صحيح البخاري
كِتَاب فَضَائِلِ الصحابة -- کتاب: نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب کی فضیلت
13. بَابُ مَنَاقِبُ الزُّبَيْرِ بْنِ الْعَوَّامِ:
باب: زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ کے فضائل کا بیان۔
وَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: هُوَ حَوَارِيُّ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَسُمِّيَ الْحَوَارِيُّونَ لِبَيَاضِ ثِيَابِهِمْ.
‏‏‏‏ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا کہ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حواری تھے اور انہیں (عیسیٰ علیہ السلام کے حواریین کو) حواریین ان کے سفید کپڑوں کی وجہ سے کہتے ہیں (بعض لوگوں نے ان کو دھوبی بتلایا ہے)۔
حدیث نمبر: 3717
حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ مَخْلَدٍ، حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُسْهِرٍ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: أَخْبَرَنِي مَرْوَانُ بْنُ الْحَكَمِ، قَالَ: أَصَابَ عُثْمَانَ بْنَ عَفَّانَ رُعَافٌ شَدِيدٌ سَنَةَ الرُّعَافِ حَتَّى حَبَسَهُ عَنِ الْحَجِّ وَأَوْصَى فَدَخَلَ عَلَيْهِ رَجُلٌ مِنْ قُرَيْشٍ، قَالَ:" اسْتَخْلِفْ، قَالَ: وَقَالُوهُ، قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: وَمَنْ فَسَكَتَ فَدَخَلَ عَلَيْهِ رَجُلٌ آخَرُ أَحْسِبُهُ الْحَارِثَ، فَقَالَ: اسْتَخْلِفْ، فَقَالَ: عُثْمَانُ وَقَالُوا، فَقَالَ: نَعَمْ، قَالَ: وَمَنْ هُوَ فَسَكَتَ، قَالَ: فَلَعَلَّهُمْ قَالُوا الزُّبَيْرَ، قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: أَمَا وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ إِنَّهُ لَخَيْرُهُمْ مَا عَلِمْتُ وَإِنْ كَانَ لَأَحَبَّهُمْ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ".
ہم سے خالد بن مخلد نے بیان کیا، کہا ہم سے علی بن مسہر نے، ان سے ہشام بن عروہ نے، ان سے ان کے والد نے بیان کیا کہ مجھے مروان بن حکم نے خبر دی کہ جس سال نکسیر پھوٹنے کی بیماری پھوٹ پڑی تھی اس سال عثمان رضی اللہ عنہ کو اتنی سخت نکسیر پھوٹی کہ آپ حج کے لیے بھی نہ جا سکے، اور (زندگی سے مایوس ہو کر) وصیت بھی کر دی، پھر ان کی خدمت میں قریش کے ایک صاحب گئے اور کہا کہ آپ کسی کو اپنا خلیفہ بنا دیں۔ عثمان رضی اللہ عنہ نے دریافت فرمایا: کیا یہ سب کی خواہش ہے، انہوں نے کہا جی ہاں۔ آپ نے پوچھا کہ کسے بناؤں؟ اس پر وہ خاموش ہو گئے۔ اس کے بعد ایک دوسرے صاحب گئے۔ میرا خیال ہے کہ وہ حارث تھے،۔ انہوں نے بھی یہی کہا کہ آپ کسی کو خلیفہ بنا دیں، آپ نے ان سے بھی پوچھا کیا یہ سب کی خواہش ہے؟ انہوں نے کہا: جی ہاں، آپ نے پوچھا: لوگوں کی رائے کس کے لیے ہے؟ اس پر وہ بھی خاموش ہو گئے، تو آپ نے خود فرمایا: غالباً زبیر کی طرف لوگوں کا رجحان ہے؟ انہوں نے کہا: جی ہاں، پھر آپ نے فرمایا: اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے میرے علم کے مطابق بھی وہی ان میں سب سے بہتر ہیں اور بلاشبہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نظروں میں بھی ان میں سب سے زیادہ محبوب تھے۔
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3717  
