صحيح البخاري
كِتَاب أَحَادِيثِ الْأَنْبِيَاءِ -- کتاب: انبیاء علیہم السلام کے بیان میں
54. بَابٌ:
باب:۔۔۔
حدیث نمبر: 3484
حَدَّثَنَا آدَمُ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ مَنْصُورٍ، قَالَ: سَمِعْتُ رِبْعِيَّ بْنَ حِرَاشٍ يُحَدِّثُ، عَنْ أَبِي مَسْعُودٍ، قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِنَّ مِمَّا أَدْرَكَ النَّاسُ مِنْ كَلَامِ النُّبُوَّةِ إِذَا لَمْ تَسْتَحْيِ فَاصْنَعْ مَا شِئْتَ".
ہم سے آدم بن ابی ایاس نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا ان سے منصور نے بیان کیا انہوں نے کہا میں نے ربعی بن حراش سے سنا وہ ابومسعود انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے تھے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگلے پیغمبروں کے کلام میں سے لوگوں نے جو پایا یہ بھی ہے کہ جب تجھ میں حیاء نہ ہو پھر جو جی چاہے کر۔
   الشيخ عبدالسلام بن محمد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 1320  
ایک ایسی بات جو پہلی نبوتوں سے چلی آ رہی ہے
«‏‏‏‏وعن ابن مسعود رضى الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم: ‏‏‏‏إن مما ادرك الناس من كلام النبوة الاولى: إذا لم تستح فاصنع ما شئت ‏‏‏‏ اخرجه البخاري.»
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: لوگوں نے پہلی نبوت کے کلام میں سے جو کچھ پایا ہے اس میں سے ایک یہ ہے کہ جب تو حیا نہ کرے تو جو چاہے کر۔ اسے بخاری نے روایت کیا۔ [بلوغ المرام/كتاب الجامع: 1320]

تخریج:
[بخاري3483]، [3484]
«الاولىٰ» کا لفظ بخاری میں نہیں بلکہ ابوداؤد میں ہے۔

فوائد:
پہلی نبوتوں کے کلام سے کیا مراد ہے:
مطلب یہ ہے کہ یہ ان باتوں میں سے ہے جن پر تمام انبیاء کرام علیہم السلام متفق تھے۔ کسی شریعت میں یہ منسوخ نہیں ہوئی عقل سلیم کے عین مطابق ہونے کی وجہ سے سب لوگ حتیٰ کہ اہل جاہلیت بھی اسے جانتے اور مانتے آئے ہیں۔

جب تو حیا نہ کرے تو جو چاہے کر کا مطلب کیا ہے؟
اس کا مطلب یہ ہے کہ جب آدمی میں حیا نہ رہے تو اس کے دل میں جو آتا ہے کر گزرتا ہے، اسے برائی سے کوئی چیز نہیں روک سکتی، بے حیا باش و ہرچہ خواہی کن گویا یہاں امر بمعنی خبر ہے یعنی جو چاہے کر سے مراد یہ ہے کہ جب آدمی حیا نہ کرے تو جو چاہے کرتا ہے کسی گندے سے گندے کام سے بھی اسے حجاب نہیں ہوتا۔ جیسا کہ:
«من كذب على متعمدا فليتبوء مقعده من النار» [صحيح بخاري، العلم 38 ]
جو شخص مجھ پر جان بوجھ کر جھوٹ بولے وہ اپنا ٹھکانہ آگ میں بنا لے۔ (یعنی وہ اپنا ٹھکانہ آگ میں بنا لیتا ہے۔)
دوسرا مطلب یہ ہے کہ یہاں امر دھمکی اور ڈانٹ کے لیے ہے جیسا کہ اللّٰہ تعالیٰ نے اپنی آیات میں کجروی اختیار کرنے والوں کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا:
«اعْمَلُوا مَا شِئْتُمْ إِنَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرٌ» ‏‏‏‏ [41-فصلت:40]
جو چاہو کرو تم جو کچھ کر رہے ہو یقیناًً وہ اسے دیکھنے والا ہے۔
(یعنی جب حیاء نہ کرو تو جو چاہو کرو آخر کار اس کا بدلہ تمہیں اللہ کی طرف سے مل جائے گا۔)
   شرح بلوغ المرام من ادلۃ الاحکام کتاب الجامع، حدیث/صفحہ نمبر: 247   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث4183  
´شرم و حیاء کا بیان۔`
ابومسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: گزشتہ کلام نبوت میں سے جو باتیں لوگوں کو ملی ہیں، ان میں سے ایک یہ ہے کہ جب تم میں حیاء نہ ہو تو جو چاہے کرو۔‏‏‏‏ [سنن ابن ماجه/كتاب الزهد/حدیث: 4183]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
حیا کی اہمیت سابقہ شریعتوں میں بھی مسلمہ تھی۔

(2)
حیا انسان کو برے کاموں سے روکنے کا ایک اہم ذریعہ ہے۔
جب کسی میں حیا نہ ہوتو اس سے گندے سے گندے گناہ کی توقع کی جاسکتی ہے۔

