صحيح البخاري
كِتَاب فَضَائِلِ الصحابة -- کتاب: نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب کی فضیلت
7. بَابُ مَنَاقِبُ عُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ أَبِي عَمْرٍو الْقُرَشِيِّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ:
باب: ابوعمرو عثمان بن عفان القرشی (اموی) رضی اللہ عنہ کے فضائل کا بیان۔
حدیث نمبر: 3697
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا يَحْيَى، عَنْ سَعِيدٍ، عَنْ قَتَادَةَ، أَنَّ أَنَسًا رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ حَدَّثَهُمْ، قَالَ: صَعِدَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أُحُدًا وَمَعَهُ أَبُو بَكْرٍ , وَعُمَرُ , وَعُثْمَانُ فَرَجَفَ، وَقَالَ:" اسْكُنْ أُحُدُ أَظُنُّهُ ضَرَبَهُ بِرِجْلِهِ فَلَيْسَ عَلَيْكَ إِلَّا نَبِيٌّ وَصِدِّيقٌ وَشَهِيدَانِ".
ہم سے مسدد نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے یحییٰ نے بیان کیا، ان سے سعید نے، ان سے قتادہ نے اور ان سے انس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب احد پہاڑ پر چڑھے اور آپ کے ساتھ ابوبکر، عمر اور عثمان رضی اللہ عنہم بھی تھے تو پہاڑ کانپنے لگا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر فرمایا احد ٹھہر جا۔ میرا خیال ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اپنے پاؤں سے مارا بھی تھا کہ تجھ پر ایک نبی، ایک صدیق اور دو شہید ہی تو ہیں۔
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 3697  
´عثمان بن عفان رضی الله عنہ کے مناقب کا بیان`
انس رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم احد پہاڑ پر چڑھے اور ابوبکر، عمر اور عثمان رضی الله عنہم بھی تو وہ ان کے ساتھ ہل اٹھا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ٹھہرا رہ اے احد! تیرے اوپر ایک نبی ایک صدیق اور دو شہید ہیں ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب المناقب/حدیث: 3697]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
دو شہید سے مراد: عمروعثمان رضی اللہ عنہما ہیں جن دونوں کی شہادت کی گواہی بزبان رسالت مآب ہو ان کی مقبول بارگاہ الٰہی ہو نے کا منکر اپنے ایمان کی خیر منائے۔
وہ مومن کہاں مسلمان بھی نہ رہا۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 3697   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3697  
3697. عربی متن اور ترجمے میں مطابقت نہیں ہے۔ حضرت عثمان ؓ بن مواہب سے روایت ہے کہ اہل مصر سے ایک شخص آیا، اس نے بیت اللہ کا حج کیا تو لوگوں کو ایک جگہ بیٹھے ہوئے دیکھا۔ پوچھا: یہ کون لوگ ہیں؟لوگوں نے کہا: یہ قریش کے لوگ ہیں۔ اس نے پوچھا: ان میں یہ بزرگ کون ہیں؟ لوگوں نے بتایا یہ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہیں۔ مصری نے کہا: اے عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ!میں آپ سے چند باتوں کی وضاحت چاہتا ہوں۔ کیا آپ کو معلوم ہے کہ حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ اُحد کے دن میدان سے بھاگ نکلے تھے؟انھوں نے فرمایا کہ ہاں (مجھے اس بات کا علم ہے۔)پھر اس نے کہا: کیاآپ جانتے ہیں کہ وہ جنگ بدر سے بھی غائب تھے؟حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا: ہاں (مجھے اس کا بھی علم ہے) اس نے کہا: کیا آپ اس سے آگاہ ہیں کہ وہ بیعت رضوان سے بھی غائب تھے اور اس میں شریک نہ ہوئے تھے؟انھوں۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:3697]
حدیث حاشیہ:

صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین حضرات شیخین حضرت ابو بکر ؓ و حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور عثمان ؓ کو دوسرے صحابہ پر فضیلت دینے کے بعد باقی صحابہ میں سے کسی کو ایک دوسرے پر فضیلت نہیں دیتے تھے۔
جب فضیلت دینے میں اجتہاد کرتے تو انھی تینوں حضرات کے فضائل نمایاں ہوتے۔

غالباً اس سے مراد وہ بزرگ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین ہیں جن سے اہم امور میں رسول اللہ ﷺ مشورہ لیتے تھے اس وقت حضرت علی ؓ کی عمر کم تھی ابھی مقام شیخو خت کو نہ پہنچے تھے اس سے حضرت علی ؓ کی تحقیر یا حضرت عثمان ؓ کے بعد فضیلت میں تاخیر قطعاً مراد نہیں بلکہ اہل سنت کا یہ عقیدہ ہے کہ خلفائے ثلاثہ کے بعد حضرت علی ؓ افضل ہیں پھر باقی چھ مبشرہ بعد ازاں شرکائے بدر و اُحد ان کے بعد بیعت رضوان کرنے والے اس حدیث میں مذکورہ تاویل بہت ضروری ہے۔
واللہ أعلم۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3697