صحيح البخاري
كِتَاب أَحَادِيثِ الْأَنْبِيَاءِ -- کتاب: انبیاء علیہم السلام کے بیان میں
51. بَابُ حَدِيثُ أَبْرَصَ وَأَعْمَى وَأَقْرَعَ فِي بَنِي إِسْرَائِيلَ:
باب: بنی اسرائیل کے ایک کوڑھی اور ایک نابینا اور ایک گنجے کا بیان۔
حدیث نمبر: 3464
حَدَّثَنِي أَحْمَدُ بْنُ إِسْحَاقَ، حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ عَاصِمٍ، حَدَّثَنَا هَمَّامٌ، حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: حَدَّثَنِي عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ أَبِي عَمْرَةَ، أَنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ حَدَّثَهُ، أَنَّهُ سَمِعَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ. ح وحَدَّثَنِي مُحَمَّدٌ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ رَجَاءٍ، أَخْبَرَنَا هَمَّامٌ، عَنْ إِسْحَاقَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ:أَخْبَرَنِي عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ أَبِي عَمْرَةَ، أَنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ حَدَّثَهُ، أَنَّهُ سَمِعَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ:" إِنَّ ثَلَاثَةً فِي بَنِي إِسْرَائِيلَ أَبْرَصَ وَأَقْرَعَ وَأَعْمَى بَدَا لِلَّهِ عَزَّ وَجَلَّ أَنْ يَبْتَلِيَهُمْ فَبَعَثَ إِلَيْهِمْ مَلَكًا فَأَتَى الْأَبْرَصَ، فَقَالَ: أَيُّ شَيْءٍ أَحَبُّ إِلَيْكَ، قَالَ: لَوْنٌ حَسَنٌ وَجِلْدٌ حَسَنٌ قَدْ قَذِرَنِي النَّاسُ، قَالَ: فَمَسَحَهُ فَذَهَبَ عَنْهُ فَأُعْطِيَ لَوْنًا حَسَنًا وَجِلْدًا حَسَنًا، فَقَالَ: أَيُّ الْمَالِ أَحَبُّ إِلَيْكَ، قَالَ: الْإِبِلُ أَوْ، قَالَ: الْبَقَرُ هُوَ شَكَّ فِي ذَلِكَ إِنَّ الْأَبْرَصَ وَالْأَقْرَعَ، قَالَ: أَحَدُهُمَا الْإِبِلُ، وَقَالَ: الْآخَرُ الْبَقَرُ فَأُعْطِيَ نَاقَةً عُشَرَاءَ، فَقَالَ: يُبَارَكُ لَكَ فِيهَا وَأَتَى الْأَقْرَعَ، فَقَالَ: أَيُّ شَيْءٍ أَحَبُّ إِلَيْكَ، قَالَ: شَعَرٌ حَسَنٌ وَيَذْهَبُ عَنِّي هَذَا قَدْ قَذِرَنِي النَّاسُ، قَالَ: فَمَسَحَهُ فَذَهَبَ وَأُعْطِيَ شَعَرًا