صحيح البخاري
كِتَاب أَحَادِيثِ الْأَنْبِيَاءِ -- کتاب: انبیاء علیہم السلام کے بیان میں
54. بَابٌ:
باب:۔۔۔
حدیث نمبر: 3481
حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا هِشَامٌ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ حُمَيْدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" كَانَ رَجُلٌ يُسْرِفُ عَلَى نَفْسِهِ فَلَمَّا حَضَرَهُ الْمَوْتُ، قَالَ: لِبَنِيهِ إِذَا أَنَا مُتُّ فَأَحْرِقُونِي ثُمَّ اطْحَنُونِي ثُمَّ ذَرُّونِي فِي الرِّيحِ فَوَاللَّهِ لَئِنْ قَدَرَ عَلَيَّ رَبِّي لَيُعَذِّبَنِّي عَذَابًا مَا عَذَّبَهُ أَحَدًا، فَلَمَّا مَاتَ فُعِلَ بِهِ ذَلِكَ فَأَمَرَ اللَّهُ الْأَرْضَ، فَقَالَ: اجْمَعِي مَا فِيكِ مِنْهُ فَفَعَلَتْ فَإِذَا هُوَ قَائِمٌ، فَقَالَ: مَا حَمَلَكَ عَلَى مَا صَنَعْتَ؟، قَالَ: يَا رَبِّ خَشْيَتُكَ فَغَفَرَ لَهُ، وَقَالَ غَيْرُهُ مَخَافَتُكَ يَا رَبِّ".
ہم سے عبداللہ بن محمد مسندی نے بیان کیا کہا ہم سے ہشام نے بیان کیا کہا ہم کو معمر نے خبر دی، انہیں زہری نے انہیں حمید بن عبدالرحمٰن نے اور انہیں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ایک شخص بہت گناہ کیا کرتا تھا جب اس کی موت کا وقت قریب آیا تو اپنے بیٹوں سے اس نے کہا کہ جب میں مر جاؤں تو مجھے جلا ڈالنا پھر میری ہڈیوں کو پیس کر ہوا میں اڑا دینا اللہ کی قسم! اگر میرے رب نے مجھے پکڑ لیا تو مجھے اتنا سخت عذاب کرے گا جو پہلے کسی کو بھی اس نے نہیں کیا ہو گا۔ جب وہ مر گیا تو (اس کی وصیت کے مطابق) اس کے ساتھ ایسا ہی کیا گیا۔ اللہ تعالیٰ نے زمین کو حکم فرمایا کہ اگر ایک ذرہ بھی کہیں اس کے جسم کا تیرے پاس ہے تو اسے جمع کر کے لا۔ زمین حکم بجا لائی اور وہ بندہ اب (اپنے رب کے سامنے) کھڑا ہوا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے دریافت فرمایا: تو نے ایسا کیوں کیا؟ اس نے عرض کیا: اے رب! تیرے ڈر کی وجہ سے۔ آخر اللہ تعالیٰ نے اس کی مغفرت کر دی۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے سوا دوسرے صحابہ نے اس حدیث میں لفظ «خشيتك‏» کے بدل «مخافتك» کہا ہے (دونوں لفظوں کا مطلب ایک ہی ہے)۔
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 226  
´عذاب قبر حق ہے`
«. . . 337- وبه: أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: قال رجل لم يعمل حسنة قط لأهله: إذا هو مات فأحرقوه، ثم اذروا نصفه فى البر ونصفه فى البحر؛ فوالله، لئن قدر الله عليه ليعذبنه عذابا لا يعذبه أحدا من العالمين. فلما مات الرجل فعلوا ما أمرهم فأمر الله البر فجمع ما فيه، وأمر البحر فجمع ما فيه، ثم قال: لم فعلت هذا؟ فقال: من خشيتك يا رب، وأنت أعلم، قال: فغفر الله له. . . .»
. . . اور اسی سند کے ساتھ (سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے) روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ایک آدمی جس نے کبھی کوئی نیکی نہیں کی تھی، اپنے گھر والوں سے کہا: اگر وہ مر جائے تو اسے جلا دیں، پھر اس کی آدھی راکھ خشکی اور آدھی سمندر میں اڑا دیں کیونکہ اگر اللہ نے اس پر سختی (باز پرس) کی تو اسے ایسا عذاب دے گا جو اس نے اپنی مخلوقات میں سے کسی کو نہیں دیا۔ پھر جب وہ آدمی مر گیا تو انہوں نے وہی کیا جس کا اس نے حکم دیا تھا پھر اللہ نے خشکی کو حکم دیا تو اس نے اس آدمی کے ذرات اکٹھے کر لئے اور سمندر کو حکم دیا تو اس نے (بھی) اس آدمی کے ذرات اکٹھے کر لئے پھر اللہ نے فرمایا: تو نے یہ کیوں کیا ہے؟ تو اس نے کہا: اے رب! تو جانتا ہے کہ میں نے یہ تیرے ڈر کی وجہ سے کیا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تو اللہ نے اسے بخش دیا۔ . . . [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 226]

تخریج الحدیث:
[وأخرجه البخاري 7506، ومسلم 2756، من حديث مالك به]
تفقه:
➊ اس روایت میں مذکورہ شخص نے اللہ تعالیٰ کی قدرت پر کوئی شک نہیں کیا تھا بلکہ یہ گمان کیا تھا کہ اس طریقے سے اللہ تعالیٰ اُس پر سختی نہیں کرے گا۔ دیکھئے [زاد المسير لابن الجوزي ص940، الانبياء: 87] اور [التمهيد 18/43]
➋ عذاب روح اور جسم دونوں کو ہوتا ہے۔
➌ اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے۔ وہ قوانینِ قدرت کا محتاج نہیں بلکہ ہر چیز اسی کی محتاج ہے اور ہر چیز کو اُسی نے پیدا کیا ہے۔
