صحيح البخاري
كِتَاب فَضَائِلِ الصحابة -- کتاب: نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب کی فضیلت
7. بَابُ مَنَاقِبُ عُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ أَبِي عَمْرٍو الْقُرَشِيِّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ:
باب: ابوعمرو عثمان بن عفان القرشی (اموی) رضی اللہ عنہ کے فضائل کا بیان۔
حدیث نمبر: 3696
حَدَّثَنِي أَحْمَدُ بْنُ شَبِيبِ بْنِ سَعِيدٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبِي، عَنْ يُونُسَ، قَالَ ابْنُ شِهَابٍ: أَخْبَرَنِي عُرْوَةُ، أَنَّ عُبَيْدَ اللَّهِ بْنَ عَدِيِّ بْنِ الْخِيَارِ، أَخْبَرَهُ , أَنَّ الْمِسْوَرَ بْنَ مَخْرَمَةَ , وَعَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ الْأَسْوَدِ بْنِ عَبْدِ يَغُوثَ، قَالَا:" مَا يَمْنَعُكَ أَنْ تُكَلِّمَ عُثْمَانَ لِأَخِيهِ الْوَلِيدِ فَقَدْ أَكْثَرَ النَّاسُ فِيهِ فَقَصَدْتُ لِعُثْمَانَ حَتَّى خَرَجَ إِلَى الصَّلَاةِ، قُلْتُ: إِنَّ لِي إِلَيْكَ حَاجَةً وَهِيَ نَصِيحَةٌ لَكَ، قَالَ: يَا أَيُّهَا الْمَرْءُ، قَالَ: مَعْمَرٌ أُرَاهُ، قَالَ: أَعُوذُ بِاللَّهِ مِنْكَ فَانْصَرَفْتُ فَرَجَعْتُ إِلَيْهِمْ إِذْ جَاءَ رَسُولُ عُثْمَانَ فَأَتَيْتُهُ، فَقَالَ: مَا نَصِيحَتُكَ، فَقُلْتُ:" إِنَّ اللَّهَ سُبْحَانَهُ بَعَثَ مُحَمَّدًا صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالْحَقِّ وَأَنْزَلَ عَلَيْهِ الْكِتَابَ , وَكُنْتَ مِمَّنْ اسْتَجَابَ لِلَّهِ وَلِرَسُولِهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , فَهَاجَرْتَ الْهِجْرَتَيْنِ وَصَحِبْتَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَرَأَيْتَ هَدْيَهُ وَقَدْ أَكْثَرَ النَّاسُ فِي شَأْنِ الْوَلِيدِ"، قَالَ: أَدْرَكْتَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قُلْتُ: لَا وَلَكِنْ خَلَصَ إِلَيَّ مِنْ عِلْمِهِ مَا يَخْلُصُ إِلَى الْعَذْرَاءِ فِي سِتْرِهَا، قَالَ: أَمَّا بَعْدُ فَإِنَّ اللَّهَ بَعَثَ مُحَمَّدًا صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالْحَقِّ , فَكُنْتُ مِمَّنْ اسْتَجَابَ لِلَّهِ وَلِرَسُولِهِ وَآمَنْتُ بِمَا بُعِثَ بِهِ وَهَاجَرْتُ الْهِجْرَتَيْنِ كَمَا، قُلْتَ: وَصَحِبْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَبَايَعْتُهُ فَوَاللَّهِ مَا عَصَيْتُهُ وَلَا غَشَشْتُهُ حَتَّى تَوَفَّاهُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ , ثُمَّ أَبُو بَكْرٍ مِثْلُهُ ثُمَّ عُمَرُ مِثْلُهُ ثُمَّ اسْتُخْلِفْتُ أَفَلَيْسَ لِي مِنَ الْحَقِّ مِثْلُ الَّذِي لَهُمْ، قُلْتُ: بَلَى، قَالَ: فَمَا هَذِهِ الْأَحَادِيثُ الَّتِي تَبْلُغُنِي عَنْكُمْ أَمَّا مَا ذَكَرْتَ مِنْ شَأْنِ الْوَلِيدِ فَسَنَأْخُذُ فِيهِ بِالْحَقِّ إِنْ شَاءَ اللَّهُ ثُمَّ دَعَا عَلِيًّا فَأَمَرَهُ أَنْ يَجْلِدَهُ فَجَلَدَهُ ثَمَانِينَ".