حَسَنًا، قَالَ: فَأَيُّ الْمَالِ أَحَبُّ إِلَيْكَ، قَالَ: الْبَقَرُ، قَالَ: فَأَعْطَاهُ بَقَرَةً حَامِلًا، وَقَالَ: يُبَارَكُ لَكَ فِيهَا وَأَتَى الْأَعْمَى، فَقَالَ: أَيُّ شَيْءٍ أَحَبُّ إِلَيْكَ، قَالَ: يَرُدُّ اللَّهُ إِلَيَّ بَصَرِي فَأُبْصِرُ بِهِ النَّاسَ، قَالَ: فَمَسَحَهُ فَرَدَّ اللَّهُ إِلَيْهِ بَصَرَهُ، قَالَ: فَأَيُّ الْمَالِ أَحَبُّ إِلَيْكَ، قَالَ: الْغَنَمُ فَأَعْطَاهُ شَاةً وَالِدًا فَأُنْتِجَ هَذَانِ وَوَلَّدَ هَذَا فَكَانَ لِهَذَا وَادٍ مِنْ إِبِلٍ وَلِهَذَا وَادٍ مِنْ بَقَرٍ وَلِهَذَا وَادٍ مِنْ غَنَمٍ ثُمَّ إِنَّهُ أَتَى الْأَبْرَصَ فِي صُورَتِهِ وَهَيْئَتِهِ، فَقَالَ: رَجُلٌ مِسْكِينٌ تَقَطَّعَتْ بِيَ الْحِبَالُ فِي سَفَرِي فَلَا بَلَاغَ الْيَوْمَ إِلَّا بِاللَّهِ، ثُمَّ بِكَ أَسْأَلُكَ بِالَّذِي أَعْطَاكَ اللَّوْنَ الْحَسَنَ وَالْجِلْدَ الْحَسَنَ وَالْمَالَ بَعِيرًا أَتَبَلَّغُ عَلَيْهِ فِي سَفَرِي، فَقَالَ لَهُ: إِنَّ الْحُقُوقَ كَثِيرَةٌ، فَقَالَ لَهُ: كَأَنِّي أَعْرِفُكَ أَلَمْ تَكُنْ أَبْرَصَ يَقْذَرُكَ النَّاسُ فَقِيرًا فَأَعْطَاكَ اللَّهُ، فَقَالَ: لَقَدْ وَرِثْتُ لِكَابِرٍ عَنْ كَابِرٍ، فَقَالَ: إِنْ كُنْتَ كَاذِبًا فَصَيَّرَكَ اللَّهُ إِلَى مَا كُنْتَ وَأَتَى الْأَقْرَعَ فِي صُورَتِهِ وَهَيْئَتِهِ، فَقَالَ لَهُ: مِثْلَ مَا، قَالَ: لِهَذَا فَرَدَّ عَلَيْهِ مِثْلَ مَا رَدَّ عَلَيْهِ هَذَا، فَقَالَ: إِنْ كُنْتَ كَاذِبًا فَصَيَّرَكَ اللَّهُ إِلَى مَا كُنْتَ وَأَتَى الْأَعْمَى فِي صُورَتِهِ، فَقَالَ: رَجُلٌ مِسْكِينٌ وَابْنُ سَبِيلٍ وَتَقَطَّعَتْ بِيَ الْحِبَالُ فِي سَفَرِي فَلَا بَلَاغَ الْيَوْمَ إِلَّا بِاللَّهِ ثُمَّ بِكَ أَسْأَلُكَ بِالَّذِي رَدَّ عَلَيْكَ بَصَرَكَ شَاةً أَتَبَلَّغُ بِهَا فِي سَفَرِي، فَقَالَ: قَدْ كُنْتُ أَعْمَى فَرَدَّ اللَّهُ بَصَرِي وَفَقِيرًا فَقَدْ أَغْنَانِي فَخُذْ مَا شِئْتَ فَوَاللَّهِ لَا أَجْهَدُكَ الْيَوْمَ بِشَيْءٍ أَخَذْتَهُ لِلَّهِ، فَقَالَ: أَمْسِكْ مَالَكَ فَإِنَّمَا ابْتُلِيتُمْ فَقَدْ رَضِيَ اللَّهُ عَنْكَ وَسَخِطَ عَلَى صَاحِبَيْكَ".
