صحيح البخاري
كِتَاب فَضَائِلِ الصحابة -- کتاب: نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب کی فضیلت
16. بَابُ ذِكْرُ أَصْهَارِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْهُمْ أَبُو الْعَاصِ بْنُ الرَّبِيعِ:
باب: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دامادوں کا بیان ابوالعاص بن ربیع بھی ان ہی میں سے ہیں۔
حدیث نمبر: 3729
حَدَّثَنَا أَبُو الْيَمَانِ، أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، قَالَ: حَدَّثَنِي عَلِيُّ بْنُ حُسَيْنٍ، أَنَّ الْمِسْوَرَ بْنَ مَخْرَمَةَ، قَالَ: إِنَّ عَلِيًّا خَطَبَ بِنْتَ أَبِي جَهْلٍ فَسَمِعَتْ بِذَلِكَ فَاطِمَةُ فَأَتَتْ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَتْ: يَزْعُمُ قَوْمُكَ أَنَّكَ لَا تَغْضَبُ لِبَنَاتِكَ , وَهَذَا عَلِيٌّ نَاكِحٌ بِنْتَ أَبِي جَهْلٍ، فَقَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَسَمِعْتُهُ حِينَ تَشَهَّدَ، يَقُولُ:" أَمَّا بَعْدُ أَنْكَحْتُ أَبَا الْعَاصِ بْنَ الرَّبِيعِ فَحَدَّثَنِي وَصَدَقَنِي، وَإِنَّ فَاطِمَةَ بَضْعَةٌ مِنِّي وَإِنِّي أَكْرَهُ أَنْ يَسُوءَهَا وَاللَّهِ لَا تَجْتَمِعُ بِنْتُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَبِنْتُ عَدُوِّ اللَّهِ عِنْدَ رَجُلٍ وَاحِدٍ" , فَتَرَكَ عَلِيٌّ الْخِطْبَةَ , وَزَادَ مُحَمَّدُ بْنُ عَمْرِو بْنِ حَلْحَلَةَ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ الْحُسَيْنِ، عَنْ مِسْوَرٍ، سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَذَكَرَ صِهْرًا لَهُ مِنْ بَنِي عَبْدِ شَمْسٍ فَأَثْنَى عَلَيْهِ فِي مُصَاهَرَتِهِ إِيَّاهُ فَأَحْسَنَ، قَالَ:" حَدَّثَنِي فَصَدَقَنِي وَوَعَدَنِي فَوَفَى لِي".
ہم سے ابولیمان نے بیان کیا، کہا ہم کو شعیب نے خبر دی، ان سے زہری نے بیان کیا، کہا مجھ سے علی بن حسین نے بیان کیا اور ان سے مسور بن مخرمہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ علی رضی اللہ عنہ نے ابوجہل کی لڑکی کو (جو مسلمان تھیں) پیغام نکاح دیا، اس کی اطلاع جب فاطمہ رضی اللہ عنہا کو ہوئی تو وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں اور عرض کیا کہ آپ کی قوم کا خیال ہے کہ آپ کو اپنی بیٹیوں کی خاطر (جب انہیں کوئی تکلیف دے) کسی پر غصہ نہیں آتا۔ اب دیکھئیے یہ علی ابوجہل کی بیٹی سے نکاح کرنا چاہتے ہیں، اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کو خطاب فرمایا: میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو خطبہ پڑھتے سنا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: امابعد: میں نے ابوالعاص بن ربیع سے (زینب رضی اللہ عنہا کی، آپ کی سب سے بڑی صاحبزادی) شادی کرائی تو انہوں نے جو بات بھی کہی اس میں وہ سچے اترے اور بلاشبہ فاطمہ بھی میرے (جسم کا) ایک ٹکڑا ہے اور مجھے یہ پسند نہیں کہ کوئی بھی اسے تکلیف دے۔ اللہ کی قسم! رسول اللہ کی بیٹی اور اللہ تعالیٰ کے ایک دشمن کی بیٹی ایک شخص کے پاس جمع نہیں ہو سکتیں۔ چنانچہ علی رضی اللہ عنہ نے اس شادی کا ارادہ ترک کر دیا۔ محمد بن عمرو بن حلحلہ نے ابن شہاب سے یہ اضافہ کیا ہے، انہوں نے علی بن حسین سے اور انہوں نے مسور رضی اللہ عنہ سے بیان کیا کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ نے بنی عبدشمس کے اپنے ایک داماد کا ذکر کیا اور حقوق دامادی کی ادائیگی کی تعریف فرمائی۔ پھر فرمایا کہ انہوں نے مجھ سے جو بات بھی کہی سچی کہی اور جو وعدہ بھی کیا پورا کر دکھایا۔
  الشيخ محمد حسين ميمن حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 5278  
´اسلام قبول کرنے والی مشرک عورتوں سے نکاح اور ان کی عدت کا بیان`
«. . . عَنْ الْمِسْوَرِ بْنِ مَخْرَمَةَ الزُّهْرِيِّ، قَالَ: سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ:" إِنَّ بَنِي الْمُغِيرَةِ اسْتَأْذَنُوا فِي أَنْ يَنْكِحَ عَلِيٌّ ابْنَتَهُمْ، فَلَا آذَنُ . . .»
. . . مسور بن مخرمہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرما رہے تھے کہ بنی مغیرہ نے اس کی اجازت مانگی ہے کہ علی رضی اللہ عنہ سے وہ اپنی بیٹی کا نکاح کر لیں لیکن میں انہیں اس کی اجازت نہیں دوں گا۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الطَّلَاقِ: 5278]
صحیح بخاری کی حدیث نمبر: 5278 کا باب: «بَابُ نِكَاحِ مَنْ أَسْلَمَ مِنَ الْمُشْرِكَاتِ وَعِدَّتِهِنَّ:»

