صحيح البخاري
كِتَاب أَحَادِيثِ الْأَنْبِيَاءِ -- کتاب: انبیاء علیہم السلام کے بیان میں
54. بَابٌ:
باب:۔۔۔
حدیث نمبر: 3466
حَدَّثَنَا أَبُو الْيَمَانِ، أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ، حَدَّثَنَا أَبُو الزِّنَادِ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ حَدَّثَهُ، أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، أَنَّهُ سَمِعَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ:" بَيْنَمَا امْرَأَةٌ تُرْضِعُ ابْنَهَا إِذْ مَرَّ بِهَا رَاكِبٌ وَهِيَ تُرْضِعُهُ، فَقَالَتْ: اللَّهُمَّ لَا تُمِتِ ابْنِي حَتَّى يَكُونَ مِثْلَ هَذَا، فَقَالَ: اللَّهُمَّ لَا تَجْعَلْنِي مِثْلَهُ ثُمَّ رَجَعَ فِي الثَّدْيِ وَمُرَّ بِامْرَأَةٍ تُجَرَّرُ وَيُلْعَبُ بِهَا، فَقَالَتْ: اللَّهُمَّ لَا تَجْعَلِ ابْنِي مِثْلَهَا، فَقَالَ: اللَّهُمَّ اجْعَلْنِي مِثْلَهَا، فَقَالَ: أَمَّا الرَّاكِبُ فَإِنَّهُ كَافِرٌ وَأَمَّا الْمَرْأَةُ فَإِنَّهُمْ يَقُولُونَ: لَهَا تَزْنِي، وَتَقُولُ: حَسْبِيَ اللَّهُ، وَيَقُولُونَ: تَسْرِقُ، وَتَقُولُ: حَسْبِيَ اللَّهُ".
ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا، کہا ہم کو شعیب نے خبر دی، کہا ہم سے ابوالزناد نے بیان کیا، ان سے عبدالرحمٰن نے بیان کیا، انہوں نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے سنا اور انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ایک عورت اپنے بچے کو دودھ پلا رہی تھی کہ ایک سوار ادھر سے گزرا، وہ اس وقت بھی بچے کو دودھ پلا رہی تھی (سوار کی شان دیکھ کر) عورت نے دعا کی: اے اللہ! میرے بچے کو اس وقت تک موت نہ دینا جب تک کہ اس سوار جیسا نہ ہو جائے۔ اسی وقت (بقدرت الہٰی) بچہ بول پڑا۔ اے اللہ! مجھے اس جیسا نہ کرنا۔ اور پھر وہ دودھ پینے لگا۔ اس کے بعد ایک عورت کو ادھر سے لے جایا گیا، اسے لے جانے والے اسے گھسیٹ رہے تھے اور اس کا مذاق اڑا رہے تھے۔ ماں نے دعا کی: اے اللہ! میرے بچے کو اس عورت جیسا نہ کرنا، لیکن بچے نے کہا کہ اے اللہ! مجھے اسی جیسا بنا دینا (پھر تو ماں نے پوچھا، ارے یہ کیا معاملہ ہے؟ اس بچے نے بتایا کہ سوار تو کافر و ظالم تھا اور عورت کے متعلق لوگ کہتے تھے کہ تو زنا کراتی ہے تو وہ جواب دیتی «حسبي الله» (اللہ میرے لیے کافی ہے، وہ میری پاک دامنی جانتا ہے) لوگ کہتے کہ تو چوری کرتی ہے تو وہ جواب دیتی «حسبي الله» (اللہ میرے لیے کافی ہے اور وہ میری پاک دامنی جانتا ہے)۔
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3466  
