صحيح البخاري
كِتَاب فَضَائِلِ الصحابة -- کتاب: نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب کی فضیلت
9. بَابُ مَنَاقِبُ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ الْقُرَشِيِّ الْهَاشِمِيِّ أَبِي الْحَسَنِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ:
باب: ابوالحسن علی بن ابی طالب القرشی الہاشمی رضی اللہ عنہ کے فضائل کا بیان۔
حدیث نمبر: 3706
حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ سَعْدٍ، قَالَ: سَمِعْتُ إِبْرَاهِيمَ بْنَ سَعْدٍ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِعَلِيٍّ:" أَمَا تَرْضَى أَنْ تَكُونَ مِنِّي بِمَنْزِلَةِ هَارُونَ مِنْ مُوسَى".
مجھ سے محمد بن بشار نے بیان کیا، کہا ہم سے غندر نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے سعد نے، انہوں نے ابراہیم بن سعد سے سنا، ان سے ان کے والد نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے علی رضی اللہ عنہ سے فرمایا کہ کیا تم اس پر خوش نہیں ہو کہ تم میرے لیے ایسے ہو جیسے موسیٰ علیہ السلام کے لیے ہارون علیہ السلام تھے۔
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث115  
´علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کے مناقب و فضائل۔`
سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے علی رضی اللہ عنہ سے فرمایا: کیا تم اس بات پر خوش نہیں کہ تم میری طرف سے ایسے ہی رہو جیسے ہارون موسیٰ کی طرف سے ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/باب فى فضائل اصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 115]
اردو حاشہ:
(1)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے یہ ارشاد اس وقت فرمایا تھا، جب نبی علیہ السلام غزوہ تبوک کے لیے تشریف لے گئے اور مدینہ منورہ کے انتظام کے لیے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو مقرر فرمایا۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ کو جہاد سے پیچھے رہنے پر افسوس ہوا اور عرض کیا:
کیا آپ مجھے عورتوں اور بچوں میں چھوڑے جاتے ہیں۔
اس پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مذکورہ بالا ارشاد فرمایا:
(صحيح البخاري، المغازي، باب غزوه تبوك، حديث: 4416)

(2)
بعض لوگوں نے اس سے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی خلافت بلا فصل ثابت کرنے کی کوشش کی ہے، وہ کہتے ہیں:
حضرت ہارون علیہ السلام حضرت موسیٰ علیہ السلام کے خلیفہ تھے اسی طرح حضرت علی رضی اللہ عنہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے خلیفہ ہیں۔
اس بنا پر وہ لوگ خلفائے ثلاثہ رضی اللہ عنھم پر اعتراض کرتے ہیں کہ انہوں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کا حق لے لیا۔
در حقیقت یہ محض مغالطہ ہے کیونکہ حضرت ہارون علیہ السلام کی خلافت عارضی تھی اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کی زندگی میں تھی۔
اس طرح غزوہ تبوک میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کی خلافت عارضی تھی اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں تھی۔
حضرت ہارون علیہ السلام حضرت موسیٰ علیہ السلام کی وفات کے بعد ان کے خلیفہ نہیں بنے کیونکہ ان کی وفات حضرت موسیٰ علیہ السلام کی زندگی میں ہو چکی تھی۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام کے بعد ان کا منصب یوشع بن نون علیہ السلام نے سنبھالا تھا۔
اس حدیث کی روشنی میں اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے بعد حضرت علی رضی اللہ عنہ کی خلافت مستقل تسلیم کر بھی لی جائے تو اس امر کی کوئی دلیل نہیں کہ یہ خلافت بلا فصل ہو گی۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 115   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3706  
3706. حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ نبی کریم ﷺ نے حضرت علی ؓ سے فرمایا: کیا تم اس امر پر خوش نہیں ہوکہ تم میرے لیے ایسے قائم مقام ہوجیسے حضرت ہارون ؑ حضرت موسیٰ ؑ کے جانشین تھے؟ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3706]
حدیث حاشیہ:
یعنی حضرت موسیٰ ؑ اور حضرت ہارون ؑ کا جیسا نسبی رشتہ ہے ایسا ہی مرا اور تمہارا ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3706   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3706  
3706. حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ نبی کریم ﷺ نے حضرت علی ؓ سے فرمایا: کیا تم اس امر پر خوش نہیں ہوکہ تم میرے لیے ایسے قائم مقام ہوجیسے حضرت ہارون ؑ حضرت موسیٰ ؑ کے جانشین تھے؟ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3706]
حدیث حاشیہ:

ایک روایت میں اس حدیث کا سبب درد بیان ہوا ہے کہ جب رسول اللہ ﷺ جنگ تبوک پر گئے تو حضرت علی ؓ کو ساتھ نہیں لے گئے بلکہ انھیں گھر میں کام کاج کے لیے رہنے دیا۔
وہ منافقین کے پروپیگنڈے سے متاثر ہوکر رسول اللہ ﷺ کو راستے میں جاملے اور کہا:
آپ نے مجھے بچوں اور عورتوں میں چھوڑدیا ہے۔
اس وقت رسول اللہ ﷺ نے ان کی تسلی کے لیے مذکورہ ارشادفرمایا۔
اس روایت میں آپ نے فرمایا:
میرے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا۔
(صحیح البخاري، المغازي، حدیث: 4416)
واضح رہےکہ رسول اللہ ﷺ کی موجودگی میں گھر کی جانشینی،خلافت امت کا تقاضا نہیں کر تی کیونکہ گھر کی دیکھ بھال سے انسان حاکم نہیں بن سکتا،نیزحضرت ہارون ؑ سیدنا موسیٰ ؑ سے پہلے وفات پاگئے تھے،اس لیے اس پر قیاس بھی صحیح نہیں۔
اس غزوے میں امامتِ صلاۃ کے لیے حضرت عبداللہ بن ام مکتوم ؓ کومقررفرمایا۔
اگراتنی سی بات خلافت کے لیے کافی ہوتی توابن مکتوم خلافت کے حقدار ہوتے،لیکن ایسا نہیں ہوا۔
بہرحال اس حدیث سے خلافت بلافصل ثابت نہیں ہوتی۔
واللہ أعلم۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3706