صحيح البخاري
كِتَاب فَضَائِلِ الصحابة -- کتاب: نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب کی فضیلت
13. بَابُ مَنَاقِبُ الزُّبَيْرِ بْنِ الْعَوَّامِ:
باب: زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ کے فضائل کا بیان۔
حدیث نمبر: 3720
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدٍ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ، أَخْبَرَنَا هِشَامُ بْنُ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الزُّبَيْرِ، قَالَ: كُنْتُ يَوْمَ الْأَحْزَابِ جُعِلْتُ أَنَا وَعُمَرُ بْنُ أَبِي سَلَمَةَ فِي النِّسَاءِ فَنَظَرْتُ فَإِذَا أَنَا بِالزُّبَيْرِ عَلَى فَرَسِهِ يَخْتَلِفُ إِلَى بَنِي قُرَيْظَةَ مَرَّتَيْنِ أَوْ ثَلَاثًا فَلَمَّا رَجَعْتُ، قُلْتُ: يَا أَبَتِ رَأَيْتُكَ تَخْتَلِفُ، قَالَ: أَوَ هَلْ رَأَيْتَنِي يَا بُنَيَّ، قُلْتُ: نَعَمْ، قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" مَنْ يَأْتِ بَنِي قُرَيْظَةَ فَيَأْتِينِي بِخَبَرِهِمْ" , فَانْطَلَقْتُ فَلَمَّا رَجَعْتُ جَمَعَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَبَوَيْهِ، فَقَالَ: فِدَاكَ أَبِي وَأُمِّي".
ہم سے احمد بن محمد نے بیان کیا، کہا ہم کو ہشام بن عروہ نے خبر دی، انہیں ان کے والد نے اور ان سے عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ جنگ احزاب کے موقع پر مجھے اور عمر بن ابی سلمہ رضی اللہ عنہما کو عورتوں میں چھوڑ دیا گیا تھا (کیونکہ یہ دونوں حضرات بچے تھے) میں نے اچانک دیکھا کہ زبیر رضی اللہ عنہ (آپ کے والد) اپنے گھوڑے پر سوار بنی قریظہ (یہودیوں کے ایک قبیلہ کی) طرف آ جا رہے ہیں۔ دو یا تین مرتبہ ایسا ہوا، پھر جب میں وہاں سے واپس آیا تو میں نے عرض کیا، ابا جان! میں نے آپ کو کئی مرتبہ آتے جاتے دیکھا۔ انہوں نے کہا: بیٹے! کیا واقعی تم نے بھی دیکھا ہے؟ میں نے عرض کیا: جی ہاں، انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ کون ہے جو بنو قریظہ کی طرف جا کر ان کی (نقل و حرکت کے متعلق) اطلاع میرے پاس لا سکے۔ اس پر میں وہاں گیا اور جب میں (خبر لے کر) واپس آیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (فرط مسرت میں) اپنے والدین کا ایک ساتھ ذکر کر کے فرمایا کہ میرے ماں باپ تم پر فدا ہوں۔
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3720  
3720. حضرت عبداللہ بن زبیر ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا کہ غزوہ احزاب کے وقت مجھے اور عمر بن ابوسلمہ ؓ کو(کمسن ہونے کی وجہ سے) عورتوں میں چھوڑ دیا گیا۔ پھر میں نے جو نظر دوڑائی تو دیکھا کہ حضرت زبیر بن عوام ؓ اپنے گھوڑے پرسوار ہیں اور دو یا تین بار بنو قریظہ کی طرف گئے ہیں، پھر واپس آئے ہیں۔ جب اختتام جنگ پر میں واپس آیا تو کہا: ابوجان!میں نے آپ کو دیکھا کہ بار بار ادھر آتے جاتے تھے؟انھوں نے فرمایا: بیٹا!تونے مجھے دیکھاتھا؟میں نے عرض کیا: جی ہاں۔ انھوں نے وضاحت فرمائی کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: کوئی ایسا ہے جو بنو قریظہ کے پاس جائے اور میرے پاس ان کی خبر لائے؟ چنانچہ میں اس مہم کے لیے گیا۔ پھر جب میں واپس آیا تو رسول اللہ ﷺ نے اپنے ماں باپ یکجا جمع کرکے فرمایا: میرے ماں باپ تم پر فدا ہوں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3720]
حدیث حاشیہ:

حضرت زبیر ؓ کی یہ بہت بڑی فضیلت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خوش ہوکر فرمایا:
میرے ماں باپ تجھ پر فدا ہوں۔
غزو ہ اُحد کے موقع پر یہی اعزاز حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ کو حاصل ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ماں باپ جمع کرکے ان کے متعلق فرمایا:
میرے ماں باپ تم پر فدا ہوں۔
جیسا کہ حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ کے مناقب میں بیان ہوگا۔
(صحیح البخاري، فضائل أصحاب النبي صلی اللہ علیه وسلم۔
حدیث: 3725)


غزوہ خندق کے موقع پر حضرت ابن زبیر ؓ کی عمر زیادہ سے زیادہ تین سال اور چند ماہ تھی۔
اس عمر میں واقعات کو یاد رکھنا حافظہ قوی ہونے کی عجیب وغریب مثال ہے۔
(فتح الباري: 104/7)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3720