3466. حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے۔ انھوں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا: ایک عورت اپنے بچے کو دودھ پلا رہی تھی کہ اس کے پاس سے ایک سوار گزرا جبکہ وہ اس وقت اسے دودھ پلانے میں مصروف تھی۔ اس نے (سوار کو دیکھ کر) دعا کی: یا اللہ! میرے بچے کو اس وقت تک موت نہ آئے جب تک وہ اس سوار جیسا نہ ہوجائے۔ اسی وقت بچہ بول پڑا۔ اے اللہ! مجھے اس جیسا نہ کرنا۔ پھر وہ دودھ پینے لگا۔ اس دوران میں ایک عورت کو گھسیٹا جا رہا تھا اور اس سے ہنسی مذاق کیا جا رہا تھا۔ اس عورت نے دعا کی: اے اللہ! میرے بیٹے کو اس جیسا نہ کرنا، لیکن بچے نے کہا: اے اللہ! مجھے اس جیسا کردے، پھر بچے نے(وضاحت کرتے ہوئے) کہا کہ سوار تو کافر و ظالم تھا اور عورت کے متعلق لوگ کہتے تھے۔ تونے زنا کیا ہے۔ وہ جواب دیتی، میرے لیے اللہ کافی ہے۔ لوگ کہتے: تو نے چوری کی ہے تو وہ جواب دیتی، میرے لیے اللہ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:3466]
حدیث حاشیہ:
شیر خوار بچے کایہ کلام قدرت کےتحت ہوا۔
بچے نےاس ظالم وکافر سوار سے اظہار بیزاری اورعورت مومنہ ومظلومہ سے اظہار ہمدردی کیا۔
اس میں ہمارے لیے بہت سےدرس پوشیدہ ہیں۔
اس میں دینداری ومتقی لوگوں کےلیے ہدایت ہےکہ وہ کبھی بھی دنیا داروں کےعیش وآرام اور ان کی ترقیات دنیوی سےاثر نہ لیں بلکہ سمجھیں کہ ان بددینوں کےلیے یہ خدا کی طرف سےمہلت ہے۔
ایک دن موت آئے گی اور یہ سارا کھیل ختم ہوجائے گا۔
اسلام بڑی بھاری دولت ہے جوکبھی بھی زائل نہ ہوگی۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3466   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3466  
3466. حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے۔ انھوں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا: ایک عورت اپنے بچے کو دودھ پلا رہی تھی کہ اس کے پاس سے ایک سوار گزرا جبکہ وہ اس وقت اسے دودھ پلانے میں مصروف تھی۔ اس نے (سوار کو دیکھ کر) دعا کی: یا اللہ! میرے بچے کو اس وقت تک موت نہ آئے جب تک وہ اس سوار جیسا نہ ہوجائے۔ اسی وقت بچہ بول پڑا۔ اے اللہ! مجھے اس جیسا نہ کرنا۔ پھر وہ دودھ پینے لگا۔ اس دوران میں ایک عورت کو گھسیٹا جا رہا تھا اور اس سے ہنسی مذاق کیا جا رہا تھا۔ اس عورت نے دعا کی: اے اللہ! میرے بیٹے کو اس جیسا نہ کرنا، لیکن بچے نے کہا: اے اللہ! مجھے اس جیسا کردے، پھر بچے نے(وضاحت کرتے ہوئے) کہا کہ سوار تو کافر و ظالم تھا اور عورت کے متعلق لوگ کہتے تھے۔ تونے زنا کیا ہے۔ وہ جواب دیتی، میرے لیے اللہ کافی ہے۔ لوگ کہتے: تو نے چوری کی ہے تو وہ جواب دیتی، میرے لیے اللہ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:3466]
حدیث حاشیہ:
شیر خوارگی میں کئی ایک بچوں نے کلام کیا ہے۔
اس کی تفصیل ہم پہلے بیان کرآئے ہیں۔
اس واقعے میں ہمارے لیے بہت سے دروس پوشیدہ ہیں۔
خاص طور پردیندار اور پرہیز گار لوگوں کو چاہیے کہ وہ دنیا داروں کو دیکھ کر حسرت بھری ٹھنڈی سانس نہ لیں۔
بلکہ انھیں دیکھ کر یہ خیال کریں کہ انھیں اللہ تعالیٰ نے مہلت دے رکھی ہے تاکہ اس سے اپنے پیمانے کو بھرلیں جب موت آئے گی تو یہ سارا کھیل ختم ہو جائے گا۔
اس کے برعکس دین اسلام ایک ایسی لازوال دولت ہے جو کبھی ختم نہ ہوگی بلکہ اس پر عمل پیرا ہونے سے دنیا و آخرت میں یقیناً عزت ملتی ہے۔
واللہ أعلم۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3466