ہم سے احمد بن شبیب بن سعید نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے میرے والد نے بیان کیا، ان سے یونس نے کہ ابن شہاب نے بیان کیا، کہا مجھ کو عروہ نے خبر دی، انہیں عبیداللہ بن عدی بن خیار نے خبر دی کہ مسور بن مخرمہ اور عبدالرحمٰن بن اسود بن عبدیغوث رضی اللہ عنہ نے ان سے کہا کہ تم عثمان رضی اللہ عنہ سے ان کے بھائی ولید کے مقدمہ میں (جسے عثمان رضی اللہ عنہ نے کوفہ کا گورنر بنایا تھا) کیوں گفتگو نہیں کرتے، لوگ اس سے بہت ناراض ہیں۔ چنانچہ میں عثمان رضی اللہ عنہ کے پاس گیا، اور جب وہ نماز کے لیے باہر تشریف لائے تو میں نے عرض کیا کہ مجھے آپ سے ایک ضرورت ہے اور وہ ہے آپ کے ساتھ ایک خیر خواہی! اس پر عثمان رضی اللہ عنہ نے فرمایا: بھلے آدمی تم سے (میں اللہ کی پناہ چاہتا ہوں) امام بخاری رحمہ اللہ نے کہا: میں سمجھتا ہوں کہ معمر نے یوں روایت کیا، میں تجھ سے اللہ کی پناہ چاہتا ہوں۔ میں واپس ان دونوں کے پاس گیا، اتنے میں عثمان رضی اللہ عنہ کا قاصد مجھ کو بلانے کے لیے آیا میں جب اس کے ساتھ عثمان رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوا تو انہوں نے دریافت فرمایا کہ تمہاری خیر خواہی کیا تھی؟ میں نے عرض کیا: اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو حق کے ساتھ بھیجا اور ان پر کتاب نازل کی آپ بھی ان لوگوں میں شامل تھے جنہوں نے اللہ اور اس کے رسول کی دعوت کو قبول کیا تھا۔ آپ نے دو ہجرتیں کیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت اٹھائی اور آپ کے طریقے اور سنت کو دیکھا، لیکن بات یہ ہے کہ لوگ ولید کی بہت شکایتیں کر رہے ہیں۔ عثمان رضی اللہ عنہ نے اس پر پوچھا: تم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کچھ سنا ہے؟ میں نے عرض کیا کہ نہیں۔ لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث ایک کنواری لڑکی تک کو اس کے تمام پردوں کے باوجود جب پہنچ چکی ہیں تو مجھے کیوں نہ معلوم ہوتیں۔ اس پر عثمان نے فرمایا: امابعد: بیشک اللہ تعالیٰ نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو حق کے ساتھ بھیجا اور میں اللہ اور اس کے رسول کی دعوت کو قبول کرنے والوں میں بھی تھا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جس دعوت کو لے کر بھیجے گئے تھے میں اس پر پورے طور سے ایمان لایا اور جیسا کہ تم نے کہا دو ہجرتیں بھی کیں۔ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت میں بھی رہا ہوں اور آپ سے بیعت بھی کی ہے۔ پس اللہ کی قسم میں نے کبھی آپ کے حکم سے سرتابی نہیں کی۔ اور نہ آپ کے ساتھ کبھی کوئی دھوکا کیا، یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو وفات دی۔ اس کے بعد ابوبکر رضی اللہ عنہ کے ساتھ بھی میرا یہی معاملہ رہا۔ اور عمر رضی اللہ عنہ کے ساتھ بھی یہی معاملہ رہا تو کیا جب کہ مجھے ان کا جانشیں بنا دیا گیا ہے تو مجھے وہ حقوق حاصل نہیں ہوں گے جو انہیں تھے؟ میں نے عرض کیا کہ کیوں نہیں، آپ نے فرمایا کہ پھر ان باتوں کے لیے کیا جواز رہ جاتا ہے جو تم لوگوں کی طرف سے مجھے پہنچتی رہتی ہیں لیکن تم نے جو ولید کے حالات کا ذکر کیا ہے، ان شاءاللہ ہم اس کی سزا جو واجبی ہے اس کو دیں گے۔ پھر عثمان رضی اللہ عنہ نے علی رضی اللہ عنہ کو بلایا اور ان سے فرمایا کہ ولید کو حد لگائیں۔ چنانچہ انہوں نے ولید کو اسی کوڑے حد کے لگائے۔
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3696  
