صحيح البخاري
كِتَاب فَضَائِلِ الصحابة -- کتاب: نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب کی فضیلت
12. بَابُ مَنَاقِبُ قَرَابَةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَمَنْقَبَةِ فَاطِمَةَ عَلَيْهَا السَّلاَمُ بِنْتِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:
باب: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے رشتہ داروں کے فضائل اور فاطمہ بنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فضائل کا بیان۔
حدیث نمبر: 3716
فَقَالَتْ:" سَارَّنِي النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَخْبَرَنِي أَنَّهُ يُقْبَضُ فِي وَجَعِهِ الَّذِي تُوُفِّيَ فِيهِ فَبَكَيْتُ، ثُمَّ سَارَّنِي فَأَخْبَرَنِي أَنِّي أَوَّلُ أَهْلِ بَيْتِهِ أَتْبَعُهُ فَضَحِكْتُ".
‏‏‏‏ تو انہوں نے بتایا کہ پہلے مجھ سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے آہستہ سے یہ فرمایا تھا کہ وہ اپنی اسی بیماری میں وفات پا جائیں گے، میں اس پر رونے لگی۔ پھر مجھ سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے آہستہ سے فرمایا کہ آپ کے اہل بیت میں سب سے پہلے میں آپ سے جا ملوں گی، اس پر میں ہنسی تھی۔
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1621  
´رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیماری کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویاں اکٹھا ہوئیں اور ان میں سے کوئی بھی پیچھے نہ رہی، اتنے میں فاطمہ رضی اللہ عنہا آئیں، ان کی چال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی چال کی طرح تھی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میری بیٹی! خوش آمدید پھر انہیں اپنے بائیں طرف بٹھایا، اور چپکے سے کوئی بات کہی تو وہ رونے لگیں، پھر چپکے سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئی بات کہی تو وہ ہنسنے لگیں، عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں: میں نے ان سے پوچھا کہ تم کیوں روئیں؟ تو انہوں نے کہا: میں رسول اللہ صلی اللہ عل۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابن ماجه/كتاب الجنائز/حدیث: 1621]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
یہ واقعہ رسول اللہ ﷺ کے مرض وفات کے دوران میں پیش آیا جب تمام امہات المومنین رضی اللہ تعالیٰ عنہا رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر تھیں۔
مولانا صفی الرحمٰن مبارک پوری رحمۃ اللہ علیہ نے الرحیق المختوم میں اسے حیات مبارکہ کے آخری دن کا واقعہ قرا ردیا ہے۔
اور فرمایا کہ بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ واقعہ آخری دن نہیں بلکہ آخری ہفتے میں کسی دن پیش آیا تھا۔
واللہ أعلم، دیکھئے: (الرحیق المختوم اردو طبع مکتبہ سلفیہ ص: 628)
 اس حدیث میں حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے شرف اور فضیلت کا اظہار ہے جنھیں رسول اللہ ﷺ نے خاص راز عطا فرمایا۔

(3)
راز کے طور پر بتائی ہوئی بات ظاہر کرنا مناسب نہیں کیونکہ راز ایک امانت کی حیثیت رکھتا ہے۔
اور امانت میں خیانت کرنا حرام ہے۔

(4)
رسول اللہ ﷺ کا حضرت فاطمہ کو مستقبل کی خبر دینا اور واقعات کا اسی طرح پیش آنا آپ ﷺ کی نبوت ورسالت کی دلیل ہے۔
رسول اللہﷺ نے جس قدر پیش گویئاں فرمائی ہیں۔
وہ سب کی سب اسی طرح بعینہ پوری ہویئں ہیں۔
جس طرح فرمائی گئی تھیں۔
جن پیش گویئوں کے ابھی پورا ہونے کاوقت نہیں آیا۔
ان کے بارے میں بھی ہمارا ایمان ہے کہ وہ ضرور پوری ہوں گی۔

(5)
حفاظ کرام کا آپس میں دور کرنا اور بالخصوص رمضان المبارک میں اس کا اہتمام کرنا سنت نبوی ﷺ ہے۔

