صحيح البخاري
كِتَاب الْمَنَاقِبِ -- کتاب: فضیلتوں کے بیان میں
1. بَابُ قَوْلُ اللَّهِ تَعَالَى: {يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّا خَلَقْنَاكُمْ مِنْ ذَكَرٍ وَأُنْثَى وَجَعَلْنَاكُمْ شُعُوبًا وَقَبَائِلَ لِتَعَارَفُوا إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللَّهِ أَتْقَاكُمْ} :
باب: اللہ تعالیٰ کا (سورۃ الحجرات میں) ارشاد ”اے لوگو! ہم نے تم سب کو ایک ہی مرد آدم اور ایک ہی عورت حواء سے پیدا کیا ہے اور تم کو مختلف قومیں اور خاندان بنا دیا ہے تاکہ تم بطور رشتہ داری ایک دوسرے کو پہچان سکو، بیشک تم سب میں سے اللہ کے نزدیک معزز تر وہ ہے جو زیادہ پرہیزگار ہو“۔
حدیث نمبر: 3496
وَالنَّاسُ مَعَادِنُ خِيَارُهُمْ فِي الْجَاهِلِيَّةِ خِيَارُهُمْ فِي الْإِسْلَامِ إِذَا فَقِهُوا تَجِدُونَ مِنْ خَيْرِ النَّاسِ أَشَدَّ النَّاسِ كَرَاهِيَةً لِهَذَا الشَّأْنِ حَتَّى يَقَعَ فِيهِ".
‏‏‏‏ اور انسانوں کی مثال کان کی طرح ہے، جو لوگ جاہلیت کے دور میں شریف تھے وہ اسلام لانے کے بعد بھی شریف ہیں جب کہ انہوں نے دین کی سمجھ بھی حاصل کی ہو تم دیکھو گے کہ بہترین اور لائق وہی ثابت ہوں گے جو خلافت و امارت کے عہدے کو بہت زیادہ ناپسند کرتے رہے ہوں، یہاں تک کہ وہ اس میں گرفتار ہو جائیں۔
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3496  
3496. (نیز آپ نے فرمایا:) انسان کی مثال کان کی طرح ہے۔ جولوگ دور جاہلیت میں بہتر تھے وہ زمانہ اسلام میں بھی قابل تعریف ہیں بشرط یہ کہ انھوں نے دینی معاملات میں سمجھ بوجھ حاصل کی ہو۔ تم دیکھو کہ حکومت اور سرداری کے لائق وہی ہوں گے جو شان امارت کو سخت ناپسند کرنے والے ہوں گے یہاں تک کہ ان پر اس کا بوجھ آپڑے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3496]
حدیث حاشیہ:
معلوم ہوا کہ اسلام میں شرافت کی بنیاد دینی علوم اور ان میں فقاہت حاصل کرنا ہے جو مسلمان عالم دین اور فقیہ ہوں وہی عنداللہ شریف ہیں، دینی فقاہت سے کتاب وسنت کی فقاہت مرادہے، رائے و قیا س کی فقاہت محض ابلیسی طریق کار ہے۔
اولاد آدم کے لیے کتاب وسنت کے ہوتے ہوئے ابلیسی طریق کار کی ضرورت نہیں۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3496   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3496  
3496. (نیز آپ نے فرمایا:) انسان کی مثال کان کی طرح ہے۔ جولوگ دور جاہلیت میں بہتر تھے وہ زمانہ اسلام میں بھی قابل تعریف ہیں بشرط یہ کہ انھوں نے دینی معاملات میں سمجھ بوجھ حاصل کی ہو۔ تم دیکھو کہ حکومت اور سرداری کے لائق وہی ہوں گے جو شان امارت کو سخت ناپسند کرنے والے ہوں گے یہاں تک کہ ان پر اس کا بوجھ آپڑے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3496]
حدیث حاشیہ:

قریش نسب کے اعتبار سے بلند مرتبہ اور مکان کے اعتبار سے مرکزی حیثیت رکھتے تھے، نیز قبائل عرب، مجاور حرم ہونے کی وجہ سے ان کی بہت تعظیم کرتے تھے، یہی وجہ ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت ہوئی تواکثرعرب انتظار میں تھے کہ آپ کی قوم، یعنی قریش آپ کے ساتھ کیا برتاؤ کرتے ہیں۔
جب فتح مکہ ہوا اور قریش مسلمان ہوگئے تو لوگ بھی فوج در فوج اسلام میں داخل ہونا شروع ہوگئے۔
چونکہ قریش کودیگر قبائل عرب پر فضیلت حاصل ہے اور وہ امامت و امارت میں تمام عرب پر سبقت رکھتے ہیں، لہذا مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ ان کے پیچھے چلیں اور ان کے خلاف علم بغاوت بلند نہ کریں۔
مطلب یہ ہے کہ قریش کی شان وشوکت جودور جاہلیت میں تھی، اسلام اس میں کوئی کمی نہیں کرے گا بلکہ وہ اسلام لانے کے بعدسردار ہی رہیں گے جیسے وہ زمانہ کفر میں قائدین تھے۔
حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے لکھاہے:
یہ خبر امر(حکم)
کے معنی میں ہے، چنانچہ دوسری روایت میں ہے کہ قریش کو آگے کرو اور ان سے آگے مت بڑھو، جبکہ کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ یہ خبر اپنے ظاہر معنی پر ہے۔
واللہ أعلم۔
(فتح الباري: 649/6)

اس حدیث کے آخری جملے کے معنی متعین کرنے میں بھی اختلاف ہے:
بعض نے کہا ہے کہ جو شخص امارت کا حریص نہ ہو اور سوال کے بغیر اگر اسے حاصل ہوجائے تو اس سے کراہت زائل ہوجائے گی اور اللہ تعالیٰ اس کی مدد فرمائے گا۔
بعض نے کہاہے کہ جب امارت سپرد ہوجائے گی تو پھر اس سے کراہت کرنا جائز نہیں۔
واللہ أعلم۔
(فتح الباري: 6/648)

اس حدیث سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ شرافت نسبی، علم کے بغیر عزت و احترام کے لائق نہیں۔
اصل شرافت تو علم دین حاصل کرنے سے ملتی ہے، پھر دینی معاملات میں رائے زنی کرنا نری جہالت ہے۔
جومسلمان عالم دین اور فقیہ ہوں وہی عنداللہ شریف ہیں۔
دینی فقاہت سے مراد کتاب و سنت کی فقاہت ہے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3496