صحيح البخاري
كِتَاب الْمَنَاقِبِ -- کتاب: فضیلتوں کے بیان میں
25. بَابُ عَلاَمَاتِ النُّبُوَّةِ فِي الإِسْلاَمِ:
باب: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے معجزوں یعنی نبوت کی نشانیوں کا بیان۔
حدیث نمبر: 3613
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنَا أَزْهَرُ بْنُ سَعْدٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ عَوْنٍ، قَالَ: أَنْبَأَنِي مُوسَى بْنُ أَنَسٍ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ افْتَقَدَ ثَابِتَ بْنَ قَيْسٍ، فَقَالَ: رَجُلٌ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَنَا أَعْلَمُ لَكَ عِلْمَهُ فَأَتَاهُ فَوَجَدَهُ جَالِسًا فِي بَيْتِهِ مُنَكِّسًا رَأْسَهُ، فَقَالَ:" مَا شَأْنُكَ، فَقَالَ: شَرٌّ كَانَ يَرْفَعُ صَوْتَهُ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَدْ حَبِطَ عَمَلُهُ وَهُوَ مِنْ أَهْلِ الْأَرْضِ فَأَتَى الرَّجُلُ فَأَخْبَرَهُ أَنَّهُ، قَالَ: كَذَا وَكَذَا، فَقَالَ مُوسَى بْنُ أَنَسٍ: فَرَجَعَ الْمَرَّةَ الْآخِرَةَ بِبِشَارَةٍ عَظِيمَةٍ، فَقَالَ: اذْهَبْ إِلَيْهِ فَقُلْ لَهُ إِنَّكَ لَسْتَ مِنْ أَهْلِ النَّارِ وَلَكِنْ مِنْ أَهْلِ الْجَنَّةِ".
ہم سے علی بن عبداللہ نے بیان کیا، کہا ہم سے ازہر بن سعد نے بیان کیا، کہا ہم سے عبداللہ بن عون نے بیان کیا، انہیں موسیٰ بن انس نے خبر دی اور انہیں انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک دن ثابت بن قیس رضی اللہ عنہ نہیں ملے تو ایک صحابی نے کہا: یا رسول اللہ! میں آپ کے لیے ان کی خبر لاتا ہوں۔ چنانچہ وہ ان کے یہاں آئے تو دیکھا کہ اپنے گھر میں سر جھکائے بیٹھے ہیں، انہوں نے پوچھا کہ کیا حال ہے؟ انہوں نے کہا کہ برا حال ہے۔ ان کی عادت تھی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی اونچی آواز میں بولا کرتے تھے۔ انہوں نے کہا اسی لیے میرا عمل غارت ہو گیا اور میں دوزخیوں میں ہو گیا ہوں۔ وہ صحابی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اطلاع دی کہ ثابت رضی اللہ عنہ یوں کہہ رہے ہیں۔ موسیٰ بن انس نے بیان کیا، لیکن دوسری مرتبہ وہی صحابی ثابت رضی اللہ عنہ کے پاس ایک بڑی خوشخبری لے کر واپس ہوئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا تھا کہ ثابت کے پاس جاؤ اور اس سے کہو کہ وہ اہل جہنم میں سے نہیں ہیں بلکہ وہ اہل جنت میں سے ہیں۔
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3613  
3613. حضرت انس ؓسے روایت ہے، کہ نبی ﷺ نے حضرت ثابت بن قیس ؓ کو نہ پایا تو ایک شخص نے کہا: اللہ کے رسول اللہ ﷺ!میں آپ کو اس کی خبر لا کر دوں گا، چنانچہ وہ حضرت ثابت بن قیس ؓ کے پاس گیا تو اسے اپنے گھر میں سرنگوں پایا۔ اس نے پوچھا: تمھارا کیا حال ہے؟ حضرت ثابت بن قیس نے کہا: براحال ہے۔ یہ اپنی آواز کو نبی ﷺ کی آواز سے اونچا کرتا ہے، لہٰذا اس کا کیا دھراضائع ہو گیا اور وہ دوزخیوں سے ہے۔ وہ شخص واپس آیا اور آپ ﷺ کو حقیقت حال سے آگاہ کیا کہ اس نے ایسا کہا: پھر وہ شخص دوسری مرتبہ بڑی بشارت لے کر گیا کہ آپ ﷺ نے فرمایا: اس(ثابت)کے پاس جاؤ اور اسے کہو کہ تم دوزخیوں میں سے نہیں ہو بلکہ جنتی ہو۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3613]
حدیث حاشیہ:
ثابت بن قیس بن شماس ؓ مشہور صحابی ہیں۔
آنحضرت ﷺ کے سچے جان نثاروں میں سے تھے۔
بعض افراد کی بلند آواز سے بات کرنے کی عادت ہوتی ہے۔
ثابت کی ایسی ہی عادت تھی، اس کی مطابقت ترجمہ باب سے یوں ہے کہ جیسی آنحضرت ﷺ نے ثابت ؓ کو بشارت دی وہ سچی ہوئی۔
ثابت جنگ یمامہ میں شہید ہوکر درجہ شہادت کو پہنچے۔
رضي اللہ عنه و أرضاہ۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3613   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3613  
3613. حضرت انس ؓسے روایت ہے، کہ نبی ﷺ نے حضرت ثابت بن قیس ؓ کو نہ پایا تو ایک شخص نے کہا: اللہ کے رسول اللہ ﷺ!میں آپ کو اس کی خبر لا کر دوں گا، چنانچہ وہ حضرت ثابت بن قیس ؓ کے پاس گیا تو اسے اپنے گھر میں سرنگوں پایا۔ اس نے پوچھا: تمھارا کیا حال ہے؟ حضرت ثابت بن قیس نے کہا: براحال ہے۔ یہ اپنی آواز کو نبی ﷺ کی آواز سے اونچا کرتا ہے، لہٰذا اس کا کیا دھراضائع ہو گیا اور وہ دوزخیوں سے ہے۔ وہ شخص واپس آیا اور آپ ﷺ کو حقیقت حال سے آگاہ کیا کہ اس نے ایسا کہا: پھر وہ شخص دوسری مرتبہ بڑی بشارت لے کر گیا کہ آپ ﷺ نے فرمایا: اس(ثابت)کے پاس جاؤ اور اسے کہو کہ تم دوزخیوں میں سے نہیں ہو بلکہ جنتی ہو۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3613]
حدیث حاشیہ:

حضرت ثابت بن قیس ؓطبعی طور پر بلند آواز سے گفتگو کرتے تھے۔
لیکن جب یہ آیت کریمہ نازل ہوئی:
﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَرْفَعُوا أَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِيِّ وَلَا تَجْهَرُوا لَهُ بِالْقَوْلِ كَجَهْرِ بَعْضِكُمْ لِبَعْضٍ أَن تَحْبَطَ أَعْمَالُكُمْ وَأَنتُمْ لَا تَشْعُرُونَ﴾ اے ایمان والو!تم اپنی آوازیں نبی کی آواز سے بلند نہ کرو اور نہ ان کے سامنے اس طرح اونچی آواز سے بولو جیسے تم ایک دوسرے سے بولتے ہو کہیں ایسا نہ ہو کہ تمھارے عمل برباد ہو جائیں۔
اور تمھیں شعور بھی نہ ہو۔
(الحجرات: 2/49)
اس آیت کے نازل ہونے کے بعد حضرت ثابت ؓ اپنے گھر میں بیٹھ گئے اور رسول اللہ ﷺ کی مجلس میں آنے سے رک گئے جیسا کہ مذکورہ حدیث میں ہے۔

امام بخاری ؒ نے اس حدیث کو علامات نبوت میں بیان کیا ہے دراصل ان کی غرض ایک دوسری حدیث کے ملانے سے پوری ہوتی ہے کہ حضرت ثابت جنگ یمامہ میں کفار سے لڑنے کے لیے تیاری کر رہے تھے اپنے بدن کو تیل کی مالش کی اور میدان کا رزار میں کود پڑے اور جام شہادت نوش فرمایا۔
(صحیح البخاري، الجهاد، حدیث: 2845)
گویا اس حدیث کا مصداق جنگ یمامہ میں ظاہر ہوا۔
شاید امام بخاری ؒ نے اس حدیث کی طرف اشارہ کیا ہو لیکن ہمارا رجحان یہ ہے کہ امام بخاری ؒ نے حدیث کے ایک طریق کی طرف اشارہ فرمایا ہے۔
رسول اللہ ﷺ نے حضرت ثابت بن قیس ؓ کو فرمایا تھا کہ کیا تجھے یہ بات پسند نہیں کہ تم نیک بخت بن کر زندگی گزارو۔
پھر شہید ہو کر جنت میں داخل ہو جاؤ چنانچہ وہ جنگ یمامہ میں شہید ہو کر مذکورہ حدیث کا مصداق بنے۔

حضرت انس ؓ فرمایا کرتے تھے کہ ہم انھیں دنیامیں چلتا پھر تا جنتی خیال کرتے تھے۔
(فتح الباري: 759/6)

یہ حدیث نبوت کی دلیل ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے جو فرمایا اسی طرح ہوا۔
واللہ أعلم۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3613