3696. حضرت عبید اللہ بن عدی بن خیار سے روایت ہے کہ حضرت مسوربن مخرمہ ؓ اور عبد الرحمٰن بن اسود بن عبدیغوث نے ان سے کہا کہ تمھیں حضرت عثمان ؓ سےان کے بھائی ولید کے متعلق گفتگو کرنے میں کیا امر مانع ہے؟ لوگ اس کے متعلق بہت چہ میگویاں کرتے ہیں، چنانچہ میں حضرت عثمان ؓ کے پاس گیا۔ جب وہ نماز کے لیے تشریف لائے تو میں نے عرض کی: مجھے آپ سے ایک ضروری کام ہے جس میں آپ کے لیے خیر خواہی ہے۔ حضرت عثمان ؓ نے فرمایا: بھلے آدمی!میں تجھ سے اللہ کی پناہ چاہتا ہوں۔ میں واپس آکر ان لوگوں کے پاس آگیا۔ اتنے میں حضرت عثمان ؓ کا قاصد مجھے بلانے کے لیے آگیا۔ میں جب اس کے ہمراہ حضرت عثمان ؓ کی خدمت میں حاضر ہواتو انھوں نے دریافت فرمایا: بتاؤ، تمھاری خیر خواہی کیا تھی؟ میں نے عرض کی: اللہ تعالیٰ نے حضرت محمد ﷺ کو حق دے کر معبوث فرمایا اور آپ پر قرآن نازل کیا، نیز آپ ان لوگوں میں۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:3696]
حدیث حاشیہ:
ولید حضرت عثمان ؓ کا رضاعی بھائی تھا۔
، ہوایہ تھا کہ سعد بن ابی وقاص کو جو عشرہ مبشرہ میں تھے حضرت عثمان نے کوفہ کا حاکم مقرر کیا تھا، ان میں اور عبداللہ بن مسعود ؓ میں کچھ تکرار ہوئی تو حضرت عثمان ؓ نے ولید کو وہاں کا حاکم مقرر کردیا اور سعد کو معزول کردیا۔
ولید نے بڑی بے اعتدالیاں شروع کیں، شراب خوری، ظلم وزیادتی کی، لوگ حضرت عثمان ؓ سے ناراض ہوئے کہ سعد ایسے جلیل القدر صحابی کو معزول کرکے حاکم کس کو کیا ولید کو جس کی کوئی فضیلت نہ تھی اور اس کا باپ عقبہ بن ابی معیط ملعون تھا جس نے آنحضرت ﷺ کا گلا گھونٹاتھا۔
آپ پر نماز میں اوجھڑی ڈالی تھی۔
خیر اگر ولید کوئی برا کام نہ کرتا تو باپ کے اعمال سے بیٹے کو غرض نہ تھی مگر بموجب الولد سر لأبیه ولید نے بھی ہاتھ پاؤں پیٹ سے نکالے۔
(وحیدی)
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3696   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3696  
3696. حضرت عبید اللہ بن عدی بن خیار سے روایت ہے کہ حضرت مسوربن مخرمہ ؓ اور عبد الرحمٰن بن اسود بن عبدیغوث نے ان سے کہا کہ تمھیں حضرت عثمان ؓ سےان کے بھائی ولید کے متعلق گفتگو کرنے میں کیا امر مانع ہے؟ لوگ اس کے متعلق بہت چہ میگویاں کرتے ہیں، چنانچہ میں حضرت عثمان ؓ کے پاس گیا۔ جب وہ نماز کے لیے تشریف لائے تو میں نے عرض کی: مجھے آپ سے ایک ضروری کام ہے جس میں آپ کے لیے خیر خواہی ہے۔ حضرت عثمان ؓ نے فرمایا: بھلے آدمی!میں تجھ سے اللہ کی پناہ چاہتا ہوں۔ میں واپس آکر ان لوگوں کے پاس آگیا۔ اتنے میں حضرت عثمان ؓ کا قاصد مجھے بلانے کے لیے آگیا۔ میں جب اس کے ہمراہ حضرت عثمان ؓ کی خدمت میں حاضر ہواتو انھوں نے دریافت فرمایا: بتاؤ، تمھاری خیر خواہی کیا تھی؟ میں نے عرض کی: اللہ تعالیٰ نے حضرت محمد ﷺ کو حق دے کر معبوث فرمایا اور آپ پر قرآن نازل کیا، نیز آپ ان لوگوں میں۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:3696]
حدیث حاشیہ:

ولید بن عقبہ حضرت عثمان ؓ کے مادری بھائی تھے۔
وہ حضرت عثمان کی طرف سے کوفہ کے گورنر تھے۔
ان کے متعلق شراب نوشی کی شکایات تھیں۔
حضرت عبید اللہ بن عدی ؓ نے بھی حضرت عثمان سے ولید کے شراب پینے کے متعلق کہا تھا۔
حضرت عددى ؓ آپ کے بھانجے تھے۔
حضرت مسور بن مخرمہ اور عبدالرحمٰن بن اسود نے اس لیے ان کا (انتخاب کیا تھا کہ وہ اپنے ماموں سے ولید کے متعلق بات کریں لیکن حضرت عثمان ؓ نے أعوذ باللہ پڑھ کر ان کی بات کو اس وقت نہ سنا کہ نماز میں اس کے متعلق برے خیالات نہ آئیں اس لیے آپ نے نماز کے بعد ان سے بات کرنا پسند فرمایا:
پھر حضرت عثمان ؓ بڑے صاحب مروت اور حیا دار قسم کے انسان تھے انھیں یہ بات بار خاطر تھی کہ میں اسے ان باتوں کا ایسا جواب دوں جو انھیں برا لگے اور ان پر گراں گزرے اس لیے اللہ کی پناہ مانگی۔

اس حدیث میں بیان کردہ مباحث اپنے اپنے مقام پر بیان ہوں گے البتہ اس میں حضرت عثمان ؓ کی فضیلت بیان کرنا مقصود ہے کہ آپ سابقین میں سے ہیں آپ نے رسول اللہ ﷺ حضرت ابو بکر ؓ اور حضرت عمر ؓ کی رفاقت کا پورا پورا حق ادا کیا ان سے کوئی خیانت نہیں کی اور اللہ کی راہ میں ہجرتیں (ہجرت حبشہ اور ہجرت مدینہ طیبہ)
کیں۔
۔
۔
رضي اللہ تعالیٰ عنه۔
۔
۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3696