3717. حضرت مروان بن حکم سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ جس سال نکسیر پھوٹنے کی وبا پھیلی تو حضرت عثمان ؓ کی اس قدر نکسیر پھوٹی کہ انھیں حج سے اس مرض نے روک دیا۔ انھوں نے وصیت کردی۔ ان کی خدمت میں ایک قریشی صاحب آئے اور عرض کیا کہ آپ کسی کو اپنا خلیفہ بنادیں۔ حضرت عثمان ؓ نے پوچھا کہ لوگوں کی یہ خواہش ہے؟اس نے کہا: ہاں۔ آپ نے پوچھا: کس کو خلیفہ نامزدکروں؟ اس پر وہ خاموش ہوگئے۔ اسکے بعد کوئی دوسرے صاحب آئے۔ میرا خیال ہے کہ وہ حارث تھے۔ انھوں نے بھی یہی کہا کہ آپ کسی کو خلیفہ نامزد کریں۔ آپ نے پوچھا: کیا یہ سب لوگوں کی رائے ہے؟اس نے کہا: جی ہاں۔ آپ نے پوچھا: وہ کون ہوسکتاہے؟اس پر وہ خاموش ہوگیا تو آپ نے فرمایا: غالباً لوگوں کا زبیر ؓ کی طرف رجحان ہوگا؟اس نے کہا: جی ہاں۔ پھر آپ نے فرمایا: مجھے اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے!میرے علم کے مطابق بھی وہ ان سب سے بہتر ہیں۔ بلاشبہ وہ رسول۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:3717]
حدیث حاشیہ:
یہ حضرت عثمان ؓ کی رائے تھے کہ وہ حضرت زبیر کو اپنے بعد خلیفہ نامزد کردیں مگر علم الٰہی میں یہ مقام حضرت علی ؓ کے لیے مخصوص تھا۔
اسی لیے تقدیر کے تحت چوتھے خلیفہ راشد حضرت علی ؓ قرار پائے، اسی ترتیب کے ساتھ یہ چاروں خلفاء راشدین کہلاتے ہیں اور اسی ترتیب سے ان سے ان سب کی خلافت برحق ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3717   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3717  
3717. حضرت مروان بن حکم سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ جس سال نکسیر پھوٹنے کی وبا پھیلی تو حضرت عثمان ؓ کی اس قدر نکسیر پھوٹی کہ انھیں حج سے اس مرض نے روک دیا۔ انھوں نے وصیت کردی۔ ان کی خدمت میں ایک قریشی صاحب آئے اور عرض کیا کہ آپ کسی کو اپنا خلیفہ بنادیں۔ حضرت عثمان ؓ نے پوچھا کہ لوگوں کی یہ خواہش ہے؟اس نے کہا: ہاں۔ آپ نے پوچھا: کس کو خلیفہ نامزدکروں؟ اس پر وہ خاموش ہوگئے۔ اسکے بعد کوئی دوسرے صاحب آئے۔ میرا خیال ہے کہ وہ حارث تھے۔ انھوں نے بھی یہی کہا کہ آپ کسی کو خلیفہ نامزد کریں۔ آپ نے پوچھا: کیا یہ سب لوگوں کی رائے ہے؟اس نے کہا: جی ہاں۔ آپ نے پوچھا: وہ کون ہوسکتاہے؟اس پر وہ خاموش ہوگیا تو آپ نے فرمایا: غالباً لوگوں کا زبیر ؓ کی طرف رجحان ہوگا؟اس نے کہا: جی ہاں۔ پھر آپ نے فرمایا: مجھے اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے!میرے علم کے مطابق بھی وہ ان سب سے بہتر ہیں۔ بلاشبہ وہ رسول۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:3717]
حدیث حاشیہ:

لوگوں نے حضرت عثمان ؓ کو تجویز خلافت پر اس لیے آمادہ کرنا چاہاکہ مرض نکسیر کی وجہ سے حالات اس قسم کے ہوچکے تھے کہ شاید حضرت عثمان ؓ اس بیماری سے صحت یاب نہ ہوسکیں۔
اس لیے کسی خلیفہ کا نامزد کرنا ضروری ہے۔
حضرت عثمان نے حضرت زبیر ؓ کی صلاحیت کے پیش نظر انھیں نامزد کرنا چاہا مگر علم الٰہی میں یہ مقام حضرت علی ؓ کے لیے مخصوص تھا،چنانچہ چوتھے خلیفہ حضرت علی ؓ قرارپائے۔

بہرحال اس حدیث سے حضرت زبیر ؓ کے مرتبے اور مقام کا پتہ چلتا ہے کہ لوگ انھیں کس نظر سے دیکھتے تھے۔
اس کے علاوہ حضرت عثمان نے شہادت دی ہے کہ وہ رسول اللہ ﷺ کو بہت محبوب تھے۔
بہرحال حضرت زبیر ایک وفادار جاں نثار قسم کے انسان تھے۔
۔
۔
رضي اللہ تعالیٰ عنه۔
۔
۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3717