صحيح البخاري
كِتَاب فَضَائِلِ الصحابة -- کتاب: نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب کی فضیلت
27. بَابُ مَنَاقِبُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ:
باب: عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے فضائل کا بیان۔
حدیث نمبر: 3761
حَدَّثَنَا مُوسَى، عَنْ أَبِي عَوَانَةَ، عَنْ مُغِيرَةَ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ عَلْقَمَةَ دَخَلْتُ الشَّأْمَ فَصَلَّيْتُ رَكْعَتَيْنِ، فَقُلْتُ: اللَّهُمَّ يَسِّرْ لِي جَلِيسًا , فَرَأَيْتُ شَيْخًا مُقْبِلًا فَلَمَّا دَنَا، قُلْتُ: أَرْجُو أَنْ يَكُونَ اسْتَجَابَ، قَالَ: مِنْ أَيْنَ أَنْتَ؟، قُلْتُ: مِنْ أَهْلِ الْكُوفَةِ، قَالَ: أَفَلَمْ يَكُنْ فِيكُمْ صَاحِبُ النَّعْلَيْنِ وَالْوِسَادِ وَالْمِطْهَرَةِ؟ أَوَلَمْ يَكُنْ فِيكُمُ الَّذِي أُجِيرَ مِنَ الشَّيْطَانِ؟ أَوَلَمْ يَكُنْ فِيكُمْ صَاحِبُ السِّرِّ الَّذِي لَا يَعْلَمُهُ غَيْرُهُ؟ كَيْفَ قَرَأَ ابْنُ أُمِّ عَبْدٍ وَاللَّيْلِ؟ فَقَرَأْتُ: وَاللَّيْلِ إِذَا يَغْشَى {1} وَالنَّهَارِ إِذَا تَجَلَّى {2} سورة الليل آية 1-2 , 0 وَالذَّكَرِ وَالْأُنْثَى 0 , قَالَ: أَقْرَأَنِيهَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَاهُ إِلَى فِيَّ فَمَا زَالَ هَؤُلَاءِ حَتَّى كَادُوا يَرُدُّونِي.
ہم سے موسیٰ نے بیان کیا، ان سے ابوعوانہ نے، ان سے مغیرہ نے، ان سے ابراہیم نے، ان سے علقمہ نے کہ میں شام پہنچا تو سب سے پہلے میں نے دو رکعت نماز پڑھی اور یہ دعا کی کہ اے اللہ! مجھے کسی (نیک) ساتھی کی صحبت سے فیض یابی کی توفیق عطا فرما۔ چنانچہ میں نے دیکھا کہ ایک بزرگ آ رہے ہیں، جب وہ قریب آ گئے تو میں نے سوچا کہ شاید میری دعا قبول ہو گئی ہے۔ انہوں نے دریافت فرمایا: آپ کا وطن کہاں ہے؟ میں نے عرض کیا کہ میں کوفہ کا رہنے والا ہوں، اس پر انہوں نے فرمایا: کیا تمہارے یہاں «صاحب النعلين والوساد والمطهرة» (عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ) نہیں ہیں؟ کیا تمہارے یہاں وہ صحابی نہیں ہیں جنہیں شیطان سے (اللہ کی) پناہ مل چکی ہے۔ (یعنی عمار بن یاسر رضی اللہ عنہما) کیا تمہارے یہاں سربستہ رازوں کے جاننے والے نہیں ہیں کہ جنہیں ان کے سوا اور کوئی نہیں جانتا (پھر دریافت فرمایا) ابن ام عبد (عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ) آیت «والليل‏» کی قرآت کس طرح کرتے ہیں؟ میں نے عرض کیا کہ «والليل إذا يغشى * والنهار إذا تجلى * والذكر والأنثى‏» آپ نے فرمایا کہ مجھے بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود اپنی زبان مبارک سے اسی طرح سکھایا تھا۔ لیکن اب شام والے مجھے اس طرح قرآت کرنے سے ہٹانا چاہتے ہیں۔
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 2939  
´سورۃ اللیل میں «واللیل إذا یغشی والذکر والأنثی» کی قرأت کا بیان۔`
علقمہ کہتے ہیں کہ ہم شام پہنچے تو ابوالدرواء رضی الله عنہ ہمارے پاس آئے اور کہا: کیا تم میں کوئی شخص ایسا ہے جو عبداللہ بن مسعود کی قرأت کی طرح پر قرأت کرتا ہو؟ تو لوگوں نے میری طرف اشارہ کیا، میں نے کہا: ہاں، انہوں نے کہا: تم نے یہ آیت «والليل إذا يغشى» عبداللہ بن مسعود کو کیسے پڑھتے ہوئے سنا ہے؟ میں نے کہا: میں نے انہیں «والليل إذا يغشى والذكر والأنثى» ۱؎ پڑھتے ہوئے سنا ہے۔ ابو الدرداء نے کہا: اور میں، قسم اللہ کی، میں نے بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایسا ہی پڑھتے ہوئے سنا ہے، اور یہ لوگ چاہتے ہی۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ترمذي/كتاب القراءات/حدیث: 2939]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
مشہورقراء ت ہے ﴿وَاللَّيْلِ إِذَا يَغْشَى وَالنَّهَارِ إِذَا تَجَلَّى،
وَمَا خَلَقَ الذَّكَرِ وَالأُنْثَى﴾
حدیث میں مذکور قراء ت اس میں مذکوراشخاص ہی کی ہے،
ان کے علاوہ اور کسی بھی قاری سے یہ منقول نہیں ہے،
عثمان رضی اللہ عنہ کے قراء ت شاید اس کے منسوخ ہو جانے کی خبر پہنچی ہو جو ان مذکورہ اشخاص تک نہیں پہنچی ہو۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 2939   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3761  
3761. حضرت علقمہ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ میں شام پہنچا تو سب سے پہلے میں نے دو رکعت نماز پڑھی اوردعامانگی: اے اللہ!مجھے کسی نیک ساتھی کی رفاقت نصیب ہو، چنانچہ میں نے دیکھا کہ ایک بزرگ آرہے ہیں۔ جب وہ قریب آگئے تو میں نے(دل میں) کہا: شاید میری دعا قبول ہوگئی ہے۔ انھوں نے پوچھا: آپ کہاں سے ہیں؟میں نے عرض کیا: کوفہ کا رہنے والا ہوں۔ انھوں نے فرمایا: کیا تمہارے ہاں صاحب نعلین، صاحب وسادہ اور صاحب مطہرہ نہیں ہیں؟کیا تمہارے پاس وہ شخصیت نہیں ہے جسے شیطان مردود سے پناہ مل چکی ہے؟کیا تمہارے ہاں سربستہ راز جاننے والے نہیں ہیں، جن رازوں کو ان کے سوا اور کوئی نہیں جانتا؟پھر فرمایا: ابن ام عبدسورہ لیل کی تلاوت کس طرح کرتے ہیں؟میں نے کہا: وہ اس طرح پڑھتے ہیں: ﴿وَاللَّيْلِ إِذَا يَغْشَىٰ ﴿١﴾ وَالنَّهَارِ إِذَا تَجَلَّىٰ ﴿٢﴾ وَالذَّكَرَ وَالْأُنثَىٰ﴾ انھوں نے فرمایا: مجھے نبی کریم ﷺ نے اپنی زبان مبارک سے اسی طرح سکھایا تھا لیکن اب اہل شام مجھے اس طرح قراءت کرنے سے ہٹانا چاہتے ہیں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3761]
حدیث حاشیہ:

