صحيح البخاري
كِتَاب الْمَنَاقِبِ -- کتاب: فضیلتوں کے بیان میں
25. بَابُ عَلاَمَاتِ النُّبُوَّةِ فِي الإِسْلاَمِ:
باب: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے معجزوں یعنی نبوت کی نشانیوں کا بیان۔
حدیث نمبر: 3616
حَدَّثَنَا مُعَلَّى بْنُ أَسَدٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ مُخْتَارٍ، حَدَّثَنَا خَالِدٌ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ دَخَلَ عَلَى أَعْرَابِيٍّ يَعُودُهُ، قَالَ: وَكَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا دَخَلَ عَلَى مَرِيضٍ يَعُودُهُ، قَالَ:" لَا بَأْسَ طَهُورٌ إِنْ شَاءَ اللَّهُ، فَقَالَ لَهُ: لَا بَأْسَ طَهُورٌ إِنْ شَاءَ اللَّهُ، قَالَ: قُلْتُ: طَهُورٌ كَلَّا بَلْ هِيَ حُمَّى تَفُورُ أَوْ تَثُورُ عَلَى شَيْخٍ كَبِيرٍ تُزِيرُهُ الْقُبُورَ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَنَعَمْ إِذًا".
ہم سے معلی بن اسد نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالعزیز بن مختار نے بیان کیا، کہا ہم سے خالد نے بیان کیا، ان سے عکرمہ نے اور ان سے عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک اعرابی کی عیادت کے لیے تشریف لے گئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جب بھی کسی مریض کی عیادت کے لیے تشریف لے جاتے تو فرماتے کوئی حرج نہیں، ان شاءاللہ یہ بخار گناہوں کو دھو دے گا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس اعرابی سے بھی یہی فرمایا کہ کوئی حرج نہیں ان شاءاللہ (یہ بخار) گناہوں کو دھو دے گا۔ اس نے اس پر کہا: آپ کہتے ہیں گناہوں کو دھونے والا ہے۔ ہرگز نہیں۔ یہ تو نہایت شدید قسم کا بخار ہے یا (راوی نے) «تثور» کہا (دونوں کا مفہوم ایک ہی ہے) کہ بخار ایک بوڑھے کھوسٹ پر جوش مار رہا ہے جو قبر کی زیارت کرائے بغیر نہیں چھوڑے گا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اچھا تو پھر یوں ہی ہو گا۔
  الشيخ محمد حسين ميمن حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 3616  
´نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے معجزوں یعنی نبوت کی نشانیوں کا بیان`
«. . . عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ دَخَلَ عَلَى أَعْرَابِيٍّ يَعُودُهُ، قَالَ: وَكَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا دَخَلَ عَلَى مَرِيضٍ يَعُودُهُ، قَالَ:" لَا بَأْسَ طَهُورٌ إِنْ شَاءَ اللَّهُ، فَقَالَ لَهُ: لَا بَأْسَ طَهُورٌ إِنْ شَاءَ اللَّهُ، قَالَ: قُلْتُ: طَهُورٌ كَلَّا بَلْ هِيَ حُمَّى تَفُورُ أَوْ تَثُورُ عَلَى شَيْخٍ كَبِيرٍ تُزِيرُهُ الْقُبُورَ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَنَعَمْ إِذًا . . .»
. . . عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک اعرابی کی عیادت کے لیے تشریف لے گئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جب بھی کسی مریض کی عیادت کے لیے تشریف لے جاتے تو فرماتے کوئی حرج نہیں، ان شاءاللہ یہ بخار گناہوں کو دھو دے گا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس اعرابی سے بھی یہی فرمایا کہ کوئی حرج نہیں ان شاءاللہ (یہ بخار) گناہوں کو دھو دے گا۔ اس نے اس پر کہا: آپ کہتے ہیں گناہوں کو دھونے والا ہے۔ ہرگز نہیں۔ یہ تو نہایت شدید قسم کا بخار ہے یا (راوی نے) «تثور» کہا (دونوں کا مفہوم ایک ہی ہے) کہ بخار ایک بوڑھے کھوسٹ پر جوش مار رہا ہے جو قبر کی زیارت کرائے بغیر نہیں چھوڑے گا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اچھا تو پھر یوں ہی ہو گا۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْمَنَاقِبِ: 3616]

