صحيح البخاري
كِتَاب الْمَنَاقِبِ -- کتاب: فضیلتوں کے بیان میں
25. بَابُ عَلاَمَاتِ النُّبُوَّةِ فِي الإِسْلاَمِ:
باب: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے معجزوں یعنی نبوت کی نشانیوں کا بیان۔
حدیث نمبر: 3591
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، قَالَ: قَالَ إِسْمَاعِيلُ، أَخْبَرَنِي قَيْسٌ، قَالَ: أَتَيْنَا أَبَا هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، فَقَالَ" صَحِبْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثَلَاثَ سِنِينَ لَمْ أَكُنْ فِي سِنِيَّ أَحْرَصَ عَلَى أَنْ أَعِيَ الْحَدِيثَ مِنِّي فِيهِنَّ سَمِعْتُهُ يَقُولُ، وَقَالَ: هَكَذَا بِيَدِهِ بَيْنَ يَدَيِ السَّاعَةِ تُقَاتِلُونَ قَوْمًا نِعَالُهُمُ الشَّعَرُ وَهُوَ هَذَا الْبَارِزُ، وَقَالَ: سُفْيَانُ مَرَّةً وَهُمْ أَهْلُ الْبَازِرِ".
ہم سے علی بن عبداللہ مدینی نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا، کہا کہ اسماعیل نے بیان کیا کہ مجھ کو قیس نے خبر دی، انہوں نے کہا کہ ہم ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو انہوں نے کہا کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت میں تین سال رہا ہوں، اپنی پوری عمر میں مجھے حدیث یاد کرنے کا اتنا شوق کبھی نہیں ہوا جتنا ان تین سالوں میں تھا۔ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا، آپ نے اپنے ہاتھ سے یوں اشارہ کر کے فرمایا کہ قیامت کے قریب تم لوگ (مسلمان) ایک ایسی قوم سے جنگ کرو گے جن کے جوتے بالوں کے ہوں گے (مراد یہی ایرانی ہیں) سفیان نے ایک مرتبہ «وهو هذا البارز» کے بجائے الفاظ «وهم أهل البازر‏.‏» نقل کئے (یعنی ایرانی، یا کُردی، یا دیلم والے لوگ مراد ہیں)۔
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3591  
3591. حضرت ابوہریرہ ؓسے روایت ہے، انھوں نے فرمایا کہ میں رسول اللہ ﷺ کی صحبت میں تین سال رہا ہوں۔ اپنی پوری عمر میں مجھے حدیث یاد کرنے کا اتنا شوق کبھی نہیں ہواجتنا ان تین سالوں میں تھا۔ میں نے ایک مرتبہ آپ ﷺ کو اپنے ہاتھ سے یوں اشارہ کرکے فرماتے ہوئے سنا: قیامت کے قریب تم لوگ ایک ایسی قوم سے جنگ کروگے جن کے جوتے بالوں کے ہوں گے۔(حضرت ابوہریرہ ؓ نے فرمایا:)اس سے مراد کرد ہیں۔ (راوی حدیث) سفیان نے ایک مرتبہ یوں بیان کیا کہ وہ اہل بازر، یعنی ایرانی یا کردی ہیں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3591]
حدیث حاشیہ:

حضرت ابو ہریرہ ؓ نے دربار رسالت میں مدت اقامت تین سال بیان کی ہے حالانہ آپ چار سال رہے ہیں کیونکہ غزوہ خیبر کے موقع پر آپ تشریف لائے جو صفر سات ہجری میں ہوااور رسول اللہ ﷺ ربیع الاول گیارہ ہجری میں فوت ہوئے۔
شاید حضرت ابو ہریرہ ؓ نے اس مدت کو شمار کیا ہے جس میں وہ اس مبارک مجلس کی سختی سے پابندی کرتے تھے اور اس مدت کو شامل نہیں کیا۔
جب رسول اللہ ﷺ کسی غزوے یا حج و عمرے کے سفر میں ہوتے تھے کیونکہ ان ایام میں وہ پابندی نہ ہوتی تھی۔

اس حدیث کے آخر میں لفظ بارز آیا ہے اس کے کئی ایک معنی ہیں۔
جو لوگ مسلمانوں سے جنگ کرنے کے لیے نمایاں طور پر حصہ لیں گے۔
اس سے مراد فارس کی زمین ہے فاکو باسے اور سین کو زاسے بدل دیا گیا ہے
وہ لوگ مراد ہیں جو جنگلات اور پہاڑوں میں رہنے والے ہوں گے کیونکہ یہ مقامات زمین سے ابھرے ہوئے ہیں بعض لوگوں نے اسے بازر یعنی زاکوپہلے اور راکوبعد میں پڑھا ہے عجم اور ترک زبان میں بازر کہا جاتا ہے صحیح لفظ بارزہی ہے۔

اس قوم سے مراد کرد،دیلم اور اہل فارس ہیں۔
انھوں نے مسلمانوں کو بہت نقصان پہنچایا۔
ہلا کو اور چنگیز خان کے ہاتھوں ہونے والی تباہی تاریخ کا ایک حصہ ہے۔
واللہ أعلم۔
(فتح الباري: 745/6)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3591