صحيح البخاري
كِتَاب فَضَائِلِ الصحابة -- کتاب: نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب کی فضیلت
12. بَابُ مَنَاقِبُ قَرَابَةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَمَنْقَبَةِ فَاطِمَةَ عَلَيْهَا السَّلاَمُ بِنْتِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:
باب: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے رشتہ داروں کے فضائل اور فاطمہ بنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فضائل کا بیان۔
حدیث نمبر: 3712
فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ: إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" لَا نُورَثُ مَا تَرَكْنَا فَهُوَ صَدَقَةٌ إِنَّمَا يَأْكُلُ آلُ مُحَمَّدٍ مِنْ هَذَا الْمَالِ يَعْنِي مَالَ اللَّهِ لَيْسَ لَهُمْ أَنْ يَزِيدُوا عَلَى الْمَأْكَلِ" , وَإِنِّي وَاللَّهِ لَا أُغَيِّرُ شَيْئًا مِنْ صَدَقَاتِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الَّتِي كَانَتْ عَلَيْهَا فِي عَهْدِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , وَلَأَعْمَلَنَّ فِيهَا بِمَا عَمِلَ فِيهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَتَشَهَّدَ عَلِيٌّ، ثُمَّ قَالَ: إِنَّا قَدْ عَرَفْنَا يَا أَبَا بَكْرٍ فَضِيلَتَكَ وَذَكَرَ قَرَابَتَهُمْ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَحَقَّهُمْ فَتَكَلَّمَ أَبُو بَكْرٍ، فَقَالَ: وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَقَرَابَةُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَحَبُّ إِلَيَّ أَنْ أَصِلَ مِنْ قَرَابَتِي".
ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خود فرما گئے ہیں کہ ہماری میراث نہیں ہوتی۔ ہم (انبیاء) جو کچھ چھوڑ جاتے ہیں وہ صدقہ ہوتا ہے اور یہ کہ آل محمد کے اخراجات اسی مال میں سے پورے کئے جائیں مگر انہیں یہ حق نہیں ہو گا کہ کھانے کے علاوہ اور کچھ تصرف کریں اور میں، اللہ کی قسم! آپ کے صدقے میں جو آپ کے زمانے میں ہوا کرتے تھے ان میں کوئی رد و بدل نہیں کروں گا بلکہ وہی نظام جاری رکھوں گا جیسے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے قائم فرمایا تھا۔ پھر علی رضی اللہ عنہ ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس آئے اور کہنے لگے: اے ابوبکر رضی اللہ عنہ ہم آپ کی فضیلت و مرتبہ کا اقرار کرتے ہیں۔ اس کے بعد انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنی قرابت کا اور اپنے حق کا ذکر کیا، ابوبکر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قرابت والوں سے سلوک کرنا مجھ کو اپنی قرابت والوں کے ساتھ سلوک کرنے سے زیادہ پسند ہے۔
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 326  
´حکمرانوں کو بیت المال اور امور حکومت میں بے حد احتیاط کرنی چاہئے`
«. . . انها قالت: إن ازواج النبى صلى الله عليه وسلم حين توفي رسول الله صلى الله عليه وسلم اردن ان يبعثن عثمان بن عفان إلى ابى بكر الصديق فيسالنه ميراثهن من رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقالت لهن عائشة: اليس قد قال رسول الله صلى الله عليه وسلم لا نورث، ما تركنا فهو صدقة . . .»
. . . سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے، روایت ہے کہ انہوں نے فرمایا: جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہوئے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویوں نے یہ ارادہ کیا کہ سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کو سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پاس بھیجیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وراثت میں سے اپنا حصہ مانگیں تو سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے ا ن سے کہا: کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں فرمایا تھا کہ ہماری وراثت نہیں ہوتی، ہم جو چھوڑ جائیں وہ صدقہ ہے؟ . . . [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 326]

تخریج الحدیث:
[وأخرجه البخاري 6730، ومسلم 1758/51، من حديث ما لك به]