➍ سچی توبہ سے سارے گناہ معاف ہوجاتے ہیں۔
➎ میت کو جلانا جائز نہیں ہے بلکہ اسے قبر میں دفن کرنا ضروری ہے۔
➏ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «کان رجل ممن کان قبلکم لم یعمل خیرًا قط إلا التوحید۔» تم سے پہلے ایک آدمی تھا جس نے توحید کے علاوہ نیکی کا کوئی کام نہیں کیا تھا۔ [مسند أحمد 2/304 ح8040 وسنده صحيح] پھر انہوں نے حدیثِ بالا کے مفہوم والی روایت بیان کی۔ معلوم ہوا کہ مذکورہ شخص موحد تھا لہٰذا یہ سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ اس نے قدرت میں شک کیا ہو۔
➐ موحد (توحید ماننے والا) آخرکار جنت میں جائے گا بشرطیکہ اسلام کے مناقض اُمور میں سے کسی بات کا ارتکاب نہ کرے۔
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 337   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3481  
3481. حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے، وہ نبی کریم ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: ایک شخص بہت گناہ گار تھا۔ جب اس کی موت کا وقت آیا تو اس نے اپنے بیٹوں سے کہا: جب میں مرجاؤں تو مجھے جلادینا۔ پھر مجھے باریک پیس کر ذرات کو ہوا میں اڑادینا۔ اللہ کی قسم! اگراللہ تعالیٰ مجھ پر قادر ہوگیاتو مجھے ایسا سخت عذاب دے گا جو اس نے کسی کو نہیں دیاہوگا۔ جب وہ مرگیا تو اس کے ساتھ وہی کچھ کہا گیا۔ اللہ تعالیٰ نے زمین کو حکم دیا کہ اس شخص کے تمام اجزاء جمع کردے تو زمین نے ان ذرات کو جمع کردیا۔ پھر اچانک وہ شخص کھڑا ہوگیا تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا: جو کچھ تو نے کیا اس پر تجھے کس چیز نے آمادہ کیا؟ اس نے کہا: اے پروردگار!تیرے خوف نے مجھے ایسا کرنے پر آمادہ کیا۔ اللہ تعالیٰ نے اسے معاف کردیا۔ راوی حدیث ہشام کے علاوہ جب کسی دوسرے (عبدالرزاق) نے اس حدیث کو بیان کیا تو خشیت کے بجائے خوف کے لفظ بیان کیے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3481]
حدیث حاشیہ:
حافظ صاحب ؒ فرماتےہیں کہ الفاظ لئن قدر اللہ علی اس شخص نےغلبہ و دہشت کی بنا پرزبان سےنکالے جب کہ وہ حالت غفلت ونسیان میں تھا اسی لیے یہ الفاظ اس کےلیے قابل مؤاخذہ نہیں ہوئے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3481   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3481  
3481. حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے، وہ نبی کریم ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: ایک شخص بہت گناہ گار تھا۔ جب اس کی موت کا وقت آیا تو اس نے اپنے بیٹوں سے کہا: جب میں مرجاؤں تو مجھے جلادینا۔ پھر مجھے باریک پیس کر ذرات کو ہوا میں اڑادینا۔ اللہ کی قسم! اگراللہ تعالیٰ مجھ پر قادر ہوگیاتو مجھے ایسا سخت عذاب دے گا جو اس نے کسی کو نہیں دیاہوگا۔ جب وہ مرگیا تو اس کے ساتھ وہی کچھ کہا گیا۔ اللہ تعالیٰ نے زمین کو حکم دیا کہ اس شخص کے تمام اجزاء جمع کردے تو زمین نے ان ذرات کو جمع کردیا۔ پھر اچانک وہ شخص کھڑا ہوگیا تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا: جو کچھ تو نے کیا اس پر تجھے کس چیز نے آمادہ کیا؟ اس نے کہا: اے پروردگار!تیرے خوف نے مجھے ایسا کرنے پر آمادہ کیا۔ اللہ تعالیٰ نے اسے معاف کردیا۔ راوی حدیث ہشام کے علاوہ جب کسی دوسرے (عبدالرزاق) نے اس حدیث کو بیان کیا تو خشیت کے بجائے خوف کے لفظ بیان کیے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3481]
حدیث حاشیہ:
اللہ تعالیٰ کی قدرت کے متعلق شکوک و شبہات کا اظہار کرنا کفر ہے لیکن مذکورہ شخص نے اللہ کی قدرت کے متعلق شک کا اظہار کیا اس کے باوجود اسے معاف کردیا گیا کیونکہ یہ شک شدت غم کی وجہ سے تھا۔
کسی کو کافر قرار دینے کے لیے یہ ایک مانع ہے جس طرح شدت خوشی بھی کسی کو کافر قرار دینے کے لیے ایک رکاوٹ ہے جیسا کہ صحیح مسلم کی حدیث ہے۔
ایک آدمی جنگل میں اپنی سواری زادِراہ سمیت گم کر بیٹھا جب اچانک وہ اسے ملی تو شدت خوشی کی بنا پر اس نے کہا:
(اللهم أنت عبدي وأنا ربك)
یعنی اے اللہ! تو میرا بندہ اور میں تیرا رب ہوں۔
(صحیح مسلم، التوبة، حدیث: 6960(2747)
بظاہر یہ کفریہ کلمہ ہے لیکن شدت خوشی کی بنا پر اس سے سر زد ہوا اس لیے اس سے اللہ نے درگزر کیا۔
واللہ أعلم۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3481