مجھ سے احمد بن اسحاق نے بیان کیا، کہا ہم سے عمرو بن عاصم نے بیان کیا، ان سے ہمام نے بیان کیا، ان سے اسحاق بن عبداللہ نے بیان کیا، کہا مجھ سے عبدالرحمٰن بن ابی حمزہ نے بیان کیا اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا (دوسری سند) اور مجھ سے محمد نے بیان کیا، کہا ہم سے عبداللہ بن رجاء نے بیان کیا، انہیں ہمام نے خبر دی، ان سے اسحاق بن عبداللہ نے بیان کیا، انہیں عبدالرحمٰن بن ابی عمرہ نے خبر دی اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بنی اسرائیل میں تین شخص تھے، ایک کوڑھی، دوسرا اندھا اور تیسرا گنجا، اللہ تعالیٰ نے چاہا کہ ان کا امتحان لے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ان کے پاس ایک فرشتہ بھیجا۔ فرشتہ پہلے کوڑھی کے پاس آیا اور اس سے پوچھا کہ تمہیں سب سے زیادہ کیا چیز پسند ہے؟ اس نے جواب دیا کہ اچھا رنگ اور اچھی چمڑی کیونکہ مجھ سے لوگ پرہیز کرتے ہیں۔ بیان کیا کہ فرشتے نے اس پر اپنا ہاتھ پھیرا تو اس کی بیماری دور ہو گئی اور اس کا رنگ بھی خوبصورت ہو گیا اور چمڑی بھی اچھی ہو گئی۔ فرشتے نے پوچھا کس طرح کا مال تم زیادہ پسند کرو گے؟ اس نے کہا کہ اونٹ! یا اس نے گائے کہی، اسحاق بن عبداللہ کو اس سلسلے میں شک تھا کہ کوڑھی اور گنجے دونوں میں سے ایک نے اونٹ کی خواہش کی تھی اور دوسرے نے گائے کی۔ چنانچہ اسے حاملہ اونٹنی دی گئی اور کہا گیا کہ اللہ تعالیٰ تمہیں اس میں برکت دے گا، پھر فرشتہ گنجے کے پاس آیا اور اس سے پوچھا کہ تمہیں کیا چیز پسند ہے؟ اس نے کہا کہ عمدہ بال اور موجودہ عیب میرا ختم ہو جائے کیونکہ لوگ اس کی وجہ سے مجھ سے پرہیز کرتے ہیں۔ بیان کیا کہ فرشتے نے اس کے سر پر ہاتھ پھیرا اور اس کا عیب جاتا رہا اور اس کے بجائے عمدہ بال آ گئے۔ فرشتے نے پوچھا، کس طرح کا مال پسند کرو گے؟ اس نے کہا کہ گائے! بیان کیا کہ فرشتے نے اسے حاملہ گائے دے دی اور کہا کہ اللہ تعالیٰ اس میں برکت دے گا۔ پھر اندھے کے پاس فرشتہ آیا اور کہا کہ تمہیں کیا چیز پسند ہے؟ اس نے کہا کہ اللہ تعالیٰ مجھے آنکھوں کی روشنی دیدے تاکہ میں لوگوں کو دیکھ سکوں۔ بیان کیا کہ فرشتے نے ہاتھ پھیرا اور اللہ تعالیٰ نے اس کی بینائی اسے واپس دے دی۔ پھر پوچھا کہ کس طرح کا مال تم پسند کرو گے؟ اس نے کہا کہ بکریاں! فرشتے نے اسے حاملہ بکری دے دی۔ پھر تینوں جانوروں کے بچے پیدا ہوئے، یہاں تک کہ کوڑھی کے اونٹوں سے اس کی وادی بھر گئی، گنجے کی گائے بیل سے اس کی وادی بھر گئی اور اندھے کی بکریوں سے اس کی وادی بھر گئی۔ پھر دوبارہ فرشتہ اپنی اسی پہلی شکل میں کوڑھی کے پاس آیا اور کہا کہ میں ایک نہایت مسکین و فقیر آدمی ہوں، سفر کا تمام سامان و اسباب ختم ہو چکا ہے اور اللہ تعالیٰ کے سوا اور کسی سے حاجت پوری ہونے کی امید نہیں، لیکن میں تم سے اسی ذات کا واسطہ دے کر جس نے تمہیں اچھا رنگ اور اچھا چمڑا اور مال عطا کیا، ایک اونٹ کا سوال کرتا ہوں جس سے سفر کو پورا کر سکوں۔ اس نے فرشتے سے کہا کہ میرے ذمہ حقوق اور بہت سے ہیں۔ فرشتہ نے کہا، غالباً میں تمہیں پہچانتا ہوں، کیا تمہیں کوڑھ کی بیماری نہیں تھی جس کی وجہ سے لوگ تم سے گھن کھاتے تھے۔ تم ایک فقیر اور قلاش تھے۔ پھر تمہیں اللہ تعالیٰ نے یہ چیزیں عطا کیں؟ اس نے کہا کہ یہ ساری دولت تو میرے باپ دادا سے چلی آ رہی ہے۔ فرشتے نے کہا کہ اگر تم جھوٹے ہو تو اللہ تمہیں اپنی پہلی حالت پر لوٹا دے۔ پھر فرشتہ گنجے کے پاس اپنی اسی پہلی صورت میں آیا اور اس سے بھی وہی درخواست کی اور اس نے بھی وہی کوڑھی والا جواب دیا۔ فرشتے نے کہا کہ اگر تم جھوٹے ہو تو اللہ تعالیٰ تمہیں اپنی پہلی حالت پر لوٹا دے۔ اس کے بعد فرشتہ اندھے کے پاس آیا، اپنی اسی پہلی صورت میں اور کہا کہ میں ایک مسکین آدمی ہوں، سفر کے تمام سامان ختم ہو چکے ہیں اور سوا اللہ تعالیٰ کے کسی سے حاجت پوری ہونے کی توقع نہیں۔ میں تم سے اس ذات کا واسطہ دے کر جس نے تمہیں تمہاری بینائی واپس دی ہے، ایک بکری مانگتا ہوں جس سے اپنے سفر کی ضروریات پوری کر سکوں۔ اندھے نے جواب دیا کہ واقعی میں اندھا تھا اور اللہ تعالیٰ نے مجھے اپنے فضل سے بینائی عطا فرمائی اور واقعی میں فقیر و محتاج تھا اور اللہ تعالیٰ نے مجھے مالدار بنایا۔ تم جتنی بکریاں چاہو لے سکتے ہو، اللہ کی قسم جب تم نے اللہ کا واسطہ دیا ہے تو جتنا بھی تمہارا جی چاہے لے جاؤ، میں تمہیں ہرگز نہیں روک سکتا۔ فرشتے نے کہا کہ تم اپنا مال اپنے پاس رکھو، یہ تو صرف امتحان تھا اور اللہ تعالیٰ تم سے راضی اور خوش ہے اور تمہارے دونوں ساتھیوں سے ناراض ہے۔
  صحيح مسلم مختصر مع شرح نووي: تحت الحديث صحيح مسلم 7431  
´شکر گزار اور ناحق شناس بندہ کا بیان`
«. . . أَنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ حَدَّثَهُ أَنَّهُ سَمِعَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: إِنَّ ثَلَاثَةً فِي بَنِي إِسْرَائِيلَ أَبْرَصَ، وَأَقْرَعَ، وَأَعْمَى . . .»
. . . سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بنی اسرائیل کے لوگوں میں تین آدمی تھے ایک کوڑھی سفید داغ والا، دوسرا گنجا، تیسرا اندھا . . . [صحيح مسلم/كِتَاب الزُّهْدِ وَالرَّقَائِقِ: 7431]

تشریح:
اس حدیث میں شکرگزار اور ناحق شناس بندہ کا بیان ہے۔ بلکہ اگر غور کیجئے تو یہ حدیث سارے عالم کے حال میں ہے یعنی ہم سب لوگ اول حقیقت میں کچھ نہ تھے جان، مال، صحت، علم، حکومت محض اس کے کرم سے سب کو ملی سو جو ہوشیار ہے وہ اپنی حقیقت اور اللہ تعالیٰ کا کرم جان کر شکرگزار ہے اور جو احمق ہے وہ اپنی حقیقت اور اللہ تعالیٰ کے کرم کو بھول کر اپنے سلیقے اور تدبیر اور خاندانی ریاست پر مغرور ہے وہ اللہ سے دور ہے۔ [تحفته الاخيار]
   مختصر شرح نووی، حدیث/صفحہ نمبر: 7431   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3464  
3464. حضرت ابو ہریرہ ؓسے روایت ہے، انھوں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا: بنی اسرائیل میں تین شخص تھے۔ ایک کوڑھی، دوسرا اندھا اور تیسرا گنجا۔ اللہ تعالیٰ نے ان تینوں کو آزمانا چاہا، چنانچہ ان کی طرف ایک فرشتہ بھیجا جو پہلے کوڑھی کے پاس آیا اور کہنے لگا کہ تجھے کیا چیز پیاری ہے؟ اس نےکہا: اچھا رنگ اور خوبصورت جلد کیونکہ لوگ مجھ سے نفرت اور کراہت کرتے ہیں۔ آپ نے فرمایا: فرشتے نے اس پر ہاتھ پھیرا تو اس کا مرض جاتا رہا اور اسے اچھے رنگ کے ساتھ خوبصورت جلد عنایت ہو گئی۔ پھر فرشتے نے کہا: تجھے کون سامال پسند ہے؟ اس نے اونٹ یا گائے کہا۔ راوی کو شک ہے کہ کوڑھی اور گنجے میں سے ایک نے اونٹ اور دوسرے نے گائے کا کہا تھا، تاہم اسےدس ماہ کی حاملہ اونٹنی دے دی گئی۔ پھر وہ فرشتہ گنجے کے پاس گیا اور اس سے کہا: تو کیا چاہتا ہے؟ اس نے کہا: مجھ سے یہ گنجا پن جاتا رہے اور میرے خوبصورت بال ہوں کیونکہ لوگ مجھ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:3464]
حدیث حاشیہ:
آیت قرآنی ﴿وَإِذْ تَأَذَّنَ رَبُّكُمْ لَئِنْ شَكَرْتُمْ لَأَزِيدَنَّكُمْ وَلَئِنْ كَفَرْتُمْ إِنَّ عَذَابِي لَشَدِيدٌ﴾ (ابراهيم: 7)
اگر میرا شکر کروگے تونعمت زیادہ دوں گا اور اگر ناشکری کرو گے تومیرا عذاب بھی سخت ہے، اس آیت کی تفسیر اس حدیث سے بخوبی واضح ہے۔
روایت کےآخر میں نابینا کےالفاظ لاأجھدك منقول ہیں توکتنی بھی بکریاں لےلے میں تجھ سےواپس نہیں مانگوں کابعض نسخوں میں لا أحمدك ہےپھر ترجمہ یوں ہوگا میں تیری تعریف اس وقت تک نہیں کروں گا جب تک تجھے دركار ہے وہ اللہ کےنام پرنہ لےلے گا۔
انسان کی فطرت ہےوہ بہت جلد اپنی تعریف اس وقت تک نہیں گا جب تک جو تجھے دركار ہے وہ اللہ کےنام پرنہ لےلےگا۔
انسان کا فطرت ہےوہ بہت جلد اپنی پہلی حالت کوبھول جاتا ہے، خاص طور پرمال ودولت والے جوبیشتر غریب ہوتے ہیں پھر وہ دولت مند بن جاتے ہیں اور پھول جاتےہیں کہ وہ پہلے کیا تھے۔
ایسے لوگوں کوخدا سے ڈرنا چاہیے جو اللہ دولت دینے پرقادر ہے، وہ واپس لینے پربھی اسی طرح قادر ہے اور یہ روزانہ ہوتا رہتا دیکھنے کونظر بصیرت درکارہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3464   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3464  
