ہے:
جب اللہ کا بندہ،اپنے اللہ کو پکارنے کے لیے کھڑا ہواتو لوگ اس پر ٹوٹ پڑنے کے لیے تیار ہوگئے۔
(الجن: 19)
لیکن افسوس کہ آج نام نہاد مسلمانوں نے رسول اللہ ﷺکے متعلق مدح سرائی میں اس قدر مبالغہ اور غلو کیا ہے کہ انھیں منصب الوہیت پر پہنچا دیا ہے، چنانچہ مسلمانوں کے ایک طبقے نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو نوراً من نوراللہ قرار دیا اور کچھ لوگوں نے آپ کی مدح سرائی میں انتہائی مبالغہ آمیز اور غلو پر مبنی اشعار کہے، مثلاً:
وہی جو مستوی عرش تھا خدا ہوکر اترپڑا مدینے میں مصطفیٰ ہوکر یہود ونصاریٰ نے حضرت عیسیٰ ؑ میں حلول کا عقیدہ رکھا لیکن ہمارے ہاں مسلمانوں نے حضرات انبیاء ؑ کے علاوہ دوسرے بزرگوں میں بھی اللہ کے حلول کا عقیدہ اپنا لیا، چنانچہ اسی طرح ایک دوسرا شعر ملاحظہ کریں:
اپنا اللہ میاں نے ہند میں نام رکھ لیا خواجہ غریب نواز کچھ لوگوں نےحضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے متعلق یہ عقیدہ رکھا ہے کہ وہ اللہ کی ذات کا مظہر ہیں اور اللہ ان کے بدن میں حلول کرگیا ہے۔
حسین بن منصور حلاج پہلا وہ شخص ہے جس نے خود اپنی ذات کے متعلق کھل کر یہ دعویٰ کیا کہ اللہ تعالیٰ اس کی ذات میں حلول کرگیا ہے اور اس نے أنا الحق کا نعرہ بلند کیا۔
سمجھانے کے باجود جب وہ اپنے عقیدے پر ڈٹا رہا تو خلیفہ بغداد المقتدر باللہ نے بغداد میں اسے قتل کرکے اس کی لاش کو جلا کردریا میں پھینک دیا۔
لیکن افسوس کہ حلول کا عقیدہ آج بھی مسلمانوں میں متوارث چلا آرہا ہے۔
﴿سُبْحَانه وَتَعَالَى عَمَّا يَقُولُونَ عُلُوًّا كَبِيرًا﴾
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3445