تفقه:
➊ یہ حدیث ہماری وراثت نہیں ہوتی، ہم جو چھوڑ جائیں وہ صدقہ ہے۔ متواتر ہے۔ دیکھئے: [قطف الازهار 100، لقط اللآلي 26، اونظم المتناثر 272]
➋ یہ ضروری نہیں ہے کہ ایک صحیح حدیث کا علم سارے علماء کو ضرور بالضرور ہو بلکہ عین ممکن ہے کہ بعض علماء کو علم کے باوجود وہ حدیث یا دلیل اس وقت یاد نہ ہو پھر جب اس کی ضرورت پڑے یا کسی کے یاد دلانے سے یاد آ جائے۔
➌ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اپنی وفات کے وقت فرمایا: میرے علم کے مطابق میرے پاس صرف یہی مال ہے، ۱ دودھ دینے والی اونٹنی، ۲ تلواریں پالش کرنے والا غلام۔ جب میں فوت ہو جاؤں تو یہ (دونوں) عمر کے حوالے کر دینا۔ جب یہ چیزیں سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے حوالے کی گئیں تو انہوں نے فرمایا: ابوبکر پر اللہ رحم کرے، انہوں نے بعد والوں کو مشقت میں ڈال دیا ہے۔ [طبقات ابن سعد 192/3، وسنده صحيح]
● معلوم ہوا کہ حکمرانوں کو بیت المال اور امور حکومت میں بےحد احتیاط کرنی چاہئے تاکہ موت کے بعد ہونے والے مواخذے سے بچ جائیں۔ ہر آدمی کو روز محشر اس کا نامہ اعمال تھما دیا جائے گا جس میں ہر چھوٹا بڑا عمل تفصیل سے درج ہو گا۔
➍ شیعہ اسماء الرجال کی رو سے ایک روایت میں آیا ہے کہ ابوعبدالله (جعفر بن محمد الصادق) رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا:
«وإن العلماء ورثة الأنبياء، إن الأنبياء لم يورثوا دينارا ولا درهما ولكن ورثوا العلم فمن أخذ منه أخذ بحظ وافر.» اور بےشک انبیاء کے وارث علماء ہیں، بےشک نبیوں کی وراثت درہم اور دینار نہیں ہوتی لیکن وہ علم کی وراثت چھوڑتے ہیں، جس نے اسے لے لیا تو اس نے بڑاحصہ لے لیا۔ [الاصول من الكافي للكليني ج 34 باب ثواب العالم والمتعلم ح 1، وسنده صحيح عندالشيعة]
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 44   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2968  
´مال غنیمت میں سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے لیے جو مال منتخب کیا اس کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صاحبزادی فاطمہ رضی اللہ عنہا نے (کسی کو) ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پاس بھیجا، وہ ان سے اپنی میراث مانگ رہی تھیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ترکہ میں سے جسے اللہ نے آپ کو مدینہ اور فدک میں اور خیبر کے خمس کے باقی ماندہ میں سے عطا کیا تھا، تو ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: ہمارا کوئی وارث نہیں ہوتا ہے، ہم جو کچھ چھوڑ جائیں وہ صدقہ ہے، محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی آل اولاد ا۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابي داود/كتاب الخراج والفيء والإمارة /حدیث: 2968]
فوائد ومسائل:
رسول اللہ ﷺ کے فرمان کے مقابلے میں کسی کی کوئی دلیل باقی نہیں رہتی۔
اور کوئی حکمران کسی کی خاطر بھی اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے احکام تبدیل نہیں کرسکتا۔
حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا اور حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ رسول اللہ ﷺ کا فیصلہ سن کر مکمل طور پر مطمئین ہوگئے۔
ان کی طرف سے عدم اطمینان کا گمان بھی ان کی شان میں گستاخی ہے۔
حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے بعد جب ان اموال کا انتظام حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور ان کے بعد ان کی اولاد کو تفویض ہوا تو انہوں نے بھی بعینہ اسی طرح اس کا انتظام اور خرچ کیا۔
جس طرح حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کچھ عرصہ تک حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کرتے رہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2968   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3712  
3712. حضرت ابوبکر ؓ نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد گرامی ہے: ہمارے(ترکہ میں) وراثت جاری نہیں ہوتی۔ ہم جو کچھ چھوڑ جاتے ہیں وہ صدقہ ہوتا ہے۔ البتہ آل محمد کے اخراجات اسی مال سے پورے کیے جائیں۔ خوردنوش سے زیادہ ان کا کوئی حق نہیں ہے۔ اللہ کی قسم! رسول اللہ ﷺ کے صدقات، جو نبی کریم ﷺ کے زمانے مبارک میں ہوا کرتے تھے، میں ان میں کوئی تبدیلی نہیں کروں گا بلکہ ان میں وہ نظام جاری رکھوں گا جو رسول اللہ ﷺ نے قائم فرمایا تھا۔ اس کے بعد حضرت علی ؓ آپ کے ہاں آئے اور کہنے لگے: ابوبکر!ہم آپ کے مقام اور مرتبے کا اعتراف کرتے ہیں، پھر انھوں نے رسول اللہ ﷺ سےاپنی قرابت اور حق کا ذکر کیا۔ حضرت ابوبکر نے اپنی گفتگو جاری رکھتے ہوئے فرمایا: اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے!رسول اللہ ﷺ کے رشتہ داروں سے اچھا سلوک کرنا مجھے اپنے قرابت داروں کے ساتھ بہتر سلوک سے زیادہ محبوب ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3712]
حدیث حاشیہ:

حضرت فاطمہ ؓ کا خیال تھا کہ رسول اللہ ﷺ کے تمام صدقات آپ کی ملکیت تھے،اس لیے اس ترکے سے ہمیں حصہ ملنا چاہیے لیکن حضرت ابوبکر ؓ نے فرمایا:
رسول اللہ ﷺ کی قرابت داری مجھے اپنی قرابت داری سے زیادہ محبوب ہے۔
لیکن رسول اللہ ﷺ کے ارشادات اور معمولات کے پیش نظر آپ کے صدقات وترکات کو تقسیم نہیں کیا جاسکتا بلکہ یہ تمام آپ کی آل واولاد،ازواج مطہرات رضوان اللہ عنھن اجمعین اور دیگر عام مصالح کے لیے وقف ہیں۔
یہ ایسے صدقات ہیں جن پر آپ کی وفات کے بعد ملکیت کا دعویٰ نہیں کیاجاسکتا،بلکہ مذکورہ حضرات قیاس قیامت تک ان سے اپنی ضرورتیں پوری کرتے رہیں گے۔
لیکن اسے اپنی ملکیت تصور نہیں کریں گے۔

بہرحال اس حدیث میں رسول اللہ ﷺ کے قرابت داروں سے حسن سلوک اور اچھا برتاؤ کرنے کا بیان ہے،اس لیے امام بخاری ؒ نے بیان کیا ہے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3712