باب اور حدیث میں مناسبت:
امام بخاری رحمہ اللہ نے ترجمۃ الباب میں میاں بیوی کے مابین ناچاکی اور نااتفاقی کے امور کی وضاحت فرمائی ہے , جبکہ تحت الباب جس حدیث کا ذکر فرمایا ہے اس میں بظاہر کوئی ایسے الفاظ وارد نہیں ہیں جو باب سے مناسبت رکھتے ہوں۔

علامہ کرمانی رقمطراز ہیں:
«توخز مطابقة الترجمة من كون فاطمۃ ما كانت ترضيٰ بذالك، فكان الشقاق بينهما وبين على متوقعاً فاراد رضى الله عنه دفع وقوعه.» [شرح كرماني: 159/19]
امام بخاری رحمہ اللہ کا اس باب میں اس حدیث کو نقل کرنے کی وجہ یہ ہے کہ سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے اس نکاح پر راضی نہ تھیں، اگر سیدنا علی رضی اللہ عنہ نکاح کر لیتے تو دونوں کے مابین شقاق اور اختلافات کا خدشہ پیدا ہوتا، لہٰذا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو نکاح سے روک کر دونوں کے درمیان واقع ہونے والے شقاق و اختلاف کو روک دیا ہے۔
امام کرمانی رحمہ اللہ کی وضاحت سے مناسبت کا واضح پہلو اجاگر ہوتا ہے آپ کا مقصد یہ تھا کہ اگر علی رضی اللہ عنہ اس عورت سے نکاح کر لیتے تو فاطمہ رضی اللہ عنہا اور ان کے درمیان شدید اختلافات نمودار ہو جاتے، لہٰذا اس اختلافات کی وجہ سے امام بخاری رحمہ اللہ نے تحت الباب اس حدیث کو نقل فرمایا ہے، امام کرمانی کی تطبیق پر حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«وهي مناسبة جيدة.» [فتح الباري لابن حجر: 345/90]
یہ ایک بہترین مناسبت ہے۔
ابن التین میں ترجمۃ الباب پر اعتراض فرمایا ہے کہ ترجمۃ الباب اور حدیث میں مناسبت موجود نہیں ہے، چنانچہ اس اعتراض کو دور کرتے ہوئے حافظ ابن حجر رحمہ اللہ جواب دیتے ہیں کہ:
«واعترضه ابن التين بأنه ليس فيه دلالة على ترجم به، ونقل ابن بطال قبله عن المهلب قال: انما حاول البخاري يايراده ان يجعل قول النبى صلى الله عليه وسلم فلا اذن» [فتح الباري لابن حجر: 340/10]

