صحيح البخاري
كِتَاب فَضَائِلِ الصحابة -- کتاب: نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب کی فضیلت
5. بَابُ قَوْلِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لَوْ كُنْتُ مُتَّخِذًا خَلِيلاً»:
باب: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمانا کہ اگر میں کسی کو جانی دوست بناتا تو ابوبکر کو بناتا۔
حدیث نمبر: 3659
حَدَّثَنَا الْحُمَيْدِيُّ , وَمُحَمَّدُ بْنُ عُبَيْدِ اللَّهِ، قَالَا: حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ سَعْدٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ جُبَيْرِ بْنِ مُطْعِمٍ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: أَتَتِ امْرَأَةٌ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَمَرَهَا أَنْ تَرْجِعَ إِلَيْهِ، قَالَتْ: أَرَأَيْتَ إِنْ جِئْتُ وَلَمْ أَجِدْكَ كَأَنَّهَا تَقُولُ الْمَوْتَ، قَالَ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِنْ لَمْ تَجِدِينِي فَأْتِي أَبَا بَكْرٍ".
ہم سے حمیدی اور محمد بن عبداللہ نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے ابراہیم بن سعد نے بیان کیا، ان سے ان کے والد نے، ان سے محمد بن جبیر بن مطعم نے اور ان سے ان کے والد نے بیان کیا کہ ایک عورت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا کہ پھر آنا۔ اس نے کہا: اگر میں آؤں اور آپ کو نہ پاؤں تو؟ گویا وہ وفات کی طرف اشارہ کر رہی تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر تم مجھے نہ پا سکو تو ابوبکر کے پاس چلی آنا۔
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 3676  
´باب`
جبیر بن مطعم رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک عورت نے آ کر کسی مسئلہ میں آپ سے بات کی اور آپ نے اسے کسی بات کا حکم دیا تو وہ بولی: مجھے بتائیے اللہ کے رسول! اگر میں آپ کو نہ پاؤں؟ (تو کس کے پاس جاؤں) آپ نے فرمایا: اگر تم مجھے نہ پانا تو ابوبکر کے پاس جانا ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب المناقب/حدیث: 3676]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
اس میں آپﷺ کے بعد آپ کے جانشین ابوبکر رضی اللہ عنہ کے ہونے کی پیشین گوئی،
اور ان کو اپنا جانشین بنانے کا لوگوں کو اشارہ ہے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 3676   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3659  
3659. حضرت جبیر بن معطم ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ ایک عورت نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئی تو آپ نے اس سے فرمایا کہ وہ پھر آئے۔ اس نے عرض کیا: اگر میں آؤں اور آپ کو نہ پاؤں، اس کی مراد آپ کی وفات تھی، تو آپ ﷺ نے فرمایا: اگر تو مجھے نہ پائے تو ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس چلی جانا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3659]
حدیث حاشیہ:
اس حدیث سے یہ نکلتا ہے کہ آپ کو بذریعہ وحی معلوم ہوچکا تھا کہ آپ کے بعد حضرت ابوبکر ؓ آپ کے خلیفہ ہوں گے۔
طبرانی نے عصمہ بن مالک سے نکالا۔
ہم نے عرض کیا یا رسول اللہ! آپ کے بعد اپنے مالوں کی زکاۃ کس کو دیں؟ آپ نے فرمایا:
ابوبکر ؓ کو دینا، اس کی سند ضعیف ہے، معجم میں سہل بن ابی خیثمہ سے نکالا کہ آپ سے ایک گنوار نے بیعت کی اور پوچھا کہ اگر آپ کی وفات ہوجائے تومیں کس کے پاس آؤں؟ فرمایا ابوبکر کے پاس۔
اس نے کہا اگر وہ مرجائیں تو پھر کس کے پاس؟ فرمایا حضرت عمر ؓ کے پاس۔
ان روایتوں سے شیعوں کا رد ہوتا ہے جو کہتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ اپنے بعد علی ؓ کو خلیفہ مقرر کرگئے تھے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3659   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3659  
3659. حضرت جبیر بن معطم ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ ایک عورت نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئی تو آپ نے اس سے فرمایا کہ وہ پھر آئے۔ اس نے عرض کیا: اگر میں آؤں اور آپ کو نہ پاؤں، اس کی مراد آپ کی وفات تھی، تو آپ ﷺ نے فرمایا: اگر تو مجھے نہ پائے تو ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس چلی جانا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3659]
حدیث حاشیہ:

اس حدیث سے رسول اللہ ﷺ کی وفات کے بعد حضرت ابو بکر ؓ کے خلیفہ ہونے کا واضح اشارہ ملتا ہے۔
حضرت عمر ؓ سے کہا گیا کہ آپ کسی کو خلیفہ نامزد کردیں تو انھوں نے فرمایا:
رسول اللہ ﷺ نے کسی کو خلیفہ نامزد نہیں کیا تھا ان کا یہ کہنا مذکورہ روایت کے منافی نہیں کیونکہ حضرت عمر ؓ کے کہنے کا مطلب یہ تھا کہ رسول اللہ ﷺ نے صراحت کے ساتھ کسی کی نامزد گی نہیں کی یہ اشارے کے منافی نہیں ہے۔
البتہ طبرانی میں ہے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین نے عرض کی:
اللہ کے رسول اللہ ﷺ! آپ کے بعد ہم اپنے اموال کے صدقات کس کے حوالے کریں؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا:
میرے بعد اپنے صدقات ابوبکر کو ادا کرنا۔
اس روایت میں کچھ صراحت ہے لیکن اس کی سند انتہائی کمزور ہے۔
(فتح الباري: 7/31)

اس حدیث میں ان شیعہ حضرات کی تردید ہے جو دعوی کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت علی ؓ، اور حضرت عباس ؓ کو خلیفہ بنانے کی وصیت کی تھی۔

واضح رہے کہ امام بخاری ؒ دو طرح کے عنوان قائم کرتے ہیں ایک تو بنیادی توعیت کے ہیں جیسا کہ ان احادیث پر آپ نے حضرت ابو بکر ؓ کی فضیلت کا عنوان قائم کیا ہے لیکن بعض دفعہ پیش کردہ احادیث میں بنیاد ی مسئلے کے علاوہ کوئی اضافی فائدہ بھی ہوتا ہے اس لیے اس کی اہمیت کے پیش نظر ایک الگ اضافی عنوان قائم کر دیتے ہیں جیسا کہ سابقہ احادیث پر ایک عنوان:
(باب قول النبي صلى الله عليه وسلم لو كنت متخذا خليلا)
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد گرامی:
اگراللہ کے سوا میں کسی کو خلیل بنانا تو ابو بکر کو بناتا قائم کیا ہے یہ وضاحت اس لیے ضرروی کہ پیش کردہ مذکورہ حدیث کی اضافی عنوان سے کوئی مطابقت نہیں بلکہ اس کی بنیادی عنوان سے مطابقت ہے۔
واللہ أعلم۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3659