3464. حضرت ابو ہریرہ ؓسے روایت ہے، انھوں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا: بنی اسرائیل میں تین شخص تھے۔ ایک کوڑھی، دوسرا اندھا اور تیسرا گنجا۔ اللہ تعالیٰ نے ان تینوں کو آزمانا چاہا، چنانچہ ان کی طرف ایک فرشتہ بھیجا جو پہلے کوڑھی کے پاس آیا اور کہنے لگا کہ تجھے کیا چیز پیاری ہے؟ اس نےکہا: اچھا رنگ اور خوبصورت جلد کیونکہ لوگ مجھ سے نفرت اور کراہت کرتے ہیں۔ آپ نے فرمایا: فرشتے نے اس پر ہاتھ پھیرا تو اس کا مرض جاتا رہا اور اسے اچھے رنگ کے ساتھ خوبصورت جلد عنایت ہو گئی۔ پھر فرشتے نے کہا: تجھے کون سامال پسند ہے؟ اس نے اونٹ یا گائے کہا۔ راوی کو شک ہے کہ کوڑھی اور گنجے میں سے ایک نے اونٹ اور دوسرے نے گائے کا کہا تھا، تاہم اسےدس ماہ کی حاملہ اونٹنی دے دی گئی۔ پھر وہ فرشتہ گنجے کے پاس گیا اور اس سے کہا: تو کیا چاہتا ہے؟ اس نے کہا: مجھ سے یہ گنجا پن جاتا رہے اور میرے خوبصورت بال ہوں کیونکہ لوگ مجھ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:3464]
حدیث حاشیہ:

اس حدیث سے معلوم ہوا کہ انسان کو کفران نعمت سے پرہیز کرنا چاہیے کیونکہ اس کا انجام نعمت کا چھن جانا ہے جیسا کہ کوڑھی اور گنجے کا حشر ہوا۔
ہمیں اللہ کی نعمتوں کا اعتراف کرتے رہنا پھر ان کا شکر بجا لاتے رہنا چاہئے کیونکہ اس طرح خیرو برکت میں اضافہ ہوتا ہے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے۔
اور جب تمھارے رب نے اعلان کیا تھا کہ اگر تم شکر کرو گے تو یقیناً میں تمھیں ضرور اور زیادہ دوں گا۔
اور اگر تم ناشکری کرو گے تو یقیناً میرا عذاب بھی شدید ہے۔
(ابراہیم: 14/7)

اس حدیث سے یہ بھی اشارہ ملتا ہے گنجے پن کا علاج اگر حقیقی بالوں کے اگانے سے کیا جائے تو شرعاً اس میں کوئی قباحت نہیں کیونکہ یہ ایک علاج کی صورت ہے لیکن اگر منصوعی بالوں کی پیوندکاری سے کیا جائے یا اس کی جدید صورت وگ وغیرہ استعمال کی جائے تو اس کی شرعاً ممانعت ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ کام کرنے والے پر لعنت کی ارشاد نبوی ہے۔
اللہ تعالیٰ نے بالوں کی پیوندکاری کرنے والے اور کروانے والی پر لعنت کی ہے۔
(صحیح البخاري، اللباس، حدیث: 5933)
بہرحال جدید طب نے دور حاضر میں ان بالوں کی پیوندکاری کے ذریعے سے گنجے پن کا علاج دریافت کیا ہے اگرچہ یہ علاج بہت مہنگا ہے تاہم اس میں شرعاً کوئی خرابی معلوم نہیں ہوتی۔
واللہ أعلم۔

انسان کی فطرت ہے کہ وہ بہت جلد اپنی پہلی حالت کو بھول جاتا ہے خاص طور پر وہ لوگ جو پہلے غریب ہوتے ہیں پھر کسی اتفاقی حادثے کی صورت میں مال دار بن جاتے ہیں وہ اس بات کو بھول جاتے ہیں کہ ہماری اصلیت کیا تھی؟ ایسے لوگوں کو اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہنا چاہیے۔
جو اللہ تعالیٰ دولت دینے پر قادر ہے وہ اسے واپس لینے پر بھی قدرت رکھتا ہے مذکورہ واقعے میں یہی درس عبرت دیا گیا ہے۔
واللہ المستعان۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3464