صحيح البخاري
كِتَاب فَضَائِلِ الصحابة -- کتاب: نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب کی فضیلت
22. بَابُ مَنَاقِبُ الْحَسَنِ وَالْحُسَيْنِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا:
باب: حسن اور حسین رضی اللہ عنہما کے فضائل کا بیان۔
حدیث نمبر: 3748
حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ الْحُسَيْنِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ: حَدَّثَنِي حُسَيْنُ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا جَرِيرٌ، عَنْ مُحَمَّدٍ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، أُتِيَ عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ زِيَادٍ، بِرَأْسِ الْحُسَيْنِ عَلَيْهِ السَّلَام فَجُعِلَ فِي طَسْتٍ فَجَعَلَ يَنْكُتُ، وَقَالَ: فِي حُسْنِهِ شَيْئًا، فَقَالَ أَنَسٌ:" كَانَ أَشْبَهَهُمْ بِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَكَانَ مَخْضُوبًا بِالْوَسْمَةِ".
مجھ سے محمد بن حسین بن ابراہیم نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے حسین بن محمد نے بیان کیا، کہا ہم سے جریر نے بیان کیا، ان سے محمد نے اور ان سے انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے کہ جب حسین رضی اللہ عنہ کا سر مبارک عبیداللہ بن زیاد کے پاس لایا گیا اور ایک طشت میں رکھ دیا گیا تو وہ بدبخت اس پر لکڑی سے مارنے لگا اور آپ کے حسن اور خوبصورتی کے بارے میں بھی کچھ کہا (کہ میں نے اس سے زیادہ خوبصورت چہرہ نہیں دیکھا) اس پر انس رضی اللہ عنہ نے کہا حسین رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سب سے زیادہ مشابہ تھے۔ انہوں نے «وسمة‏.‏» کا خضاب استعمال کر رکھا تھا۔
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 3778  
´حسن و حسین رضی الله عنہما کے مناقب کا بیان`
انس بن مالک رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں عبیداللہ بن زیاد کے پاس تھا کہ حسین رضی الله عنہ کا سر لایا گیا تو وہ ان کی ناک میں اپنی چھڑی مار کر کہنے لگا میں نے اس جیسا خوبصورت کسی کو نہیں دیکھا کیوں ان کا ذکر حسن سے کیا جاتا ہے (جب کہ وہ حسین نہیں ہے) ۱؎۔ تو میں نے کہا: سنو یہ اہل بیت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سب سے زیادہ مشابہ تھے ۲؎۔ [سنن ترمذي/كتاب المناقب/حدیث: 3778]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
یہ جملہ اس نے حسین رضی اللہ عنہ کے حسن اور آپ ؓ کی خوبصورتی سے متعلق طعن و استہزاء کے طور پر کہا تھا،
اسی لیے انس بن مالک ؓ نے اسے جواب دیا۔

2؎:
اس سے پہلے حدیث (رقم: 3786) کے تحت زہری کی ایک روایت انس رضی اللہ عنہ سے گزری ہے،
اس میں ہے کہ حسن بن علی رضی اللہ عنہما سے زیادہ اللہ کے رسول ﷺ سے مشابہ کوئی نہیں تھا اور اس روایت میں یہ ہے کہ حسین بن علی رضی اللہ عنہما سب سے زیادہ مشابہ تھے،
بظاہر دونوں روایتوں میں تعارض پایا جا رہا ہے،
علماء نے دونوں روایتوں میں تطبیق کی جو صورت نکالی ہے وہ یہ ہے:
(1) زہری کی روایت میں جو مذکور ہے یہ اس وقت کی بات ہے جب حسن رضی اللہ عنہ باحیات تھے اور اس وقت وہ اپنے بھائی حسین بن علی ؓ کی بہ نسبت رسول اللہﷺ سے زیادہ مشابہت رکھتے تھے اور انس رضی اللہ عنہ کی اس روایت میں جو مذکور ہے یہ حسن رضی اللہ عنہ کی وفات کے بعد کا واقعہ ہے۔

(2) یہ بھی کہا جاتا ہے کہ حسین بن علی رضی اللہ عنہما کو جن لوگوں نے اللہ کے رسولﷺ سے مشابہ قرار دیا ہے تو ان لوگوں نے حسن ؓ کو مستثنیٰ کر کے یہ بات کہی ہے۔

(3) یہ بھی ہے کہ دونوں میں سے ہر ایک کسی نہ کسی صورت میں اللہ کے رسولﷺ سے مشابہ تھے۔
(دیکھئے اگلی روایت)
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 3778   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3748  
3748. حضرت انس ؓ سے روایت ہے، کہ والی کوفہ عبیداللہ بن زیاد کے پاس حضرت حسین ؓ کا سر مبارک لایا گیا جس کو ایک طشت میں رکھا گیا تھا تو وہ بدبخت اس پر لکڑی مارنے لگا اور آپ کی خوبصورتی کے متعلق بھی کچھ کہا۔ حضرت انس ؓ نے اس وقت فرمایا: یہ تو ان (اہل بیت میں)سب سے زیادہ رسول اللہ ﷺ کے ہم شکل تھے۔ حضرت حسین ؓ نے وسمہ کا خضاب استعمال کر رکھاتھا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3748]
حدیث حاشیہ:

جامع ترمذی میں ہے کہ ابن زیاد حضرت حسین ؓ کی ناک پر چھڑی مار کر کہنے لگا۔
یہ کس قدر خوبصورت ہے۔
(جامع الترمذي، المناقب، حدیث: 3778)
معجم طبرانی میں ہے کہ وہ دو آنکھوں اور ناک پر چھڑی مارتا تھا تو زید بن ارقم ؓ نے اسے کہا:
اپنی چھڑی سر سے اٹھالو۔
میں نے اس جگہ رسول اللہ ﷺ کاہن مبارک دیکھا تھا۔
(المعجم الکبیر للطبراني: 210/5۔
رقم 5121)

مسند بزار میں ہے کہ حضرت انس ؓ نے ابن زیادہ سے کہا میں نے رسول اللہ ﷺ کو اس جگہ بوسہ دیتے دیکھا ہے جہاں تو چھڑی مار رہا ہے تو وہ رک گیا(مسند البزار: 299/2، رقم: 6632۔
و فتح الباري: 122/7)


وسمہ ایک بوٹی ہے جس سے بالوں کو رنگا جاتا ہے۔
اس سے بال سیاہی مائل ہو جاتے ہیں خالص سیاہی سے ممانعت ہے اگر اس میں مہندی کا رنگ غالب ہو تو ممانعت نہیں ہے شریعت کی منشا یہ ہے کہ بالوں کی سفیدی جوانی کے بالوں کی سیاہی سے خلط ملط نہ ہو، بوڑھا آدمی،جوان نہ لگے۔
واللہ أعلم۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3748