باب اور حدیث میں مناسبت
صحیح بخاری کا باب: «بَابُ عَلاَمَاتِ النُّبُوَّةِ فِي الإِسْلاَمِ:»
امام بخاری رحمہ اللہ نے ترجمۃ الباب میں علامات نبوت پر اشارہ فرمایا اور نبوت کے دلائل پر روشنی ڈالی، مگر حدیث جو پیش فرمائی اس میں بظاہر کوئی بھی ایسی نبوت کی خاص نشانی نظر نہیں آتی جس حدیث کا ترجمتہ الباب سے تعلق بنتا ہو، ترجمتہ الباب اور حدیث میں مناسبت دیتے ہوئے حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«وجه دخوله فى هذا الباب: اٴن فى بعض طرقة زيادة تقتضي ايراده فى علامات النبوة، وهى قوله صلى الله عليه وسلم اما اذا أبيت فهي كما تقول، قضاء (الله) كائن فما أمسي من الغد ألا ميتا وبهذه الزيادة يظهر دخول هذا الحديث فى هذا الباب .» [فتح الباري لابن حجر: 521/7]
یعنی ترجمۃ الباب کی حدیث سے مناسبت اس طرح ہے کہ اس کے بعد طرق میں علامات نبوت کی نشانی ہے۔ (اس کا بعض طرق) جیسے طبرانی نے روایت کیا ہے، ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے، جس کے آخری الفاظ یوں ہیں، «فما أمسي من الغد الا ميتا» پس وہ دوسرے روز مر گیا۔ لہٰذا ایسا ہی ہوا، جیسا کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا، لہٰذا یہی سے ترجمہ الباب اور حدیث میں مناسبت ہو گی۔
علامہ عینی رحمہ اللہ نے فرمایا:
«مطابقة للترجمة تؤخذ من قوله: فنعم اذا فذالك من حيث ان الاعرابي لما رد على النبى صلى الله عليه وسلم قوله: لا بأس طهور ان شاءالله مات على وفق ما قاله صلى الله عليه وسلم، وهذا معجزاته صلى الله عليه وسلم .» [عمدة القاري للعيني: 149/16]
ترجمۃ الباب اور حدیث میں ان الفاظ سے مطابقت لی جائے گی، اچھا تو پھر یوں ہی ہو گا، جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اعرابی سے فرمایا، «لا باس طهور انشاءالله» تو اس نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس جملے کا رد کیا تو پھر وہ اسی طرح سے مرا جس طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے کہا تھا اور یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا معجزہ تھا، (اس کی موت کی پیشن گوئی کا)۔
علامہ عینی رحمہ اللہ کے مطابق باب اور حدیث میں مناسبت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشن گوئی کی وجہ سے ہوتی ہے، کیونکہ پیشن گوئی کرنا یہ نبی کا معجزہ ہوتا ہے اور ترجمۃ الباب میں بھی امام بخاری رحمہ اللہ نے اسی چیز کو ظاہر فرمایا ہے۔
   عون الباری فی مناسبات تراجم البخاری ، جلد دوئم، حدیث/صفحہ نمبر: 37   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3616  
3616. حضرت ابن عباس ؓسے روایت ہے کہ نبی ﷺ ایک اعرابی(دیہاتی)کی عبادت کے لیے تشریف لے گئے۔ نبی ﷺ کی عادت مبارک تھی کہ جب کسی مریض کی بیمارپرسی کرتے تو اس طرح دعا کرتے: لا بأس طهور إن شاء الله کوئی حرج نہیں، إن شاء اللہ پاکیزگی کا باعث ہوگا۔ لہٰذا آپ نے اس اعرابی سے بھی یہی کہا: کوئی حرج نہیں، اگر اللہ نے چاہا تو یہ گناہوں کی معافی کا سبب ہوگا۔ اس نے کہا: آپ کہتے ہیں کہ یہ بیماری گناہوں سے پاک کردےگی؟ ہر گز نہیں، بلکہ یہ تو ایک سخت بخار ہے جو ایک بوڑھے کو اپنی لپیٹ میں لیے ہوئے ہے اور اسے قبر میں لے جائے گا۔ نبی ﷺ نے فرمایا: ہاں، اب ایسا ہی ہوگا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3616]
حدیث حاشیہ:
یعنی تو اس بیماری سے مرجائے گا، حضرت امام بخاری ؒ نے اس حدیث کو لاکر اس کے دوسرے طریق کی طرف اشارہ کیا جس کو طبرانی نے نکالا۔
، اس میں یہ ہے کہ دوسرے روز وہ مرگیا۔
جیسا کہ آپ نے فرمایا تھا ویسا ہی ہوا۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3616   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3616  
3616. حضرت ابن عباس ؓسے روایت ہے کہ نبی ﷺ ایک اعرابی(دیہاتی)کی عبادت کے لیے تشریف لے گئے۔ نبی ﷺ کی عادت مبارک تھی کہ جب کسی مریض کی بیمارپرسی کرتے تو اس طرح دعا کرتے: لا بأس طهور إن شاء الله کوئی حرج نہیں، إن شاء اللہ پاکیزگی کا باعث ہوگا۔ لہٰذا آپ نے اس اعرابی سے بھی یہی کہا: کوئی حرج نہیں، اگر اللہ نے چاہا تو یہ گناہوں کی معافی کا سبب ہوگا۔ اس نے کہا: آپ کہتے ہیں کہ یہ بیماری گناہوں سے پاک کردےگی؟ ہر گز نہیں، بلکہ یہ تو ایک سخت بخار ہے جو ایک بوڑھے کو اپنی لپیٹ میں لیے ہوئے ہے اور اسے قبر میں لے جائے گا۔ نبی ﷺ نے فرمایا: ہاں، اب ایسا ہی ہوگا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3616]
حدیث حاشیہ:

اس اعرابی نے رسول اللہ ﷺ کی بات کو مسترد کرتے ہوئے کہا:
یہ بخار تو اسے قبر تک پہنچائے گا۔
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
ہاں اب ایسا ہی ہو گا چنانچہ آپ کے ارشاد کے مطابق وہ اسی بخارسے فوت ہو گیا۔
امام بخاری ؒنے اس حدیث سے ایک دوسری روایت کی طرف اشارہ کیا ہے کہ وہ اعرابی دوسرے دن مر گیا جیسا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تھا۔
"(المعجم الکبیر للطبراني: 306/7)

رسول اللہ ﷺ کا معجزہ اور نبوت کی دلیل ہے کہ جیسا آپ نے فرمایا ویسا ہی ہوا۔

اس اعرابی کا نام قیس تھا۔
واللہ أعلم۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3616