(3)
اس حدیث کا ایک مفہوم یہ بھی بیان کیا گیا ہے کہ جس کام میں ایک شریف آدمی شرم محسوس نہں کرتا وہ شرعاً جائز ہوتا ہے۔
اور جس کام سے شرم محسوس ہو اس سے بچ جانا چاہیے تاہم بعض اوقات معاشرے کی حالت تبدیل ہوجانے سے گناہ عام ہوجائے اور نیکی کا رواج نہ رہے تو وہ اس حکم میں نہیں۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 4183   
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 1320  
´مکارم اخلاق (اچھے عمدہ اخلاق) کی ترغیب کا بیان`
سیدنا ابومسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا پہلی نبوت کے کلام میں سے لوگوں کو جو کچھ ملا ہے، اس میں سے یہ بھی ہے کہ جب تو شرم نہ کرے تو جو چاہے کر۔ (بخاری) «بلوغ المرام/حدیث: 1320»
تخریج:
«أخرجه البخاري، أحاديث الأنبياء، باب 54، حديث:3484.»
تشریح:
1. پہلی نبوت کے کلام سے مراد وہ بات ہے جس پر سب انبیاء علیہم السلام کا اتفاق ہے اور وہ ان کی شریعتوں کی طرح منسوخ نہیں ہوئی۔
2.اس حدیث سے معلوم ہوا کہ پہلی شریعتوں کی کچھ باتیں ایسی ہیں جو منسوخ نہیں۔
ان میں سے ایک یہ ہے: جب تو شرم و حیا نہ کرے تو جو چاہے کر۔
کیونکہ برائی سے روکنے کا ذریعہ حیا ہے اور جب وہ ختم ہو جائے تو انسان بغیر کسی رکاوٹ کے برائیاں کرے گا۔
بعض نے کہا ہے کہ اس کا مفہوم یہ ہے کہ کوئی بھی کام کرنے سے پہلے دیکھ لو‘ اگر وہ ایسا ہو کہ اس سے حیا کی جاتی ہو تو اسے چھوڑ دو اور اگر اس سے شرم و حیا نہیں کی جاتی تو اسے کر گزرو اور لوگوں کی کوئی پروا نہ کرو۔
(سبل السلام)
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 1320   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4797  
´شرم و حیاء کا بیان۔`
ابومسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سابقہ نبوتوں کے کلام میں سے باقی ماندہ چیزیں جو لوگوں کو ملی ہیں ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ جب تمہیں شرم نہ ہو تو جو چاہو کرو۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/كتاب الأدب /حدیث: 4797]
فوائد ومسائل:
اس کلام میں وعید اور تہدید کے معنی یہ ہیں کہ حیا کرو ورنہ عتاب ہوگا۔
یا ترغیب کا مفہوم ہے کہ اقدام سے پہلے سوچ لو کہ اگر کام بے حیائی کا ہے تو باز رہو۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 4797   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3484  
3484. حضرت ابو مسعود انصاری ؓ ہی سے روایت ہے، انھوں نے کہا: نبی کریم ﷺ نے فرمایا: (پہلے) انبیاء ؑ کے کلام میں سے لوگوں نے جو پایا، اس میں یہ بھی ہے کہ تم میں حیا نہ ہوتو پھر جو جی میں آئے کر گزرو۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3484]
حدیث حاشیہ:
فارسی میں اس کا ترجمہ یوں ہے۔
بےحیاباش ہرچہ خواہی کن۔
مطلب یہ ہے کہ جب حیا شرم ہی نہ رہی ہوتو تمام برے کام شوق سے کرتا رہ۔
آخر ایک دن ضرور عذاب میں گرفتار ہوگا۔
اس حدیث کی سند میں منصور کےسماع کی ربعی سے صراحت ہے۔
دوسرے افعل کی جگہ اصنع ہے۔
تکرار بے فائدہ نہیں ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3484   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3484  
3484. حضرت ابو مسعود انصاری ؓ ہی سے روایت ہے، انھوں نے کہا: نبی کریم ﷺ نے فرمایا: (پہلے) انبیاء ؑ کے کلام میں سے لوگوں نے جو پایا، اس میں یہ بھی ہے کہ تم میں حیا نہ ہوتو پھر جو جی میں آئے کر گزرو۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3484]
حدیث حاشیہ:

فارسی میں اس کا ترجمہ یوں ہے۔
بے حیاباش ہرچہ خواہی کن۔
مطلب یہ ہے کہ جب شرم و حیا ہی نہ ہوتو تمام برے کام شوق سے کرتے رہو۔
اس قول زریں پر تمام انبیاء ؑکا اتفاق ہے۔
اسے ہر نبی نے بیان کیا ہے اور یہ دیگر احکام کی طرح منسوخ بھی نہیں ہوا کیونکہ اس جملے کے حسن و کمال پر تمام عقلاء کا اتفاق ہے۔

یہ امر ڈانٹ ڈپٹ کے لیے ہےیعنی جو چاہے کرو اللہ تعالیٰ تمھیں اس کی سزا ضرور دے گا۔

اس حدیث میں حیاکی فضیلت بیان ہوئی ہے جیسا کہ ایک دوسری حدیث میں ہے کہ حیا ایمان کا حصہ ہے۔
واللہ أعلم (صحیح البخاري، الإیمان، حدیث: 24)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3484