صحيح البخاري
كِتَاب فَضَائِلِ الصحابة -- کتاب: نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب کی فضیلت
5. بَابُ قَوْلِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لَوْ كُنْتُ مُتَّخِذًا خَلِيلاً»:
باب: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمانا کہ اگر میں کسی کو جانی دوست بناتا تو ابوبکر کو بناتا۔
حدیث نمبر: 3662
حَدَّثَنَا مُعَلَّى بْنُ أَسَدٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ الْمُخْتَارِ، قَالَ: خَالِدٌ الْحَذَّاءُ حَدَّثَنَا، عَنْ أَبِي عُثْمَانَ، قَالَ: حَدَّثَنِي عَمْرُو بْنُ الْعَاصِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَعَثَهُ عَلَى جَيْشِ ذَاتِ السُّلَاسِلِ فَأَتَيْتُهُ، فَقُلْتُ: أَيُّ النَّاسِ أَحَبُّ إِلَيْكَ؟ قَالَ:" عَائِشَةُ"، فَقُلْتُ: مِنَ الرِّجَالِ، فَقَالَ:" أَبُوهَا"، قُلْتُ: ثُمَّ مَنْ، قَالَ:" ثُمَّ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ" , فَعَدَّ رِجَالًا.
ہم سے معلی بن اسد نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالعزیز بن مختار نے بیان کیا، کہا ہم سے خالد حذاء نے، کہا ہم سے ابوعثمان نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں غزوہ ذات السلاسل کے لیے بھیجا (عمرو رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ) پھر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور میں نے پوچھا کہ سب سے زیادہ محبت آپ کو کس سے ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ عائشہ سے میں نے پوچھا، اور مردوں میں؟ فرمایا کہ اس کے باپ سے۔ میں نے پوچھا، اس کے بعد؟ فرمایا کہ عمر بن خطاب سے۔ اس طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کئی آدمیوں کے نام لیے۔
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 3885  
´ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کی فضیلت کا بیان`
عمرو بن العاص رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں لشکر ذات السلاسل کا امیر مقرر کیا، وہ کہتے ہیں: تو میں آپ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا: اللہ کے رسول! لوگوں میں آپ کو سب سے زیادہ محبوب کون ہے؟ آپ نے فرمایا: عائشہ، میں نے پوچھا: مردوں میں کون ہے؟ آپ نے فرمایا: ان کے باپ ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب المناقب/حدیث: 3885]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
پیچھے فاطمہ رضی اللہ عنہا کے مناقب میں گزرا ہے کہ عورتوں میں فاطمہ اورمردوں میں ان کے شوہرعلی اللہ کے رسول ﷺ کو زیادہ محبوب تھے،
لیکن وہ حدیث ضعیف منکر ہے،
اور یہ حدیث صحیح ہے،
اور دونوں عورتوں اور دونوں مردوں کے اللہ کے رسول ﷺکے زیادہ محبوب ہونے میں تضاد ہی کیا ہے،
یہ سب سے زیادہ محبوب تھے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 3885   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3662  
3662. حضرت عمرو بن عاص ؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے انھیں غزوہ ذات السلاسل میں امیر بنا کر بھیجا تھا۔ وہ کہتے ہیں کہ میں (واپس) آپ کے پاس آیا تو میں نے عرض کیا: سب لوگوں میں کون شخص آپ کو زیادہ محبوب ہے؟ آپ نے فرمایا: عائشہ ؓ۔ میں نے عرض کیا: مردوں میں سے کون؟ آپ نے فرمایا: ان کے والد گرامی۔ میں نے پوچھا: پھر کون؟ آپ نے فرمایا: پھر عمر بن خطاب ؓ ۔ اسی طرح درجہ بدرجہ آپ نے کئی آدمیوں کے نام لیے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3662]
حدیث حاشیہ:

ایک روایت کے آخر میں ہے حضرت عمرو بن عاص ؓ کہتے ہیں اس کے بعد میں خاموش ہو گیا کہیں ایسا نہ ہو کہ مجھے سب سے آخر میں ذکر کریں۔
(صحیح البخاري، المغازی، حدیث: 4358)

غزوہ ذات السلاسل 7ہجری میں ہوا۔
اس غزوے میں کفار نے اپنے آپ کو زنجیروں سے باندھ رکھا تھا تاکہ وہ اجتماعی طور پر فرارنہ اختیار کر سکیں۔
مسلمانوں کے لشکر کی کمان حضرت عمرو بن عاص ؓ کر رہے تھے۔
ان میں حضرت ابو بکر ؓ اور حضرت عمر ؓ بھی موجود تھے۔
اس بنا پر حضرت عمرو بن عاص ؓ کے دل میں خیال پیدا ہوا کہ شاید وہ ان سب سے افضل ہیں اس لیے انھیں امیر بنایا گیا ہے۔
اسی لیے انھوں نے مذکورہ سوالات کیے۔

اس حدیث سے معلوم ہوا کہ ابو بکر ؓ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بہت محبوب تھے نیز یہ بھی معلوم ہوا کہ جس دستے میں افضل لوگ موجود ہوں۔
ان پر کسی مصلحت کے پیش نظر مفضول کو امیر بنایا جا سکتا ہے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3662