ابن ام عبد سے مراد حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ ہیں کیونکہ ان کی والدہ ام عبد کے نام سے مشہور تھیں۔

حضرت ابودرداء ؓ نے اس لیے مذکورہ سوالات کیے کہ علقمہ کو بتایا جائے تمہارے پاس ایسے ایسے علماء موجود ہیں،ان کی موجودگی میں کسی دوسرے سے علم سیکھنے کی ضرورت نہیں ہے۔

حضرت عبداللہ بن مسعود رسول اللہ ﷺ کے جوتے،چھاگل اور تکیہ اٹھا کر آپ کے ساتھ چلا کرتے تھے۔
آپ کی مسواک کا بھی اہتمام کرتے تھے،آپ کو وضو کراتے،جب آپ غسل فرماتے توپردہ کرتے۔
رسول اللہ ﷺ ان سے کوئی بات پوشیدہ نہیں رکھتے تھے۔
رسول اللہ ﷺ نے ان سے فرمایا تھا:
جب تم آؤ تو پردہ اٹھاکراندرچلے آؤ۔
جب تک میں تمھیں منع نہ کرو گھر میں آنے کی اجازت ہے۔
بہرحال حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ کو خادم خاص کی حیثیت حاصل تھی۔
(عمدة القاري: 472/11)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3761