صحيح البخاري
كِتَاب الْمَنَاقِبِ -- کتاب: فضیلتوں کے بیان میں
11. بَابُ قِصَّةِ زَمْزَمَ:
باب: زمزم کا واقعہ۔
حدیث نمبر: 3522M
حَدَّثَنَا زَيْدٌ هُوَ ابْنُ أَخْزَمَ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو قُتَيْبَةَ سَلْمُ بْنُ قُتَيْبَةَ، حَدَّثَنِي مُثَنَّى بْنُ سَعِيدٍ الْقَصِيرُ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبُو جَمْرَةَ، قَالَ: قَالَ: لَنَا ابْنُ عَبَّاسٍ أَلَا أُخْبِرُكُمْ بِإِسْلَامِ أَبِي ذَرٍّ، قَالَ: قُلْنَا: بَلَى، قَالَ: قَالَ أَبُو ذَرٍّ: كُنْتُ رَجُلًا مِنْ غِفَارٍ فَبَلَغَنَا أَنَّ رَجُلًا قَدْ خَرَجَ بِمَكَّةَ يَزْعُمُ أَنَّهُ نَبِيٌّ، فَقُلْتُ: لِأَخِي انْطَلِقْ إِلَى هَذَا الرَّجُلِ كَلِّمْهُ وَأْتِنِي بِخَبَرِهِ فَانْطَلَقَ فَلَقِيَهُ ثُمَّ رَجَعَ، فَقُلْتُ: مَا عِنْدَكَ؟، فَقَالَ: وَاللَّهِ لَقَدْ رَأَيْتُ رَجُلًا يَأْمُرُ بِالْخَيْرِ وَيَنْهَى عَنِ الشَّرِّ، فَقُلْتُ لَهُ: لَمْ تَشْفِنِي مِنَ الْخَبَرِ فَأَخَذْتُ جِرَابًا وَعَصًا ثُمَّ أَقْبَلْتُ إِلَى مَكَّةَ فَجَعَلْتُ لَا أَعْرِفُهُ وَأَكْرَهُ أَنْ أَسْأَلَ عَنْهُ وَأَشْرَبُ مِنْ مَاءِ زَمْزَمَ وَأَكُونُ فِي الْمَسْجِدِ، قَالَ: فَمَرَّ بِي عَلِيٌّ، فَقَالَ: كَأَنَّ الرَّجُلَ غَرِيبٌ، قَالَ: قُلْتُ: نَعَمْ، قَالَ: فَانْطَلِقْ إِلَى الْمَنْزِلِ، قَالَ: فَانْطَلَقْتُ مَعَهُ لَا يَسْأَلُنِي عَنْ شَيْءٍ وَلَا أُخْبِرُهُ فَلَمَّا أَصْبَحْتُ غَدَوْتُ إِلَى الْمَسْجِدِ لِأَسْأَلَ عَنْهُ وَلَيْسَ أَحَدٌ يُخْبِرُنِي عَنْهُ بِشَيْءٍ، قَالَ: فَمَرَّ بِي عَلِيٌّ، فَقَالَ: أَمَا نَالَ لِلرَّجُلِ يَعْرِفُ مَنْزِلَهُ بَعْدُ، قَالَ: قُلْتُ: لَا، قَالَ: انْطَلِقْ مَعِي، قَالَ: فَقَالَ: مَا أَمْرُكَ وَمَا أَقْدَمَكَ هَذِهِ الْبَلْدَةَ، قَالَ: قُلْتُ لَهُ: إِنْ كَتَمْتَ عَلَيَّ أَخْبَرْتُكَ، قَالَ: فَإِنِّي أَفْعَلُ، قَالَ: قُلْتُ لَهُ: بَلَغَنَا أَنَّهُ قَدْ خَرَجَ هَا هُنَا رَجُلٌ يَزْعُمُ أَنَّهُ نَبِيٌّ فَأَرْسَلْتُ أَخِي لِيُكَلِّمَهُ فَرَجَعَ وَلَمْ يَشْفِنِي مِنَ الْخَبَرِ فَأَرَدْتُ أَنْ أَلْقَاهُ، فَقَالَ لَهُ: أَمَا إِنَّكَ قَدْ رَشَدْتَ هَذَا وَجْهِي إِلَيْهِ فَاتَّبِعْنِي ادْخُلْ حَيْثُ أَدْخُلُ فَإِنِّي إِنْ رَأَيْتُ أَحَدًا أَخَافُهُ عَلَيْكَ قُمْتُ إِلَى الْحَائِطِ كَأَنِّي أُصْلِحُ نَعْلِي وَامْضِ أَنْتَ فَمَضَى وَمَضَيْتُ مَعَهُ حَتَّى دَخَلَ وَدَخَلْتُ مَعَهُ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقُلْتُ لَهُ: اعْرِضْ عَلَيَّ الْإِسْلَامَ فَعَرَضَهُ فَأَسْلَمْتُ مَكَانِي، فَقَالَ لِي:" يَا أَبَا ذَرٍّ اكْتُمْ هَذَا الْأَمْرَ وَارْجِعْ إِلَى بَلَدِكَ فَإِذَا بَلَغَكَ ظُهُورُنَا فَأَقْبِلْ، فَقُلْتُ: وَالَّذِي بَعَثَكَ بِالْحَقِّ لَأَصْرُخَنَّ بِهَا بَيْنَ أَظْهُرِهِمْ فَجَاءَ إِلَى الْمَسْجِدِ وَقُرَيْشٌ فِيهِ، فَقَالَ: يَا مَعْشَرَ قُرَيْشٍ إِنِّي أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ، فَقَالُوا: قُومُوا إِلَى هَذَا الصَّابِئِ فَقَامُوا فَضُرِبْتُ لِأَمُوتَ فَأَدْرَكَنِي الْعَبَّاسُ فَأَكَبَّ عَلَيَّ ثُمَّ أَقْبَلَ عَلَيْهِمْ، فَقَالَ: وَيْلَكُمْ تَقْتُلُونَ رَجُلًا مِنْ غِفَارَ وَمَتْجَرُكُمْ وَمَمَرُّكُمْ عَلَى غِفَارَ فَأَقْلَعُوا عَنِّي فَلَمَّا أَنْ أَصْبَحْتُ الْغَدَ رَجَعْتُ، فَقُلْتُ: مِثْلَ مَا، قُلْتُ: بِالْأَمْسِ، فَقَالُوا: قُومُوا إِلَى هَذَا الصَّابِئِ فَصُنِعَ بِي مِثْلَ مَا صُنِعَ بِالْأَمْسِ وَأَدْرَكَنِي الْعَبَّاسُ فَأَكَبَّ عَلَيَّ، وَقَالَ: مِثْلَ مَقَالَتِهِ بِالْأَمْسِ، قَالَ: فَكَانَ هَذَا أَوَّلَ إِسْلَامِ أَبِي ذَرٍّ رَحِمَهُ اللَّهُ".
ہم سے زید نے جو اخزم کے بیٹے ہیں، بیان کیا، کہا ہم سے ابوقتیبہ سلم بن قتیبہ نے بیان کیا، ان سے مثنیٰ بن سعید قصیر نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے ابوجمرہ نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا کہ کیا میں ابوذر رضی اللہ عنہ کے اسلام کا واقعہ تمہیں سناؤں؟ ہم نے عرض کیا ضرور سنائیے۔ انہوں نے بیان کیا کہ ابوذر رضی اللہ عنہ نے بتلایا۔ میرا تعلق قبیلہ غفار سے تھا۔ ہمارے یہاں یہ خبر پہنچی تھی کہ مکہ میں ایک شخص پیدا ہوئے ہیں جن کا دعویٰ ہے کہ وہ نبی ہیں (پہلے تو) میں نے اپنے بھائی سے کہا کہ اس شخص کے پاس مکہ جا، اس سے گفتگو کر اور پھر اس کے سارے حالات آ کر مجھے بتا۔ چنانچہ میرے بھائی خدمت نبوی میں حاضر ہوئے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات کی اور واپس آ گئے۔ میں نے پوچھا کہ کیا خبر لائے؟ انہوں نے کہا: اللہ کی قسم! میں نے ایسے شخص کو دیکھا ہے جو اچھے کاموں کے لیے کہتا ہے اور برے کاموں سے منع کرتا ہے۔ میں نے کہا کہ تمہاری باتوں سے تو میری تشفی نہیں ہوئی۔ اب میں نے توشے کا تھیلا اور چھڑی اٹھائی اور مکہ آ گیا۔ وہاں میں کسی کو پہچانتا نہیں تھا اور آپ کے متعلق کسی سے پوچھتے ہوئے بھی ڈر لگتا تھا۔ میں (صرف) زمزم کا پانی پی لیا کرتا تھا، اور مسجد الحرام میں ٹھہرا ہوا تھا۔ انہوں نے بیان کیا کہ ایک مرتبہ علی رضی اللہ عنہ میرے سامنے سے گزرے اور بولے معلوم ہوتا ہے کہ آپ اس شہر میں مسافر ہیں۔ انہوں نے بیان کیا کہ میں نے کہا: جی ہاں۔ بیان کیا کہ تو پھر میرے گھر چلو۔ پھر وہ مجھے اپنے گھر ساتھ لے گئے۔ بیان کیا کہ میں آپ کے ساتھ ساتھ گیا۔ نہ انہوں نے کوئی بات پوچھی اور نہ میں نے کچھ کہا۔ صبح ہوئی تو میں پھر مسجد الحرام میں آ گیا تاکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں کسی سے پوچھوں لیکن آپ کے بارے میں کوئی بتانے والا نہیں تھا۔ بیان کیا کہ پھر علی رضی اللہ عنہ میرے سامنے سے گزرے اور بولے کہ کیا ابھی تک آپ اپنے ٹھکانے کو نہیں پا سکے ہیں؟ بیان کیا، میں نے کہا کہ نہیں۔ انہوں نے کہا کہ اچھا پھر میرے ساتھ آئیے۔ انہوں نے بیان کیا کہ پھر علی رضی اللہ عنہ نے پوچھا۔ آپ کا مطلب کیا ہے۔ آپ اس شہر میں کیوں آئے؟ انہوں نے بیان کیا کہ میں نے کہا: آپ اگر ظاہر نہ کریں تو میں آپ کو اپنے معاملے کے بارے میں بتاؤں۔ انہوں نے کہا کہ میں ایسا ہی کروں گا۔ تب میں نے ان سے کہا۔ ہمیں معلوم ہوا ہے کہ یہاں کوئی شخص پیدا ہوئے ہیں جو نبوت کا دعویٰ کرتے ہیں۔ میں نے پہلے اپنے بھائی کو ان سے بات کرنے کے لیے بھیجا تھا۔ لیکن جب وہ واپس ہوئے تو انہوں نے مجھے کوئی تشفی بخش اطلاعات نہیں دیں۔ اس لیے میں اس ارادہ سے آیا ہوں کہ ان سے خود ملاقات کروں۔ علی رضی اللہ عنہ نے کہا کہ آپ نے اچھا راستہ پایا کہ مجھ سے مل گئے۔ میں انہیں کے پاس جا رہا ہوں۔ آپ میرے پیچھے پیچھے چلیں۔ جہاں میں داخل ہوں آپ بھی داخل ہو جائیں۔ اگر میں کسی ایسے آدمی کو دیکھوں گا جس سے آپ کے بارے میں مجھے خطرہ ہو گا تو میں کسی دیوار کے پاس کھڑا ہو جاؤں گا، گویا کہ میں اپنا جوتا ٹھیک کر رہا ہوں۔ اس وقت آپ آگے بڑھ جائیں چنانچہ وہ چلے اور میں بھی ان کے پیچھے ہو لیا اور آخر میں وہ ایک مکان کے اندر گئے اور میں بھی ان کے ساتھ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں اندر داخل ہو گیا۔ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ اسلام کے اصول و ارکان مجھے سمجھا دیجئیے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے سامنے ان کی وضاحت فرمائی اور میں مسلمان ہو گیا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اے ابوذر! اس معاملے کو ابھی پوشیدہ رکھنا اور اپنے شہر کو چلے جانا۔ پھر جب تمہیں ہمارے غلبہ کا حال معلوم ہو جائے تب یہاں دوبارہ آنا۔ میں نے عرض کیا اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ مبعوث کیا ہے میں تو ان سب کے سامنے اسلام کے کلمہ کا اعلان کروں گا۔ چنانچہ وہ مسجد الحرام میں آئے۔ قریش کے لوگ وہاں موجود تھے اور کہا، اے قریش کی جماعت! (سنو) میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد اس کے بندے اور اس کے رسول ہیں۔ قریشیوں نے کہا کہ اس بددین کی خبر لو۔ چنانچہ وہ میری طرف لپکے اور مجھے اتنا مارا کہ میں مرنے کے قریب ہو گیا۔ اتنے میں عباس رضی اللہ عنہ آ گئے اور مجھ پر گر کر مجھے اپنے جسم سے چھپا لیا اور قریشیوں کی طرف متوجہ ہو کر انہوں کہا۔ ارے نادانو! قبیلہ غفار کے آدمی کو قتل کرتے ہو۔ غفار سے تو تمہاری تجارت بھی ہے اور تمہارے قافلے بھی اس طرف سے گزرتے ہیں۔ اس پر انہوں نے مجھے چھوڑ دیا۔ پھر جب دوسری صبح ہوئی تو پھر میں مسجد الحرام میں آیا اور جو کچھ میں نے کل پکارا تھا اسی کو پھر دہرایا۔ قریشیوں نے پھر کہا: پکڑو اس بددین کو۔ جو کچھ انہوں نے میرے ساتھ کل کیا تھا وہی آج بھی کیا۔ اتفاق سے پھر عباس بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ آ گئے اور مجھ پر گر کر مجھے اپنے جسم سے انہوں نے چھپا لیا اور جیسا انہوں نے قریشیوں سے کل کہا تھا ویسا ہی آج بھی کہا۔ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا کہ ابوذر رضی اللہ عنہ کے اسلام قبول کرنے کی ابتداء اس طرح سے ہوئی تھی۔