(6)
عمر کے آخری حصے میں نیکی کے کاموں کا اہتما م زیاہ ہونا چاہیے۔

(7)
دوست احباب اور اقارب کے لئے اگر کسی خوش کن خبر کا علم ہوتو انھیں خوش خبری دینی چاہیے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1621   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 3872  
´فاطمہ رضی الله عنہا کی فضیلت کا بیان`
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ میں نے اٹھنے بیٹھنے کے طور و طریق اور عادت و خصلت میں فاطمہ ۱؎ رضی الله عنہ سے زیادہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مشابہ کسی کو نہیں دیکھا، وہ کہتی ہیں: جب وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آتیں تو آپ اٹھ کر انہیں بوسہ لیتے اور انہیں اپنی جگہ پر بٹھاتے، اور جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس آتے تو وہ اٹھ کر آپ کو بوسہ لیتیں اور آپ کو اپنی جگہ پر بٹھاتیں چنانچہ جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بیمار ہوئے تو فاطمہ آئیں اور آپ پر جھکیں اور آپ کو بوسہ لیا، پھر اپنا سر اٹھایا اور رونے لگیں پھر آپ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ترمذي/كتاب المناقب/حدیث: 3872]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
اس حدیث سے فاطمہ رضی اللہ عنہا کی منقبت کئی طرح سے ثابت ہوتی ہے۔


فاطمہ رضی اللہ عنہا آپ سے اخلاق وعادات میں بہت زیادہ مشابہت رکھتی تھیں۔


فاطمہ آپﷺ کو اپنے گھر والوں میں سب سے زیادہ پیاری تھیں۔


آخرت میں آپﷺ سے شرف رفاقت سب سے پہلے فاطمہ کو حاصل ہوئی (رضی اللہ عنہا)
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 3872   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3716  
3716. انھوں نے (حضرت سیدہ فاطمہ ؓنے) بتایا: مجھ سے نبی کریم ﷺ نے آہستہ بات کی تھی کہ آپ اس بیماری میں وفات پاجائیں گے تو میں اس پر رونے لگی۔ پھر آپ ﷺ نے مجھ سے دوبارہ آہستہ گفتگو فرمائی کہ آپ کے اہل بیت میں سے میں سب سے پہلے آپ سے ملاقات کروں گی تو میں اس پر ہنس پڑی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3716]
حدیث حاشیہ:
جیسا آنحضرت ﷺ نے فرمایا تھا ویساہی ہوا کہ آپ کی وفات کے تقریباً چھ ماہ بعد حضرت فاطمۃ الزہراء ؓ کا انتقال ہوگیا، آنحضرت ﷺ نے یہ خبروحی الٰہی کے ذریعہ سے دی تھی کیونکہ آپ عالم الغیب نہیں تھے، ہاں اللہ پاک کی طرف سے جو معلوم ہوجاتا وہ فرماتے اور پھر وہ حرف بہ حرف پورا ہوجاتا۔
عالم الغیب اس کو کہتے ہیں جو خود بخود بغیر کسی کے بتلائے غیب کی خبریں پیش کرسکے، یہ علم غیب صرف اللہ تعالیٰ کو حاصل ہے اور کوئی نبی وولی غیب دان نہیں ہیں۔
۔
قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول ﷺ کی زبانی اعلان کرادیا ہے کہ کہہ دو میں غیب جاننے والا نہیں ہوں۔
اگر آپ غیب داں ہوتے تو جنگ احد کا عظیم حادثہ پیش نہ آتا۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3716   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3716  
3716. انھوں نے (حضرت سیدہ فاطمہ ؓنے) بتایا: مجھ سے نبی کریم ﷺ نے آہستہ بات کی تھی کہ آپ اس بیماری میں وفات پاجائیں گے تو میں اس پر رونے لگی۔ پھر آپ ﷺ نے مجھ سے دوبارہ آہستہ گفتگو فرمائی کہ آپ کے اہل بیت میں سے میں سب سے پہلے آپ سے ملاقات کروں گی تو میں اس پر ہنس پڑی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3716]
حدیث حاشیہ:
ان احادیث میں امام بخاری ؒ نے عنوان کے دوسرے جز کو ثابت کیا ہے۔
کہ رسول اللہ ﷺ کے قرابت داروں سے محبت کرناایمان کا تقاضا ہے۔
ان قرابت داروں میں سرفہرست حضرت سیدہ فاطمہ ؓ ہیں۔
انھیں بلاوجہ ناراض کرنا گویا رسول اللہ ﷺ کو ناراض کرناہے،اس لیے انھیں خوش رکھنے کے لیے انتہائی کوشش کی جائے،پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پیش گوئی کے طور پر فرمایا:
میرے اہل بیت میں سب سے پہلے سیدہ فاطمہ ؓ مجھ سے ملاقات کریں گی،چنانچہ ایسا ہی ہوا کہ رسول اللہ ﷺ کی وفات کے چھ ماہ بعد سیدہ فاطمہ ؓوفات پاگئیں۔
اس طرح رسول اللہ ﷺ کی پیش گوئی حرف بحرف پوری ہوئی۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3716