صحيح البخاري
كِتَاب الْمَنَاقِبِ -- کتاب: فضیلتوں کے بیان میں
25. بَابُ عَلاَمَاتِ النُّبُوَّةِ فِي الإِسْلاَمِ:
باب: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے معجزوں یعنی نبوت کی نشانیوں کا بیان۔
حدیث نمبر: 3586
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عَدِيٍّ، عَنْ شُعْبَةَ، ح حَدَّثَنِي بِشْرُ بْنُ خَالِدٍ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدٌ، عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ سُلَيْمَانَ سَمِعْتُ أَبَا وَائِلٍيُحَدِّثُ، عَنْ حُذَيْفَةَ، أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: أَيُّكُمْ يَحْفَظُ قَوْلَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْفِتْنَةِ، فَقَالَ حُذَيْفَةُ: أَنَا أَحْفَظُ كَمَا، قَالَ: قَالَ هَاتِ إِنَّكَ لَجَرِيءٌ، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" فِتْنَةُ الرَّجُلِ فِي أَهْلِهِ وَمَالِهِ وَجَارِهِ تُكَفِّرُهَا الصَّلَاةُ وَالصَّدَقَةُ وَالْأَمْرُ بِالْمَعْرُوفِ، وَالنَّهْيُ عَنِ الْمُنْكَرِ، قَالَ: لَيْسَتْ هَذِهِ وَلَكِنْ الَّتِي تَمُوجُ كَمَوْجِ الْبَحْرِ، قَالَ: يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ لَا بَأْسَ عَلَيْكَ مِنْهَا إِنَّ بَيْنَكَ وَبَيْنَهَا بَابًا مُغْلَقًا، قَالَ: يُفْتَحُ الْبَابُ أَوْ يُكْسَرُ، قَالَ: لَا بَلْ يُكْسَرُ، قَالَ: ذَاكَ أَحْرَى أَنْ لَا يُغْلَقَ، قُلْنَا: عَلِمَ الْبَابَ، قَالَ: نَعَمْ كَمَا أَنَّ دُونَ غَدٍ اللَّيْلَةَ إِنِّي حَدَّثْتُهُ حَدِيثًا لَيْسَ بِالْأَغَالِيطِ فَهِبْنَا أَنْ نَسْأَلَهُ وَأَمَرْنَا مَسْرُوقًا فَسَأَلَهُ، فَقَالَ: مَنِ الْبَابُ، قَالَ: عُمَرُ".
ہم سے محمد بن بشار نے بیان کیا، کہا ہم سے ابن ابی عدی نے بیان کیا، ان سے شعبہ نے، (دوسری سند) کہا مجھ سے بشر بن خالد نے بیان کیا، کہا ہم سے محمد بن جعفر نے، ان سے شعبہ نے، ان سے سلیمان نے، انہوں نے ابووائل سے سنا، وہ حذیفہ رضی اللہ عنہ سے بیان کرتے تھے کہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے پوچھا: فتنہ کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث کس کو یاد ہے؟ حذیفہ رضی اللہ عنہ بولے کہ مجھے زیادہ یاد ہے جس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا۔ عمر رضی اللہ عنہ نے کہا پھر بیان کرو (ماشاء اللہ) تم تو بہت جری ہو۔ انہوں نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: انسان کی ایک آزمائش (فتنہ) تو اس کے گھر، مال اور پڑوس میں ہوتا ہے جس کا کفارہ، نماز، روزہ، صدقہ اور امر بالمعروف اور نہی عن المنکر جیسی نیکیاں بن جاتی ہیں۔ عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں اس کے متعلق نہیں پوچھتا، بلکہ میری مراد اس فتنہ سے ہے جو سمندر کی طرح (ٹھاٹھیں مارتا) ہو گا۔ انہوں نے کہا اس فتنہ کا آپ پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔ آپ کے اور اس فتنہ کے درمیان بند دروازہ ہے۔ عمر رضی اللہ عنہ نے پوچھا وہ دروازہ کھولا جائے گا یا توڑا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ نہیں بلکہ توڑ دیا جائے گا۔ عمر رضی اللہ عنہ نے اس پر فرمایا کہ پھر تو بند نہ ہو سکے گا۔ ہم نے حذیفہ رضی اللہ عنہ سے پوچھا، کیا عمر رضی اللہ عنہ اس دروازے کے متعلق جانتے تھے؟ انہوں نے فرمایا کہ اسی طرح جانتے تھے جیسے دن کے بعد رات کے آنے کو ہر شخص جانتا ہے۔ میں نے ایسی حدیث بیان کی جو غلط نہیں تھی۔ ہمیں حذیفہ رضی اللہ عنہ سے (دروازہ کے متعلق) پوچھتے ہوئے ڈر معلوم ہوا۔ اس لیے ہم نے مسروق سے کہا تو انہوں نے پوچھا کہ وہ دروازہ کون ہیں؟ تو انہوں نے بتایا کہ وہ خود عمر رضی اللہ عنہ ہی ہیں۔
  حافظ عمران ايوب لاهوري حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 525  
´فتنوں کا کفارہ`
«. . . قَالَ: لَيْسَ هَذَا أُرِيدُ، وَلَكِنْ الْفِتْنَةُ الَّتِي تَمُوجُ كَمَا يَمُوجُ الْبَحْرُ . . .»
. . . عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میں تم سے اس کے متعلق نہیں پوچھتا، مجھے تم اس فتنہ کے بارے میں بتلاؤ جو سمندر کی موج کی طرح ٹھاٹھیں مارتا ہوا بڑھے گا . . . [صحيح البخاري/كِتَاب مَوَاقِيتِ الصَّلَاةِ: 525]

