صحيح البخاري
كِتَاب الْمَنَاقِبِ -- کتاب: فضیلتوں کے بیان میں
25. بَابُ عَلاَمَاتِ النُّبُوَّةِ فِي الإِسْلاَمِ:
باب: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے معجزوں یعنی نبوت کی نشانیوں کا بیان۔
حدیث نمبر: 3597
حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ أُسَامَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: أَشْرَفَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى أُطُمٍ مِنَ الْآطَامِ، فَقَالَ:" هَلْ تَرَوْنَ مَا أَرَى إِنِّي أَرَى الْفِتَنَ تَقَعُ خِلَالَ بُيُوتِكُمْ مَوَاقِعَ الْقَطْرِ".
ہم سے ابونعیم نے بیان کیا، ان سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا، ان سے زہری نے، ان سے عروہ بن زبیر نے اور ان سے اسامہ بن زید رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک مرتبہ مدینہ کے ایک بلند ٹیلہ پر چڑھے اور فرمایا جو کچھ میں دیکھ رہا ہوں کیا تمہیں بھی نظر آ رہا ہے؟ میں فتنوں کو دیکھ رہا ہوں کہ تمہارے گھروں میں وہ اس طرح گر رہے ہیں جیسے بارش کی بوندیں گرا کرتیں ہیں۔
  الشيخ غلام مصطفٰے ظهير امن پوري حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 7060  
´فتنے بارش کے قطروں کی طرح`
«. . . أَشْرَفَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى أُطُمٍ مِنْ آطَامِ الْمَدِينَةِ، فَقَالَ: هَلْ تَرَوْنَ مَا أَرَى؟، قَالُوا: لَا، قَالَ: فَإِنِّي لَأَرَى الْفِتَنَ تَقَعُ خِلَالَ بُيُوتِكُمْ كَوَقْعِ الْقَطْرِ . . .»
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ کے ٹیلوں میں سے ایک ٹیلے پر چڑھے پھر فرمایا کہ میں جو کچھ دیکھتا ہوں تم بھی دیکھتے ہو؟ لوگوں نے کہا کہ نہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں فتنوں کو دیکھتا ہوں کہ وہ بارش کے قطروں کی طرح تمہارے گھروں میں داخل ہو رہے ہیں۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْفِتَنِ: 7060]

فوائد و مسائل
اس حدیث نبوی اور مشرق کی طرف سے اٹھنے والے فتنہ کی احادیث کے درمیان جمع وتطبیق کرتے ہوئے:
◈ شارح بخاری، حافظ ابن حجر رحمہ اللہ (773-852 ھ) فرما تے ہیں:
«وإنما اختصت المدينة بذلك، لأن قتل عثمان رضى الله عنه كان بها، ثم انتشرت الفتن فى البلاد بعد ذلك، فالقتال بالجمل وبصفين كان بسبب قتل عثمان، والقتال بالنهروان كان بسبب التحكيم بصفين، وكل قتال وقع فى ذلك العصر إنما تولد عن شيء من ذلك، أو عن شيء تولد عنه، ثم إن قتل عثمان كان أشد أسبابه الطعن على أمرائه، ثم عليه بتوليته لهم، وأول ما نشأ ذلك من العراق، وهى من جهة المشرق، فلا منافاة بين حديث الباب وبين الحديث الآتي أن الفتنة من قبل المشرق.»
اس بارے میں مدینہ منورہ کا خاص ذکر اس لئے کیا گیا ہے کہ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت یہیں ہوئی تھی۔ اس کے بعد تمام علاقوں میں فتنے پھیل گئے۔ جنگ جمل اور صفین سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت ہی کا نتیجہ تھی، جبکہ (خوارج کے خلاف) جنگ نہروان کا سبب جنگ صفین میں تحکیم والا معاملہ بنا۔ اس دور میں جو بھی لڑائی ہوئی بلاواسطہ یا بالواسطہ اس کا تعلق شہادت عثمان سے تھا۔ پھر سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت کا سب سے بڑا سبب آپ رضی اللہ عنہ کے گورنروں پر طعن اور خود آپ رضی اللہ عنہ پر ان گورنروں کی تقرری کے حوالے سے کی جانے والی تشنیع تھی۔ اس معاملے کا آغاز عراق ہی سے ہوا تھا۔ عراق (مدینہ منورہ کے) مشرق کی سمت میں واقع ہے۔ یوں اس حدیث اور آنے والی حدیث میں کوئی تعارض نہیں کہ فتنے کی سرزمین مشرق (عراق) ہی ہے۔ [فتح الباري: 13/13]
   ماہنامہ السنہ جہلم ، شمارہ نمبر 46-48، حدیث/صفحہ نمبر: 18   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3597  
3597. حضرت اسامہ بن زید ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ نبی کریم ﷺ نے مدینہ طیبہ کے محلات میں سے ایک اونچے محل پر چڑھ کر فرمایا: کیا تم وہ دیکھ رہے ہو جو میں دیکھ رہا ہوں؟میں تمہارے گھروں میں فتنوں کو ایسے کرتے دیکھ رہا ہوں جیسے بارش کی بوندیں گراکرتی ہیں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3597]
حدیث حاشیہ:
حضرت عثمان ؓ کی شہادت کے بعد جو فتنے برپاہوئے ان کی طرف یہ اشارہ ہے۔
ان فتنوں نے ایسا سر اٹھایا کہ آج تک ان کے تباہ کن اثرات باقی ہیں۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3597   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3597  
3597. حضرت اسامہ بن زید ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ نبی کریم ﷺ نے مدینہ طیبہ کے محلات میں سے ایک اونچے محل پر چڑھ کر فرمایا: کیا تم وہ دیکھ رہے ہو جو میں دیکھ رہا ہوں؟میں تمہارے گھروں میں فتنوں کو ایسے کرتے دیکھ رہا ہوں جیسے بارش کی بوندیں گراکرتی ہیں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3597]
حدیث حاشیہ:

جو قلعہ پتھروں سے بنایا جائے اسےأطم, کہتے ہیں جس کی جمع آطام ہے رسول اللہ ﷺ نے فتنوں کی کثرت کو بارش کی بوندوں سے تشبیہ دی یعنی تمھارے گھروں میں فتنے اس طرح برپا ہوں گے جیسے موسلادھار بارش برستی ہے۔
یہ فتنے سب لوگوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیں گے اور کوئی بھی ان سے محفوظ نہیں رہے گا۔
چنانچہ حضرت عثمان ؓ کی مظلومانہ شہادت کے بعد فتنے برپا ہوئے۔
مثلاً:
حرہ کا واقعہ یا مدینے کی دوسری جنگیں۔
ان فتنوں نے ایسی تباہی مچائی کہ آج تک ان کے تباہ کن اثرات بد باقی ہیں۔

اس حدیث سے ان جنگوں کی طرف اشارہ ہے جو صحابہ کرام ؓ کے درمیان برپا ہوئیں۔
واللہ أعلم۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3597