ابن التین نے ترجمۃ الباب پر یہ کہا کہ حدیث سے اس کی کوئی دلالت موجود نہیں ہے، اس کو ابن بطال اور مہلب سے نقل کیا ہے کہ ابن مہلب نے فرمایا: امام بخاری رحمہ اللہ نے اس ارادے سے اس حدیث کو پیش فرمایا ہے تحت الترجمۃ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے، میں اس کی اجازت نہیں دوں گا۔
یعنی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس کی اجازت اسی وجہ سے نہیں دے رہے تھے کہ آپ علیہ السلام کو ان میاں بیوی میں ناچاکی اور نااتفاقی کا اندیشہ تھا، لہٰذا امام بخاری رحمہ اللہ کا مقصود یہی ہے۔
ابن الملقن رحمہ اللہ نے بھی یہی مناسب دی ہے۔ دیکھیے: [التوضيح لشرح الجامع الصحيح: 327/24]

ابن المنیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ:
امام بخاری رحمہ اللہ کے استدلال کا احتمال (ترجمۃ الباب سے) اس حدیث پر ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا، «فلا أذن لهم» پس یہ اشارہ اس بات کی دلیل ہے کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کے ہوتے ہوئے اس عورت سے شادی نہیں کر سکتے تھے۔ [المتوري: ص 299]

دراصل وہ حدیث جس کا ذکر امام بخاری رحمہ اللہ نے تحت الباب فرمایا ہے اس حدیث کا ٹکڑا ہے جسے امام بخاری رحمہ اللہ نے کتاب النکاح میں درج کیا ہے، حدیث میں جو الفاظ ہیں وہ یہ ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ یہ ناممکن ہے کہ اللہ کے رسول کی اور اللہ کے دشمن کی بیٹی ایک گھر میں جمع ہوں۔

اس حدیث کو پڑھنے کے بعد اب تطبیق میں مزید اضافہ ہوا کہ سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کی ناراضگی کا ڈر اس چیز پر منحصر نہیں تھا کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ دوسرا نکاح کر رہے تھے کیونکہ اس دور میں آدمی کا دوسری یا تیسری شادی کرنا ایک عام رجحان تھا لیکن سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کی ناپسندیدگی کا اظہار اس عمل پر موقوف تھا کہ وہ لڑکی ابوجہل کی بیٹی تھی، لہٰذا اللہ تعالیٰ کے دشمن کی بیٹی اور اللہ تعالیٰ کے دوست کی بیٹی ایک آدمی کے نکاح میں کس طرح سے جمع ہو سکتی تھیں؟
یہی وجہ تھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے انکار کی اور سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کی ناراضگی کی۔
   عون الباری فی مناسبات تراجم البخاری ، جلد دوئم، حدیث/صفحہ نمبر: 105   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1998  
´غیرت کا بیان۔`
مسور بن مخرمہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو منبر پہ فرماتے سنا کہ ہشام بن مغیرہ کے بیٹوں نے مجھ سے اجازت مانگی ہے کہ وہ اپنی بیٹی کا نکاح علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے کر دیں تو میں انہیں کبھی اجازت نہیں دیتا، تو میں انہیں کبھی اجازت نہیں دیتا، تو میں انہیں کبھی اجازت نہیں دیتا، سوائے اس کے کہ علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ میری بیٹی کو طلاق دے کر ان کی بیٹی سے شادی کرنا چاہیں، اس لیے کہ وہ میرے جسم کا ایک ٹکڑا ہے، جو بات اس کو بری لگتی ہے وہ مجھ کو بھی بری لگتی ہے، اور جس بات سے اس کو تکلیف ہوتی ہے اس سے مجھے بھی تکلیف ہوتی ہے ۱؎ ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابن ماجه/كتاب النكاح/حدیث: 1998]
اردو حاشہ:
فوائدومسائل:

(1)
  نبئ اکرمﷺ کو کسی بھی انداز سے پریشان کرنا جائز نہیں، اگرچہ وہ کام اصل میں جائز ہی ہولیکن رسول اللہﷺ کو کسی خاص وجہ سے ناگوار محسوس ہورہا ہو۔

(2)
  رسول اللہﷺ نے حضرت علی کو ابوجہل کی بیٹی سے نکاح کرنے سے اس لیے منع کیا کہ اس سےحضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کو تکلیف ہوگی، اس وجہ سے رسول اللہﷺ کا بھی دل دکھے گا۔
اور حضرت علی کو نبیﷺ کو پریشان کرنے کی وجہ سے اللہ تعالی کی ناراضی حاصل ہوگی۔
گویا اس ممانعت میں بھی حضرت علی پر شفقت ہے۔

(3)
منع کی دوسری وجہ یہ ہے کہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا غیرت محسوس کریں گی جس کی وجہ سے شاید اپنے خاوند کے بارے میں محبت کے وہ جذبات قائم نہ رکھ سکیں جو مطلوب ہیں۔
اس طرح یہ رشتہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے لیے ایک امتحان بن جائے گا۔
اوریہ کیفیت نظرانداز نہیں کی جا سکتی۔

(4)
  اپنی اولاد کی تکلیف محسوس کرنا محبت اور شفقت کا ثبوت ہے۔
اس تکلیف کو دور کرنے کے لیے جائز حدود میں کوشش کرنا جائز ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1998   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2069  
´ان عورتوں کا بیان جنہیں بیک وقت نکاح میں رکھنا جائز نہیں۔`
علی بن حسین کا بیان ہے وہ لوگ حسین بن علی رضی اللہ عنہ کی شہادت کے زمانے میں یزید بن معاویہ کے پاس سے مدینہ آئے تو ان سے مسور بن مخرمہ رضی اللہ عنہ ملے اور کہا: اگر میرے لائق کوئی خدمت ہو تو بتائیے تو میں نے ان سے کہا: نہیں، انہوں نے کہا: کیا آپ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تلوار دے سکتے ہیں؟ کیونکہ مجھے اندیشہ ہے کہ لوگ آپ سے اسے چھین لیں گے، اللہ کی قسم! اگر آپ اسے مجھے دیدیں گے تو اس تک کوئی ہرگز نہیں پہنچ سکے گا جب تک کہ وہ میرے نفس تک نہ پہنچ جائے ۱؎۔ علی بن ابوطالب رضی اللہ عنہ نے فاطمہ رضی اللہ عنہا کے ہوتے ہ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابي داود/كتاب النكاح /حدیث: 2069]
فوائد ومسائل:
1: حضرت فاطمہ رضی اللہ کی اپنے گھر میں اذیت رسول ﷺ کے باعث اذیت ہوتی جو حضرت علی رضی اللہ کے لئے ہلاکت کا باعث ہوتی۔
اس لیے انہیں بطورخاص اس رشتے سے منع کر دیا گیا اور یہ واقعہ ثابت کرتا ہے کہ رسول ﷺکو کسی طرح سے بھی اذیت دینا حرام ہے خواہ وہ فعل اصل میں مباح ہی ہو۔
قرآن مجید میں ہے کہ (وَمَا كَانَ لَكُمْ أَنْ تُؤْذُوا رَسُولَ اللَّهِ) (الأحزاب:35) تمہیں کسی طرح جائز نہیں کہ اللہ کے رسول کو اذیت دو۔

2:عترت رسول ﷺکو کسی طرح سے دکھ دینا اور ان کی ہتک کرنا، رسول ﷺکی ناراضی کا باعث ہے جو کہ اللہ تعالی کی ناراضی کو مستلزم ہے۔
مگر لازمی شرط ہے کہ آل رسول کہلانے والے اس کی شریعت کے حامل بھی ہوں۔