لغوی توضیح:
«الإِسْلاَمُ بَدَأَ غَرِيباً» اسلام اجنبی شروع ہوا، یعنی چند قلیل افراد میں، پھر پھیلا اور غالب آ گیا۔
«الَّتِي» «تَمُوجُ كَمَا يَمُوجُ الْبَحْرُ» وہ فتنہ جو سمندر کی طرح ٹھاٹھیں مارے گا، مراد اس کی شدت، عظمت، پھیلاؤ اور وسعت ہے۔
«بَابًا مُغْلَقًا» بند دروازہ، مراد سیدنا عمر رضی اللہ عنہ ہیں، ان کی حیات طیبہ میں کوئی بڑا فتنہ رونما نہیں ہوا لیکن ان کی شہادت کے بعد ایسا فتنوں کا دروازہ کھلا جو آج تک بند نہیں ہو سکا۔
   جواہر الایمان شرح الولووالمرجان، حدیث/صفحہ نمبر: 88   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث3955  
´(امت محمدیہ میں) ہونے والے فتنوں کا بیان۔`
حذیفہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم عمر رضی اللہ عنہ کے پاس بیٹھے ہوئے تھے اتنے میں آپ نے کہا کہ تم میں سے کس کو فتنہ کے باب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث یاد ہے؟ حذیفہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا: مجھ کو یاد ہے، عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: تم بڑے جری اور نڈر ہو، پھر بولے: وہ (حدیث) کیسے ہے؟ تو انہوں نے کہا: میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا ہے: آدمی کے لیے جو فتنہ اس کے اہل و عیال، اولاد اور پڑوسی میں ہوتا ہے اسے نماز، روزہ، صدقہ، امر بالمعروف اور نہی عن المنکر مٹا دیتے ہیں، (یہ سن کر) عمر رضی اللہ ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابن ماجه/كتاب الفتن/حدیث: 3955]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
اہل وعیال اور پڑوسیوں وغیرہ کے بارے میں آزمائش سے مراد روز مرہ کے معاملات ہیں۔
ان سے بھی انسان کی آزمائش ہوتی ہے کہ وہ اللہ تعالی کے احکام کی تعمیل کرتا ہے یا نہیں۔

(2)
۔
چھوٹی موٹی غلطیاں نماز روزے وغیرہ سے معاف ہوجاتی ہیں۔

(3)
اس حدیث میں مذکور فتنے سے مراد اسلام دشمن کی وہ خفیہ سازشیں ہیں جو حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی حیات میں کامیاب نہ ہوسکیں۔
آپ کے بعد حضرت عثمان رضی اللہ عنہ پر جھوٹے الزامات سے وہ ظاہر ہوئیں اور جھوٹے پر وپیگنڈے کے زور پر انھیں کامیاب کیا گیا۔

(4)
دروازہ ٹوٹنے سے مراد حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی شہادت ہے جوا یک مجوسی ابو لؤلؤ فیروز کے ہاتھ ہوئی۔
اس سے سازشوں کے راستے کی سب سے بڑی رکاوٹ دور ہوگئی۔

(5)
رسول اللہ ﷺ نے حضرت حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہما کو مستقبل کے فتنوں سے آگاہ فرمایا تھا۔
عام مسلمانوں کو ان سے آگاہ کرنا مصلحت کے خلاف تھا۔

