صحيح البخاري
كِتَاب الْمَنَاقِبِ -- کتاب: فضیلتوں کے بیان میں
8. بَابُ مَا يُنْهَى مِنْ دَعْوَةِ الْجَاهِلِيَّةِ:
باب: جاہلیت کی سی باتیں کرنا منع ہے۔
حدیث نمبر: 3518
حَدَّثَنَا مُحَمَّدٌ، أَخْبَرَنَا مَخْلَدُ بْنُ يَزِيدَ، أَخْبَرَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي عَمْرُو بْنُ دِينَارٍ، أَنَّهُ سَمِعَ جَابِرًا رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، يَقُولُ: غَزَوْنَا مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَقَدْ ثَابَ مَعَهُ نَاسٌ مِنْ الْمُهَاجِرِينَ حَتَّى كَثُرُوا وَكَانَ مِنْ الْمُهَاجِرِينَ رَجُلٌ لَعَّابٌ فَكَسَعَ أَنْصَارِيًّا فَغَضِبَ الْأَنْصَارِيُّ غَضَبًا شَدِيدًا حَتَّى تَدَاعَوْا، وَقَالَ: الْأَنْصَارِيُّ يَا لَلْأَنْصَارِ، وَقَالَ: الْمُهَاجِرِيُّ يَا لَلْمُهَاجِرِينَ فَخَرَجَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ:" مَا بَالُ دَعْوَى أَهْلِ الْجَاهِلِيَّةِ ثُمَّ، قَالَ: مَا شَأْنُهُمْ فَأُخْبِرَ بِكَسْعَةِ الْمُهَاجِرِيِّ الْأَنْصَارِيَّ، قَالَ: فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" دَعُوهَا فَإِنَّهَا خَبِيثَةٌ، وَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أُبَيٍّ ابْنُ سَلُولَ: أَقَدْ تَدَاعَوْا عَلَيْنَا لَئِنْ رَجَعْنَا إِلَى الْمَدِينَةِ لَيُخْرِجَنَّ الْأَعَزُّ مِنْهَا الْأَذَلَّ، فَقَالَ عُمَرُ: أَلَا نَقْتُلُ يَا رَسُولَ اللَّهِ، هَذَا الْخَبِيثَ لِعَبْدِ اللَّهِ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: لَا يَتَحَدَّثُ النَّاسُ أَنَّهُ كَانَ يَقْتُلُ أَصْحَابَهُ".
ہم سے محمد بن سلام نے بیان کیا، کہا ہم کو مخلد بن یزید نے خبر دی، کہا ہمیں ابن جریج نے خبر دی، کہا کہ مجھے عمرو بن دینار نے خبر دی اور انہوں نے جابر رضی اللہ عنہ سے سنا کہ ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جہاد میں شریک تھے، مہاجرین بڑی تعداد میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جمع ہو گئے۔ وجہ یہ ہوئی کہ مہاجرین میں ایک صاحب تھے بڑے دل لگی کرنے والے، انہوں نے ایک انصاری کے سرین پر ضرب لگائی، انصاری بہت سخت غصہ ہوا۔ اس نے اپنی برادری والوں کو مدد کے لیے پکارا اور نوبت یہاں تک پہنچی کہ ان لوگوں نے یعنی انصاری نے کہا: اے قبائل انصار! مدد کو پہنچو! اور مہاجر نے کہا: اے مہاجرین! مدد کو پہنچو! یہ غل سن کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم (خیمہ سے) باہر تشریف لائے اور فرمایا: کیا بات ہے؟ یہ جاہلیت کی پکار کیسی ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صورت حال دریافت کرنے پر مہاجر صحابی کے انصاری صحابی کو مار دینے کا واقعہ بیان کیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ایسی جاہلیت کی ناپاک باتیں چھوڑ دو اور عبداللہ بن ابی سلول (منافق) نے کہا کہ یہ مہاجرین اب ہمارے خلاف اپنی قوم والوں کی دہائی دینے لگے۔ مدینہ پہنچ کر ہم سمجھ لیں گے، عزت دار ذلیل کو یقیناً نکال باہر کر دے گا۔ عمر رضی اللہ عنہ نے اجازت چاہی یا رسول اللہ! ہم اس ناپاک پلید عبداللہ بن ابی کو قتل کیوں نہ کر دیں؟ لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ایسا نہ ہونا چاہیے کہ لوگ کہیں کہ محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) اپنے لوگوں کو قتل کر دیا کرتے ہیں۔
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3518  
3518. حضرت جابر ؓسے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ ہم نبی کریم ﷺ کے ہمراہ ایک غزوے میں شریک تھے جبکہ آپ کے ساتھ کثیر تعداد میں مہاجرین جمع ہوئے۔ مہاجرین میں سے ایک صاحب بڑے خوش طبع اور دل لگی کرنے والے تھے۔ انھوں نے انصاری کے سرین پر ہاتھ لگایا، اس سے انصاری کو بہت غصہ آیا، اس نے اپنی برادری کو مدد کے لیے پکارا حتیٰ کہ انصاری نے کہا: اے انصار! مدد کوپہنچو۔ اور مہاجر نے آواز دے دی: اے مہاجرین! مدد کو آؤ۔ یہ شوروغل سن کر نبی کریم ﷺ باہر تشریف لائے اور فرمایا: جاہلیت کے یہ نعرے کیسے ہیں؟ پھر فرمایا: واقعہ کیا ہے؟ عرض کیا گیا کہ ایک مہاجر نے انصاری کے سرین پر ہاتھ لگایا ہے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: جاہلیت کے ان بدبودار نعروں کو چھوڑ دو۔ عبداللہ بن ابی سلول (منافق) کہنے لگا: اب کیاہمارےخلاف نعرے لگائے جارہے ہیں؟ اگر ہم مدینہ واپس پہنچے تو ہم میں سے عزت والا ذلیل کو نکال باہر کرے گا۔ حضرت عمر ؓ نے عرض کیا: اللہ کے نبی۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:3518]
حدیث حاشیہ:
گو عبداللہ بن ابی مردود منافق تھا مگر ظاہر میں مسلمانوں میں شریک رہتا، اس لیے آپ کو یہ خیال ہوا کہ اس کے قتل سے ظاہر بین لوگ جو اصل حقیقت سے واقف نہیں ہیں یہ کہنے لگےں گے کہ پیغمبر صاحب اپنے ہی لوگوں کو قتل کررہے ہیں، اور جب یہ مشہور ہوجائے گا تو دوسرے لوگ اسلام قبول کرنے میں تامل کریں گے۔
اسی منافق اور اس کے حواریوں سے متعلق قرآن پاک میں سورۃ منافقون نازل ہوئی جس میں اس مردود کا یہ قول بھی منقول ہے کہ مدینہ پہنچ کر عزت والاذلیل لوگوں (یعنی مکہ کے مہاجر مسلمانوں)
کو نکال دے گا۔
اللہ تعالیٰ نے خود اسی کو ہلاک کرکے تباہ کردیا اور مسلمان بفضلہ تعالیٰ فاتح مدینہ قرارپائے، اس واقعہ سے یہ بھی ثابت ہواکہ مصلحت اندیشی بھی ہر مسلمان کے لیے ضروری ہے۔
اسی لیے کہاگیا ہے:
دروغ مصلحت آمیز بہ از راستی فتنہ انگیز۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3518   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3518  
3518. حضرت جابر ؓسے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ ہم نبی کریم ﷺ کے ہمراہ ایک غزوے میں شریک تھے جبکہ آپ کے ساتھ کثیر تعداد میں مہاجرین جمع ہوئے۔ مہاجرین میں سے ایک صاحب بڑے خوش طبع اور دل لگی کرنے والے تھے۔ انھوں نے انصاری کے سرین پر ہاتھ لگایا، اس سے انصاری کو بہت غصہ آیا، اس نے اپنی برادری کو مدد کے لیے پکارا حتیٰ کہ انصاری نے کہا: اے انصار! مدد کوپہنچو۔ اور مہاجر نے آواز دے دی: اے مہاجرین! مدد کو آؤ۔ یہ شوروغل سن کر نبی کریم ﷺ باہر تشریف لائے اور فرمایا: جاہلیت کے یہ نعرے کیسے ہیں؟ پھر فرمایا: واقعہ کیا ہے؟ عرض کیا گیا کہ ایک مہاجر نے انصاری کے سرین پر ہاتھ لگایا ہے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: جاہلیت کے ان بدبودار نعروں کو چھوڑ دو۔ عبداللہ بن ابی سلول (منافق) کہنے لگا: اب کیاہمارےخلاف نعرے لگائے جارہے ہیں؟ اگر ہم مدینہ واپس پہنچے تو ہم میں سے عزت والا ذلیل کو نکال باہر کرے گا۔ حضرت عمر ؓ نے عرض کیا: اللہ کے نبی۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:3518]
حدیث حاشیہ:

دعوتِ جاہلیت سے مراد لڑائی کے وقت دوسروں کو آواز دے کر ان کی مدد طلب کرنا ہے۔
دورجاہلیت میں اس قسم کی پکار پر لوگ جمع ہوجاتے اور اس کی مدد کرتے، خواہ وہ ظالم ہوتا۔
جب اسلام آیاتو اس نے اس قسم کےنعروں سے منع فرمادیا جن میں عصبیت اور لڑائی جھگڑے کی بدبوتھی۔
مطلق طور پر کسی کو مدد کے لیے پکارنا حرام نہیں ہے، البتہ جس پکار سے قومیت یا عصبیت کا اظہار مقصود ہو وہ پکار قابل اعتراض ہے۔

امام بخاری ؒنے اس عنوان سے ایک حدیث کی طرف اشارہ فرمایاہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
کیا یہ جاہلیت کے نعرے ہیں؟ کہاگیا:
نہیں۔
آپ نے فرمایا:
پھر کوئی حرج نہیں۔
آدمی کو چاہیے کہ وہ اپنے بھائی کی مدد کرے، خواہ وہ ظالم ہو یامظلوم۔
ظالم کی مدد یہ ہے کہ اسے ظلم سے بازرکھا جائے۔
(مسند أحمد: 323/3)

اس حدیث میں امور دین کا اہتمام اور آنے والے حالات پر نظر رکھنے کی طرف اشارہ ہے کیونکہ کچھ لوگ بظاہر دین اسلام قبول کرلیتے ہیں لیکن ان کے دلوں میں اس کی حقانیت جاگزیں نہیں ہوتی۔
اگر انھیں کسی وقت سزادی جائے تو دشمنانِ دین دوسرے لوگوں کو نفرت دلائیں گے کہ دیکھو اب یہ مسلمانوں ہی کو قتل کررہے ہیں۔
ممکن تھا کہ لوگ مسلمانوں پر باطنی کفر کا الزام عائد کرکے لڑنا شروع کردیں۔
چونکہ عبداللہ بن ابی کوقتل کرنے سے اس طرح حالات پیدا ہوسکتے تھے، اس لیے رسول اللہ ﷺ نے اسے قتل کرنے سے روک دیا۔
واللہ أعلم۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3518