صحيح البخاري
كِتَاب فَضَائِلِ الصحابة -- کتاب: نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب کی فضیلت
5. بَابُ قَوْلِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لَوْ كُنْتُ مُتَّخِذًا خَلِيلاً»:
باب: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمانا کہ اگر میں کسی کو جانی دوست بناتا تو ابوبکر کو بناتا۔
حدیث نمبر: 3657
حَدَّثَنَا مُعَلَّى بْنُ أَسَدٍ , وَمُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ التَّبُوذَكِيُّ , قَالَا: حَدَّثَنَا وُهَيْبٌ، عَنْ أَيُّوبَ، وَقَالَ:" لَوْ كُنْتُ مُتَّخِذًا خَلِيلًا لَاتَّخَذْتُهُ خَلِيلًا وَلَكِنْ أُخُوَّةُ الْإِسْلَامِ أَفْضَلُ" حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَهَّابِ، عَنْ أَيُّوبَ مِثْلَهُ.
‏‏‏‏ ہم سے معلیٰ بن اسد اور موسیٰ نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے وہیب نے بیان کیا، ان سے ایوب نے (یہی روایت) کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر میں کسی کو جانی دوست بنا سکتا تو ابوبکر کو بناتا۔ لیکن اسلام کا بھائی چارہ کیا کم ہے۔ ہم سے قتیبہ نے بیان کیا، ان سے عبدالوہاب نے اور ان سے ایوب نے ایسی ہی حدیث بیان کی۔
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3657  
3657. ایوب سے روایت ہے (انھوں نے عکرمہ سے انھوں نے ابن عباس ؓ سے انھوں نے رسول اللہ ﷺ سے بیان کیا) اگر میں کسی کو خلیل بناتا تو ضرور ابو بکر ؓ کو بناتا لیکن اخوت اسلام افضل ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3657]
حدیث حاشیہ:

امام بخاری ؒ نے حضرت ابن عباس ؓ سے مروی اس حدیث کو تین مختلف طرق سے معمولی سی تبدیلی کے ساتھ بیان کیا ہے۔

رسول اللہ ﷺ نے جس خلت کی نفی کی ہے اس میں حاجت کے معنی ہیں،یعنی اگرمیں تمام حاجات میں کسی کو اپنا مرجع اور جملہ مہماتِ امور میں کسی پر کلی اعتماد کرتا تو حضرت ابوبکر کو یہ استحقاق دیتا لیکن تمام امور میں میرا ملجا وماویٰ اور جس پر مجھے مکمل اعتماد ہے وہ صرف اللہ کی ذات گرامی ہے،البتہ ابوبکر میرا اسلامی بھائی ہے اور اخوتِ اسلام ہی افضل ہے۔
اس طرح اس کے لیے یہ اعزاز ہی کافی ہے کہ وہ میرا یارغار ہے۔
(عمدة القاري: 389/11)

حضرت ابی بن کعب ؓ سے روایت ہےانھوں نے کہا:
میں رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں آپ کی وفات سے پانچ دن پہلے حاضر ہوا تو آپ نے فرمایا:
ہر نبی کا کوئی نہ کوئی خلیل تھا میرا خلیل ابوبکر ہے۔
اسے اللہ تعالیٰ نے میر اخلیل بنایا ہے۔
جیسا کہ اس نے حضرت ابراہیم ؑ کو اپنا خلیل بنایا۔
(المعجم الکبیر الطبرانی: 201/8۔
رقم: 7816 و سلسلة الأحادیث الضعیفة والموضوعة، رقم: 3035)

یہ روایت حضرت جندب سے مروی ایک حدیث کے مخالف ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنی وفات سے پانچ دن پہلے فرمایا:
میں اللہ کے لیے اس امر سے بری ہوں کہ تم میں سے کوئی میرا خلیل ہو۔
(صحیح مسلم، المساجد، حدیث: 1188(532)
حافظ ابن حجر ؒ لکھتے ہیں:
اگر حضرت ابی بن کعب ؓ سے مروی حدیث ثابت ہے تو ان میں جمع کی صورت اس طرح ممکن ہے کہ جب رسول اللہ ﷺ نے اپنے رب کے حضور اپنی انتہائی تواضع کا اظہار کیا تو اللہ تعالیٰ نے حضرت ابوبکر ؓ کی تکریم کے لیے اس وقت آپ کو اجازت دے دی۔
(فتح الباری: 29/7)
بہرحال حضرت ابی بن کعب ؓ سے مروی حدیث کو صحیح بخاری ؒ کی حدیث کے مقابلے میں پیش نہیں کیا جاسکتا کیونکہ وہ اس قابل نہیں ہے۔
(عمدة القاري: 392/11)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3657