(6)
یہ فتنے اسی طرح واقع ہوئے جس طرح نبی ﷺ نے بیان فرمائے تھے۔
یہ نبی ﷺکی صداقت کی دلیل ہے کہ آپﷺ جو کچھ فرماتے تھے وہ وحی کی روشنی میں ہوتا تھا۔
اس سے نبی ﷺ کے علم غیب پر استدلال کرنا درست نہیں۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 3955   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 2258  
´سمندر کی موج کی طرح کے فتنے کا ذکر۔`
حذیفہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ عمر رضی الله عنہ نے پوچھا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فتنہ کے بارے میں جو فرمایا ہے اسے کس نے یاد رکھا ہے؟ حذیفہ رضی الله عنہ نے کہا: میں نے یاد رکھا ہے، حذیفہ رضی الله عنہ نے بیان کیا: آدمی کے لیے جو فتنہ اس کے اہل، مال، اولاد اور پڑوسی کے سلسلے میں ہو گا اسے نماز، روزہ، زکاۃ، امربالمعروف اور نہی عن المنکر مٹا دیتے ہیں ۱؎، عمر رضی الله عنہ نے کہا: میں تم سے اس کے بارے میں نہیں پوچھ رہا ہوں، بلکہ اس فتنہ کے بارے میں پوچھ رہا ہوں جو سمندر کی موجوں کی طرح موجیں مارے گا، انہوں نے کہا: امیر المؤمنین! ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ترمذي/كتاب الفتن/حدیث: 2258]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
معلوم ہواکہ گھر کی ذمہ داری سنبھالنے والے سے اس کے اہل،
مال،
اولاد اور پڑوسی کے سلسلہ میں ادائے حقوق کے ناحیہ سے جوکوتاہیاں ہوجاتی ہیں تو نماز،
روزہ،
صدقہ اور امر بالمعروف ونہی عن المنکر وغیرہ یہ سب کے سب ان کے لیے کفارہ بنتے ہیں۔

2؎:
حذیفہ رضی اللہ عنہ نے جو کچھ بیان کیا عمر رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد حقیقت میں اسی طرح پیش آیا،
یعنی فتنوں کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ چل پڑا،
اور امن وامان نام کی کوئی چیز دنیا میں باقی نہیں رہی،
چنانچہ ہر کوئی سکون واطمینان کا متلاشی ہے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 2258   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3586  
3586. حضرت حذیفہ ؓ سے روایت ہے کہ ایک دن حضرت عمر ؓ بن خطاب نے فرمایا: تم میں سے کون ہے جسے فتنے کے متعلق رسول اللہ ﷺ کا ارشاد یاد ہو؟حضرت حذیفہ ؓ نے عرض کیا: مجھے اسی طرح یاد ہے جیسا کہ آپ ﷺ نے فرمایا تھا۔ حضرت عمر نے کہا: واقعی تم بڑے دلیر معلوم ہوتے ہو، اسے بیان کرو۔ حضرت حذیفہ نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ایک آزمائش تو انسان کی اس کے مال ومتاع میں، اس کے اہل وعیال میں اور اپنے پڑوس میں ہوتی ہے جس کا کفارہ نماز، صدقہ وخیرات، امر بالمعروف اور نہی عن المنکر ہے۔ حضرت عمر ؓ نے فرمایا: میرا سوال اس سے متعلق نہیں۔ ہاں، اس فتنے کی نشاندہی کروجو سمندر کی موجوں کی طرح موجزن ہوگا۔ انھوں نے کہا: اے امیر المومنین ؓ!آپ کو اس فتنے سے کوئی خطرہ نہیں کیونکہ آپ کے اور اس فتنے کے درمیان ایک بند دروازہ ہے۔ حضرت عمر نے فرمایا: وہ دروازہ کھولا جائے گایا اسے توڑا جائے۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:3586]
حدیث حاشیہ:
یہ حدیث مع شرح اوپر گزر چکی ہے۔
امام بخاری ؒ اس باب میں اس کو اس لیے لائے ہیں کہ آنحضرت ﷺ کا ایک معجزہ ہے، اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ حضرت عمر ؓ جب تک زندہ رہے کوئی فتنہ اور فساد مسلمانوں میں نہیں ہوا۔
ان کی وفات کے بعد فتنوں کا دروازہ کھل گیا تو آپ کی پیش گوئی پوری ہوئی۔
زرکشی نے کہا کہ حذیفہ ؓ اگر اس دروازے کو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی ذات کہتے تو درست ہوتا ان کی شہادت کے بعد فتنوں کا دروازہ کھل گیا۔
(بلکہ حضرت عثمان ؓ کی مظلومانہ شہادت بھی فتنہ گروں کے ہاتھوں ہوئی)
راقم کہتا ہے کہ یہ زرکشی کی خوش فہمی ہے۔
فتنوں کا دروازہ تو حضرت عثمان ؓ کی حیات میں کھل گیا تھا پھر وہ دروازہ کیسے ہوسکتے ہیں۔
حذیفہ ایک جلیل الشان صحابی اور آنحضرت ﷺ کے محرم راز تھے۔
انہوں نے جو امر قرار دیا، زرکشی کو اس پر اعتراض کرنا زیبا نہیں تھا (وحیدی)
اہل ومال کے فتنے سے مراد خداکی یاد سے غافل ہونا اور دل پر غفلت کا پردہ آنا ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3586   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3586  
3586. حضرت حذیفہ ؓ سے روایت ہے کہ ایک دن حضرت عمر ؓ بن خطاب نے فرمایا: تم میں سے کون ہے جسے فتنے کے متعلق رسول اللہ ﷺ کا ارشاد یاد ہو؟حضرت حذیفہ ؓ نے عرض کیا: مجھے اسی طرح یاد ہے جیسا کہ آپ ﷺ نے فرمایا تھا۔ حضرت عمر نے کہا: واقعی تم بڑے دلیر معلوم ہوتے ہو، اسے بیان کرو۔ حضرت حذیفہ نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ایک آزمائش تو انسان کی اس کے مال ومتاع میں، اس کے اہل وعیال میں اور اپنے پڑوس میں ہوتی ہے جس کا کفارہ نماز، صدقہ وخیرات، امر بالمعروف اور نہی عن المنکر ہے۔ حضرت عمر ؓ نے فرمایا: میرا سوال اس سے متعلق نہیں۔ ہاں، اس فتنے کی نشاندہی کروجو سمندر کی موجوں کی طرح موجزن ہوگا۔ انھوں نے کہا: اے امیر المومنین ؓ!آپ کو اس فتنے سے کوئی خطرہ نہیں کیونکہ آپ کے اور اس فتنے کے درمیان ایک بند دروازہ ہے۔ حضرت عمر نے فرمایا: وہ دروازہ کھولا جائے گایا اسے توڑا جائے۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:3586]
حدیث حاشیہ:

اس حدیث سے امام بخاری ؒنے رسول اللہ ﷺ کی پیش گوئیوں کا آغاز کیا ہے۔

حضرت حذیفہ رسول اللہ ﷺ سے اکثر فتنوں کے متعلق سوال کیا کرتے تھے تاکہ ان سے محفوظ رہا جا کسے۔
صحابہ کرام ؓ میں انھیں رسول اللہ ﷺ کا راز دان کہا جاتا تھا۔
انھوں نے گمان یا اندازے سے نہیں بلکہ رسول اللہ ﷺ کی پیش گوئی سے معلوم کیا تھا کہ حضرت عمر ؓ جب تک زندہ رہیں گے۔
مسلمانوں میں کسی قسم کا فتنہ و فاسد رونما نہیں ہو گا۔
ان کے بعد فتنوں کا دروازہ چوپٹ کھل جائے گا۔
واقعی رسول اللہ ﷺ کی پیش گوئی پوری ہوئی۔
اس وقت سے امت مسلمہ تنزلی کا شکار ہے۔
بہر حال رسول اللہ ﷺ نے آنے والے حالات کی خبر یں دی ہیں جو بعینہ پوری ہوئیں یہ بھی آپ کا معجزہ اور نبوت کی دلیل ہے۔

اہل و عیال کے فتنے سے مراد ہے کہ انسان ان کی محبت میں گرفتار ہو کر اللہ کی یاد سے غافل ہو جاتا ہے اور ہمسائے کا فتنہ یہ ہے کہ انسان اپنے ہمسایوں سے بغض حسد رکھتا ہے یا ان پر فخر و مباہات کرتا ہے یا ان کے حقوق کی ادائیگی میں کو تاہی کرتا ہے۔
حدیث میں گھر مال اور ہمسائے کا ذکر ہے اور ان فتنوں کا کفارہ بھی تین چیزیں ہیں چنانچہ نماز اور روزہ فعلی عبادت ہے صدقہ و خیرات مالی عبادت ہے اور امر بالعمروف نہی عن المنکر قولی عبادت ہے یہ تینوں قسم کی عبادات بالترتیب تینوں قسم کی کوتاہیوں کا کفارہ ہیں۔
(فتح الباري: 739/6)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3586