3: حضرت فاطمہ رضی اللہ رسول ﷺکی محبوب ترین صاحبزادی تھیں اور وہ اس امت کی عورتوں کی سردار ہیں۔

4: جائز ہے کہ انسان اپنی بیٹی کی وجہ سے غیرت اور غصے میں آئے لیکن اگر کوئی شخص اپنے آپ کو رسول ﷺاور حضرت فاطمہ پر قیاس کرنے لگے تو یہ ایک لغوقیاس ہے۔

5: صاحب فضل داماد کی مدح وتوصیف کی جاسکتی ہے۔

   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2069   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3729  
3729. حضرت مسور بن مخرمہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ جب حضرت علی ؓ نے ابو جہل کی بیٹی سے منگنی کی تو سیدہ فاطمہ ؓ یہ سن کر رسول اللہ ﷺ کے پاس حاضر ہوئیں اور کہا: آپ کی برادری کا خیال ہے کہ آپ اپنی بیٹیوں کی حمایت میں غصہ نہیں فرماتے۔ یہی وجہ ہے کہ حضرت علی ؓ ابوجہل کی دختر سے نکاح کرنا چاہتے ہیں۔ یہ سن کر رسول اللہ ﷺ کھڑے ہوئے، میں اس وقت سن رہاتھا جب آپ نے خطبے کے بعد فرمایا: أمابعد!میں نے ابو العاص بن ربیع رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ایک بیٹی کا نکاح کیا تواس نے مجھ سے جو بات کی اسے سچا کردکھایا۔ بے شک فاطمہ ؓ میرا جگر گوشہ ہے اور میں یہ گوارا نہیں کرتا کہ اسے رنج پہنچے۔ اللہ کی قسم! رسول اللہ ﷺ کی بیٹی اور اللہ کے دشمن کی بیٹی ایک شخص کے عقد میں نہیں رہ سکتیں۔ یہ سنتے ہی حضرت علی ؓ نے اس منگنی کو ترک کردیا۔ محمد بن۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:3729]
حدیث حاشیہ:
حضرت ابوالعاص مقسم بن الربیع ہیں۔
آنحضرت ﷺ کی صاحبزادی حضرت زینب ؓ ان کے نکاح میں تھیں، بدر کے دن اسلام قبول کرکے مدینہ کی طرف ہجرت کی۔
آنحضرت ﷺ سے سچی محبت رکھتے تھے، جنگ یمامہ میں جام شہادت نوش فرمایا۔
ان کی فضیلت کے لیے کافی ہے کہ خود آنحضرت ﷺ نے ان کی وفاداری کی تعریف فرمائی۔
جب حضرت ابوالعاص ؓ کا یہ حال ہے تو پھر علی ؓ سے تعجب ہے کہ وہ اپنا وعدہ کیوں پورا نہ کریں۔
ہوا یہ تھا کہ ابوالعاص ؓ نے حضرت زینب ؓ سے نکاح ہوتے وقت یہ شرط کرلی تھی کہ ان کے رہنے تک میں دوسری بیوی نہ کروں گا، اس شرط کو ابوالعاص نے پورا کیا۔
شاید حضرت علی ؓ نے بھی یہی شرط کی ہو۔
لیکن جویریہ کو پیام دیتے وقت وہ بھول گئے تھے۔
جب آنحضرت ﷺ نے عتاب کا یہ خطبہ پڑھا تو ان کو اپنی شرط یا د آگئی اور وہ اس ارادے سے باز آئے۔
بعض نے کہا کہ حضرت علی ؓ سے ایسی کوئی شرط نہیں ہوئی تھی لیکن حضرت فاطمہ ؓ بڑے رنجوں میں گرفتار تھیں۔
والدہ گزرگئیں، تینوں بہنیں گزرگئیں، اکیلی باقی رہ گئی تھیں، اب سوکن آنے سے وہ پریشان ہوکر اندیشہ تھا کہ ان کی جان کو نقصان پہنچے۔
اس لیے آپ نے حضرت علی ؓ پر عتاب فرمایا تھا۔
(وحیدی)
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3729   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3729  
3729. حضرت مسور بن مخرمہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ جب حضرت علی ؓ نے ابو جہل کی بیٹی سے منگنی کی تو سیدہ فاطمہ ؓ یہ سن کر رسول اللہ ﷺ کے پاس حاضر ہوئیں اور کہا: آپ کی برادری کا خیال ہے کہ آپ اپنی بیٹیوں کی حمایت میں غصہ نہیں فرماتے۔ یہی وجہ ہے کہ حضرت علی ؓ ابوجہل کی دختر سے نکاح کرنا چاہتے ہیں۔ یہ سن کر رسول اللہ ﷺ کھڑے ہوئے، میں اس وقت سن رہاتھا جب آپ نے خطبے کے بعد فرمایا: أمابعد!میں نے ابو العاص بن ربیع رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ایک بیٹی کا نکاح کیا تواس نے مجھ سے جو بات کی اسے سچا کردکھایا۔ بے شک فاطمہ ؓ میرا جگر گوشہ ہے اور میں یہ گوارا نہیں کرتا کہ اسے رنج پہنچے۔ اللہ کی قسم! رسول اللہ ﷺ کی بیٹی اور اللہ کے دشمن کی بیٹی ایک شخص کے عقد میں نہیں رہ سکتیں۔ یہ سنتے ہی حضرت علی ؓ نے اس منگنی کو ترک کردیا۔ محمد بن۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:3729]
حدیث حاشیہ:

رسول اللہ ﷺ کے ایک داماد حضرت ابو العاص بن ربیع ؓ ہیں جو آپ کی بیٹی حضرت زینب ؓ کے خاوند تھے اس حدیث میں ان کا ذکر خیر ہے۔
مشرکین مکہ نے حضرت ابو العاص بن ربیع ؓ پر دباؤ ڈالا تھا کہ رسول اللہ ﷺ کی بیٹی کو طلاق دے دیں۔
تو انھوں نے صاف انکار کردیا۔
رسول اللہ ﷺ اس بنا پر قرابت دامادی کی تعریف کر رہے ہیں نیز رسول اللہ ﷺ نے اپنی بیٹی کے نکاح کے وقت حضرت ابو العاص بن ربیع ؓ سے یہ شرط کی تھی کہ ان کی موجودگی میں کسی دوسری عورت سے نکاح نہیں کریں گے انھوں نے اس شرط کو پورا کیا، شاید حضرت علی ؓ نے بھی یہی شرط کی ہومگر آپ بھول گئے اور عموم جواز پر نظر رکھتے ہوئے ابو جہل کی بیٹی سے منگنی کی۔
لیکن جب رسول اللہ ﷺ نے اظہار ناراضی کرتے ہوئے خطبہ دیا تو انھوں نے اپنا ارادہ ترک کردیا اسی طرح حضرت ابو العاص بن ربیع ؓ جب غزوہ بدر میں قیدی بن کر آئے تو رسول اللہ ﷺ نے اسے رہا کرتے ہوئے کہا تھا:
میری بیٹی زینب کو مدینہ طیبہ بھیج دینا۔
تو انھوں نے اس وعدے کے مطابق انھیں بھیج دیا تھا۔
رسول اللہ ﷺ نے ان کی تعریف کی ہے۔

واضح رہے کہ وہ فتح مکہ سے پہلے مسلمان ہوگئے تھے پھر انھوں نے مدینہ طیبہ کی طرف ہجرت کی تو رسول اللہ ﷺ نے حضرت زینب ؓ کو ان کی زوجیت میں دے دیا۔
حضرت امامہ ؓ ان کی بیٹی تھیں جنھیں رسول اللہ ﷺ دوران نماز میں اپنے کندھوں پر اٹھالیا کرتے تھے۔
حضرت ابو العاص بن ربیع ؓ یمامہ کی لڑائی میں ذوالحجہ 12ھ کو شہید ہوئے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3729