صحيح البخاري
كِتَاب أَحَادِيثِ الْأَنْبِيَاءِ -- کتاب: انبیاء علیہم السلام کے بیان میں
50. بَابُ مَا ذُكِرَ عَنْ بَنِي إِسْرَائِيلَ:
باب: بنی اسرائیل کے واقعات کا بیان۔
حدیث نمبر: 3458
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ الْأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي الضُّحَى، عَنْ مَسْرُوقٍ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا" كَانَتْ تَكْرَهُ أَنْ يَجْعَلَ يَدَهُ فِي خَاصِرَتِهِ، وَتَقُولُ: إِنَّ الْيَهُودَ تَفْعَلُهُ"، تَابَعَهُ شُعْبَةُ، عَنْ الْأَعْمَشِ.
ہم سے محمد بن یوسف نے بیان کیا، ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا، ان سے اعمش نے بیان کیا، ان سے ابوالضحیٰ نے بیان کیا، ان سے مسروق نے بیان کیا کہ عائشہ رضی اللہ عنہا کوکھ پر ہاتھ رکھنے کو ناپسند کرتی تھیں اور فرماتی تھیں کہ اس طرح یہود کرتے ہیں۔
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 187  
´نماز میں خشوع و خضوع کی ترغیب کا بیان`
«. . . عن أبي هريرة رضي الله عنه قال: نهى رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم أن يصلي الرجل مختصرا. متفق عليه . واللفظ لمسلم،‏‏‏‏ ومعناه أن يجعل يده على خاصرته. وفي البخاري عن عائشة رضي الله عنها: «‏‏‏‏أن ذلك فعل اليهود» .‏‏‏‏ . . .»
. . . ´سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ` رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آدمی کو نماز میں اپنے دونوں کولہوں (پہلووں) پر ہاتھ رکھ کر نماز پڑھنے سے منع فرمایا ہے۔ (بخاری و مسلم) الفاظ حدیث مسلم کے ہیں اور بخاری میں سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ یہ یہودیوں کی نماز کا طریقہ ہے۔ . . . [بلوغ المرام/كتاب الصلاة/باب الحث على الخشوع في الصلاة: 187]

لغوی تشریح:
«بَابُ الْحَثِّ» «حَثَّ يَحُثُّ حَثًّا»، ترغیب دلانا، ہمت دلانا، نشاط اور چستی پیدا کرنا، اُبھارنا۔
«اَلْخُشُوع» ظاہری اور باطنی عاجزی، یعنی تمام اعضائے انسانی آنکھ، دل، ہاتھ اور پاؤں وغیرہ کی ہر قسم کی حرکت صرف اللہ تعالیٰ ہی کے لیے ہو۔
«مُخْتَصِرًا» اختصار سے اسم فاعل ہے۔ اس کی تفسیر خود مصنف نے بیان کی ہے، یعنی کوکھوں (پہلوؤں) پر اپنا ہاتھ رکھنا۔ «خاصرة» انسان کے جسم کے اس حصے کو کہتے ہیں جو سرین کے اوپر اور پسلیوں کے نیچے ہوتا ہے۔

فوائد و مسائل:
➊ نماز چونکہ خالص اللہ کے لیے پوری توجہ اور انہماک کے ساتھ ادا کرنی چاہیے، لہٰذا اس دوران میں ایسی ہیئت، حرکت اور فعل سرزد نہیں ہونا چاہیے جو نماز کے اس وصف کے منافی ہو۔ دست بستہ کھڑا ہونا ہی ادب ہے۔
➋ پہلو پر ہاتھ رکھ کر کھڑے ہونا متکبرانہ فعل ہے جو عجز و انکسار کے خلاف ہے۔ نماز میں تو عجز و انکسار، فروتنی اور مسکین کی سی صورت وہیئت ہونی چاہیے جو اللہ کو پسند ہے۔
➌ تکبر و نخوت کی حالت ناپسندیدہ ہے، اس لیے نماز میں اختصار (کوکھوں پر ہاتھ رکھنے) کو ناپسندیدہ قرار دیا گیا ہے، نیز یہ ہیئت یہود کی ہے، اس لیے ان کے ساتھ مشابہت سے اجتناب بھی ضروری ہے۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 187   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3458  
3458. حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے کہ وہ کوکھ پر ہاتھ رکھنے کو مکرو خیال کرتی تھیں اور فرمایاکرتی تھیں کہ ایسا کرنا یہودیوں کا فعل ہے۔ شعبہ نے اعمش سے روایت کرنے میں سفیان کی متابعت کی ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3458]
حدیث حاشیہ:
کوکھ پرہاتھ رکھنے کی عادت یہود کی تھی اوراس سےتکبیر کا بھی اظہار ہوتا ہے۔
اسی لیے اسے ناپسند قرار دیا گیا۔
صمنا یہود کاذکر ہے یہی باب سے وجہ مناسبت ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3458   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3458  
3458. حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے کہ وہ کوکھ پر ہاتھ رکھنے کو مکرو خیال کرتی تھیں اور فرمایاکرتی تھیں کہ ایسا کرنا یہودیوں کا فعل ہے۔ شعبہ نے اعمش سے روایت کرنے میں سفیان کی متابعت کی ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3458]
حدیث حاشیہ:

حدیث میں اگرچہ مطلق طور پر کوکھ پر ہاتھ رکھنے کومکروہ کہاگیاہے، تاہم یہ نماز کی حالت سے مقید ہے کیونکہ ایک روایت میں صراحت ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا دوران نماز میں کوکھ پر ہاتھ رکھنے کو ناپسند کرتی تھیں اورفرمایا:
اس طرح یہودی کرتے ہیں۔
(فتح الباري: 608/6)

کہاجاتا ہے کہ اس طرح اہل جہنم آرام کے وقت کریں گے، نیز اس طرح وہ شخص کرتا ہے جسے مصیبت نے نڈھال کردیا ہو۔
یہ بھی کہا جاتا ہے کہ جب شیطان کو زمین پر اتارا گیا تو اس کی یہی حالت تھی۔
چونکہ اس میں تکبر بھی ہے، اس لیے اسے ناپسند قراردیا گیا ہے۔
واللہ أعلم۔
(عمدة القاري: 209/11)

چونکہ ضمناً اس حدیث میں یہودیوں کا ذکر آیا ہے، اس لیے امام بخاری ؒ نے اس روایت کو ذکر فرمایا ہے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3458