صحيح البخاري
كِتَاب الْمَنَاقِبِ -- کتاب: فضیلتوں کے بیان میں
1. بَابُ قَوْلُ اللَّهِ تَعَالَى: {يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّا خَلَقْنَاكُمْ مِنْ ذَكَرٍ وَأُنْثَى وَجَعَلْنَاكُمْ شُعُوبًا وَقَبَائِلَ لِتَعَارَفُوا إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللَّهِ أَتْقَاكُمْ} :
باب: اللہ تعالیٰ کا (سورۃ الحجرات میں) ارشاد ”اے لوگو! ہم نے تم سب کو ایک ہی مرد آدم اور ایک ہی عورت حواء سے پیدا کیا ہے اور تم کو مختلف قومیں اور خاندان بنا دیا ہے تاکہ تم بطور رشتہ داری ایک دوسرے کو پہچان سکو، بیشک تم سب میں سے اللہ کے نزدیک معزز تر وہ ہے جو زیادہ پرہیزگار ہو“۔
حدیث نمبر: 3499
حَدَّثَنَا أَبُو الْيَمَانِ، أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، قَالَ: أَخْبَرَنِي أَبُو سَلَمَةَ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، أَنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ:" الْفَخْرُ وَالْخُيَلَاءُ فِي الْفَدَّادِينَ أَهْلِ الْوَبَرِ وَالسَّكِينَةُ فِي أَهْلِ الْغَنَمِ وَالْإِيمَانُ يَمَانٍ وَالْحِكْمَةُ يَمَانِيَةٌ، سُمِّيَتْ الْيَمَنَ لِأَنَّهَا عَنْ يَمِينِ الْكَعْبَةِ وَالشَّأْمَ لِأَنَّهَا عَنْ يَسَارِ الْكَعْبَةِ وَالْمَشْأَمَةُ الْمَيْسَرَةُ، وَالْيَدُ الْيُسْرَى الشُّؤْمَى، وَالْجَانِبُ الْأَيْسَرُ الْأَشْأَمُ".
ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا، کہا ہم کو شعیب نے خبر دی، ان سے زہری نے بیان کیا، انہیں ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن نے خبر دی اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرما رہے تھے کہ فخر اور تکبر ان چیخنے اور شور مچانے والے اونٹ والوں میں ہے اور بکری چرانے والوں میں نرم دلی اور ملائمت ہوتی ہے اور ایمان تو یمن میں ہے حکمت (حدیث) بھی یمنی ہے، ابوعبداللہ یعنی (امام بخاری رحمہ اللہ) نے کہا کہ یمن کا نام یمن اس لیے ہوا کہ یہ کعبہ کے دائیں جانب ہے اور شام کو شام اس لیے کہتے ہیں کہ یہ کعبہ کے بائیں جانب ہے۔ «المشأمة» بائیں جانب کو کہتے ہیں۔ بائیں ہاتھ کو «الشؤمى» کہتے ہیں اور بائیں جانب کو «الأشأم‏.» کہتے ہیں۔
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 3935  
´یمن کی فضیلت کا بیان`
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تمہارے پاس اہل یمن آئے وہ نرم دل اور رقیق القلب ہیں، ایمان یمنی ہے اور حکمت بھی یمنی ہے ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب المناقب/حدیث: 3935]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
بقول بعض آپ ﷺ نے ایمان و حکمت کو جو یمنی فرمایا تو اس کی وجہ یہ ہے کہ ایمان و حکمت دونوں مکہ سے نکلے ہیں اور مکہ تہامہ سے ہے اور تہامہ سر زمین یمن میں داخل ہے،
اور بقول بعض یہاں ظاہری معنی ہی مراد لینے میں کوئی حرج نہیں،
یعنی یہاں خاص یمن جو معروف ہے کہ وہ لوگ مراد ہیں جو اس وقت یمن سے آئے تھے،
نہ کہ ہر زمانہ کے اہل یمن مراد ہیں،
نیز یہ معنی بھی بیان کیا گیا ہے کہ یمن والوں سے بہت آسانی سے ایمان قبول کر لیا،
جبکہ دیگرعلاقوں کے لوگوں پر بہت زیادہ محنت کرنی پڑتی تھی،
اس لیے اہل یمن (اس وقت کے اہل یمن) کی تعریف کی،
واللہ اعلم۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 3935   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3499  
3499. حضرت ابوہریرہ ؓسے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ م میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا: فخر اورتکبر آواز بلند کرنے والوں (چلانے والوں) میں ہے جو اونی خیموں میں رہتے ہیں اور نرم دلی بکریاں چرانے والوں میں ہوتی ہے۔ ایمان بھی یمنی لوگوں کا قابل رشک ہے اور سوجھ بوجھ بھی اہل یمن کی معتبر ہے۔ ابوعبداللہ (امام بخاری ؒ) فرماتے ہیں کہ یمن کا نام اس لیے یمن رکھاگیا ہے کہ وہ بیت اللہ کےدائیں جانب ہے۔ اور شام کو شام اس لیے کہتے ہیں کہ وہ کعبہ کے بائیں طرف ہے۔ المشامة بائیں جانب کو، دائیں ہاتھ کا أشومى اوربائیں جانب کو أشأم کہاجاتا ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3499]
حدیث حاشیہ:
جیسے سورۃ بلد میں ہے ﴿وَالَّذِينَ كَفَرُ‌وا بِآيَاتِنَا هُمْ أَصْحَابُ الْمَشْأَمَةِ ﴿١٩﴾ یعنی جن لوگوں نے کفر کیا یہ بائیں جانب والے ہیں، جن کو بائیں ہاتھ میں نامہ اعمال ملے گا، دورآخر میں یمن میں استاد الاساتذہ حضرت علامہ امام شوکانی ؒ پیدا ہوئے جن کے ذریعہ سے فن حدیث کی وہ خدمات اللہ پاک نے انجام دلائیں جو رہتی دنیا تک یاد گار زمانہ رہیں گی، نیل الاوطار آپ کی مشہور ترین کتاب ہے جو شرح حدیث میں ایک عظیم درجہ رکھتی ہے۔
غفراللہ له۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3499   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3499  
3499. حضرت ابوہریرہ ؓسے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ م میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا: فخر اورتکبر آواز بلند کرنے والوں (چلانے والوں) میں ہے جو اونی خیموں میں رہتے ہیں اور نرم دلی بکریاں چرانے والوں میں ہوتی ہے۔ ایمان بھی یمنی لوگوں کا قابل رشک ہے اور سوجھ بوجھ بھی اہل یمن کی معتبر ہے۔ ابوعبداللہ (امام بخاری ؒ) فرماتے ہیں کہ یمن کا نام اس لیے یمن رکھاگیا ہے کہ وہ بیت اللہ کےدائیں جانب ہے۔ اور شام کو شام اس لیے کہتے ہیں کہ وہ کعبہ کے بائیں طرف ہے۔ المشامة بائیں جانب کو، دائیں ہاتھ کا أشومى اوربائیں جانب کو أشأم کہاجاتا ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3499]
حدیث حاشیہ:

اس حدیث میں یمن والوں اور بکریوں والوں کی تعریف بیان کی گئی ہے۔
بکریوں میں عجز و انکسار زیادہ ہوتا ہے، ان کے چرانے والوں میں بھی یہ صفات سرایت کرجاتی ہیں۔

اہل یمن لڑائی کے بغیر مسلمان ہوئے تھے۔
انھی راہ راست پر لانے کے لیے کوئی مشقت نہیں اٹھانا پڑی جبکہ اہل مشرق کے خلاف جنگیں لڑی گئیں نقصان اٹھانے کے بعدیہ لوگ مسلمان ہوئے۔
ایک حدیث میں ہے:
تمہارے پاس اہل یمن آئیں گے جن کے دل نرم اور گداز ہوں گے۔
اسی لیے ایمان اہل یمن اور حکمت ودانائی بھی اہل یمن کی قابل اعتبار ہے اورکفر کا مرکز مشرق کی جانب ہوگا۔
(صحیح مسلم، الإیمان، حدیث: 190(52)
یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کےدور کی بات ہے۔
ہر زمانے میں ہر یمنی کے لیے یہ فضیلت نہیں ہے۔
حدیث کے الفاظ کا بھی یہ تقاضا نہیں ہے، اس کے باوجود یمن میں بڑے بڑے محدث پیدا ہوئے ہیں جنھوں نے کتاب وسنت کی اشاعت میں بڑی خدمات سرانجام دی ہیں۔

کعبے کا چہرہ مشرق کی جانب ہے کیونکہ اس طرف دروازہ ہے، لہذا یمن اس کے یمین میں اور شام اس کے شمال میں ہے۔

امام بخاری ؒ نے حدیث کے آخر میں یمن اور شام کی وجہ تسمیہ لکھی ہے۔
حافظ ابن حجر ؒنے اس کی وجہ تسمیہ کے دیگر اقوال بھی ذکر کیے ہیں۔
ان میں ایک قول یہ بھی ہے کہ یمن، یمن بن قحطان کی وجہ سے یمن اور شامل، سام بن نوح کی وجہ سے شام کہلایا۔
سام اصل میں شام تھا، جب اسے عربی میں منتقل کیا گیا تو شام بن گیا۔
(فتح الباري: 651/6)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3499