صحيح البخاري
كِتَاب فَضَائِلِ الصحابة -- کتاب: نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب کی فضیلت
6. بَابُ مَنَاقِبُ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ أَبِي حَفْصٍ الْقُرَشِيِّ الْعَدَوِيِّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ:
باب: ابوحفص عمر بن خطاب قرشی عدوی رضی اللہ عنہ کی فضیلت کا بیان۔
حدیث نمبر: 3690
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، حَدَّثَنَا عُقَيْلٌ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ , وَأَبِي سَلَمَةَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ , قَالَا:سَمِعْنَا أَبَا هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" بَيْنَمَا رَاعٍ فِي غَنَمِهِ عَدَا الذِّئْبُ فَأَخَذَ مِنْهَا شَاةً فَطَلَبَهَا حَتَّى اسْتَنْقَذَهَا فَالْتَفَتَ إِلَيْهِ الذِّئْبُ، فَقَالَ لَهُ: مَنْ لَهَا يَوْمَ السَّبُعِ لَيْسَ لَهَا رَاعٍ غَيْرِي"، فَقَالَ النَّاسُ: سُبْحَانَ اللَّهِ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" فَإِنِّي أُومِنُ بِهِ وَأَبُو بَكْرٍ , وَعُمَرُ وَمَا ثَمَّ أَبُو بَكْرٍ وَعُمَرُ".
ہم سے عبداللہ بن یوسف تنیسی نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے لیث نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے عقیل نے بیان کیا، ان سے ابن شہاب نے، ان سے سعید بن مسیب اور ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن نے بیان کیا کہ ہم نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے سنا، وہ بیان کرتے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ایک چرواہا اپنی بکریاں چرا رہا تھا کہ ایک بھیڑئیے نے اس کی ایک بکری پکڑ لی۔ چرواہے نے اس کا پیچھا کیا اور بکری کو اس سے چھڑا لیا۔ پھر بھیڑیا اس کی طرف متوجہ ہو کر بولا: درندوں کے دن اس کی حفاظت کرنے والا کون ہو گا؟ جب میرے سوا اس کا کوئی چرواہا نہ ہو گا۔ صحابہ رضی اللہ عنہم اس پر بول اٹھے: سبحان اللہ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں اس واقعہ پر ایمان لایا اور ابوبکر و عمر (رضی اللہ عنہما) بھی۔ حالانکہ وہاں ابوبکر و عمر (رضی اللہ عنہما) موجود نہیں تھے۔
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 3677  
´باب`
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس دوران کہ ایک شخص ایک گائے پر سوار تھا اچانک وہ گائے بول پڑی کہ میں اس کے لیے نہیں پیدا کی گئی ہوں، میں تو کھیت جوتنے کے لیے پیدا کی گئی ہوں (یہ کہہ کر) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میرا اس پر ایمان ہے اور ابوبکر و عمر کا بھی، ابوسلمہ کہتے ہیں: حالانکہ وہ دونوں اس دن وہاں لوگوں میں موجود نہیں تھے، واللہ اعلم ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب المناقب/حدیث: 3677]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
اللہ کے رسول ﷺ کو ان دونوں کے سلسلہ میں اتنا مضبوط یقین تھا کہ جو میں کہوں گا وہ دونوں اس پر آمَنَّا وَصَدَّقنَا کہیں گے،
اسی لیے ان کے غیر موجودگی میں بھی آپ نے ان کی طرف سے تصدیق کر دی،
یہ ان کی فضیلت کی دلیل ہے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 3677   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3690  
3690. حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ایک چرواہا اپنی بکریاں چرارہا تھا کہ ایک بھیڑیے نے حملہ کر کے ان میں سے ایک بکری قابو کر لی۔ چرواہے نے اس کا پیچھا کیا اس سے بکری چھڑالی تو بھیڑیا اس کی طرف متوجہ ہو کر کہنے لگا: درندوں کے دن ان کی حفاظت کون کرے گا؟جبکہ میرے علاوہ ان کو چرانے والا کوئی نہیں ہو گا۔ لوگوں نے کہا: سبحان اللہ (بھیڑیا باتیں کرتا ہے)۔ نبی ﷺ نے فرمایا: میں اس کی تصدیق کرتا ہوں اور ابوبکرو عمر ؓبھی اس کی تصدیق کرتے ہیں۔ حالانکہ ابو بکر و عمر ؓ وہاں موجود نہ تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3690]
حدیث حاشیہ:
یہ حدیث اوپر گزرچکی ہے۔
اس میں گائے کا بھی ذکر تھا، ا س سے بھی حضرات شیخین کی فضیلت ثابت ہوئی۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3690   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3690  
3690. حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ایک چرواہا اپنی بکریاں چرارہا تھا کہ ایک بھیڑیے نے حملہ کر کے ان میں سے ایک بکری قابو کر لی۔ چرواہے نے اس کا پیچھا کیا اس سے بکری چھڑالی تو بھیڑیا اس کی طرف متوجہ ہو کر کہنے لگا: درندوں کے دن ان کی حفاظت کون کرے گا؟جبکہ میرے علاوہ ان کو چرانے والا کوئی نہیں ہو گا۔ لوگوں نے کہا: سبحان اللہ (بھیڑیا باتیں کرتا ہے)۔ نبی ﷺ نے فرمایا: میں اس کی تصدیق کرتا ہوں اور ابوبکرو عمر ؓبھی اس کی تصدیق کرتے ہیں۔ حالانکہ ابو بکر و عمر ؓ وہاں موجود نہ تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3690]
حدیث حاشیہ:

درندوں کے دن سے مراد فتنوں کا دور ہے جب لوگ ان کی وجہ سے اپنے مال مویشی سے غافل ہوں گے۔

بعض لوگوں کے نزدیک سبع کے معنی مہمل ہیں،چنانچہ جب بکریوں کو مہمل چھوڑدیا جائے گا جو کوئی چاہے انھیں پکڑ لے لیکن پہلا معنی زیادہ واضح اور ظاہر ہے۔

رسول اللہ ﷺ نے شیخین کے ایمان اور قوتِ یقین پر اعتماد کرتے ہوئے ان کی تصدیق فرمائی،اس حدیث سے حضرت عمر ؓ کی فضیلت ظاہرہوتی ہے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3690